موبائل فون کا غلط استعمال اور وڈیوز لیک معاملہ
عنوان: موبائل فون کا غلط استعمال اور وڈیوز لیک معاملہ
تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی
دور حاضر میں موبائل فون کی اہمیت سے ہر کوئی واقف ہے۔ یہ دور حاضر کی زبردست ایجاد ہے جس نے زندگی میں بہت سی سہولیات بہم پہچائی ہیں۔ ہم اس چھوٹی سی چیز سے گھر بیٹھے پوری دنیا کی خبریں لمحوں میں حاصل کر لیتے ہیں۔ قریبی رشتہ داروں اور دوست واحباب کی خیریت معلوم کرکے ان کے دکھ سکھ کو شیئر کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے نیکی اور بھلائی کی باتیں پھیلا کر ایک صاف ستھرا اور شائستہ معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو موبائل فون اب انسانی زندگی کا ایک خاص حصہ بن چکا ہے۔ یہ دورحاضر کی ایک ایسی ایجاد اور شاہکار کارنامہ ہے جس نے ہرطبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے انسان کی بھرپور توجہ حاصل کر لی ہے بلکہ بڑی برق رفتاری سے ہماری خلوت وجلوت میں داخل ہوگیا ہے۔ اس ایجاد نے زمینی فاصلوں کوسمیٹ کررکھ دیا ہے۔ گہرے سمندروں اور فلک بوس پہاڑوں نے جزیروں اور براعظموں میں پھیلے ہوئے انسانوں کے درمیان جو دیواریں کھڑی کی تھیں،انسانی ذہن کی اس کوشش نے انہیں منہدم کردیاہے۔ مہینوں اوربرسوں کے مسافتوں کو سمیٹ کر رکھ دیاہے۔ ہرنمودار ہونے والی صبح کے ساتھ موبائل فون کی نئی سہولتیں متعارف ہورہی ہیں۔ ایک مسلمان کے طور پر اگر جائزہ لیا جائے تو اسلام قطعا مادی ترقی کا مخالف نہیں ہے بلکہ وہ ہرنئی ایجاد جوانسان کی مادی اورروحانی ترقی کے لیے ممد ومعاون ثابت ہو، اس کا خیرمقدم کرتاہے۔ البتہ جو چیزسب سے اہم ہے وہ اس کے استعمال کا طریقہ کار اور مقاصد ہیں۔ ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ فون پر بات کرتے ہوئے اس کوکبھی بے جان آلہ مت سمجھیں۔ بلکہ یہ پورا آئینہ ہے جو آپ کاعکس دوسری جا نب پہنچا رہاہے لہٰذا کچھ امور کا ہمیشہ خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔ ہمیشہ جلدی فون اٹھا لیں۔ بلاوجہ کسی کو انتظار نہ کروائیں۔ گفتگو شروع کرتے ہوئے ہیلو ہیلو کہنے کی بجائے السلام علیکم کہنے کی عادت ڈالیں۔ گفتگو میں شائستگی اور وقار ہو۔ ہمیشہ گفتگو میں اعتدال سے کام لینا ہی بہتر ہوتا ہے۔اسی طرح کسی کو آرام کے اوقات میں فون کرنے سے گریز کریں، بہت صبح سویرے،رات گئے تک’ دوپہرمیں جب آرام کاوقت ہو تو پھر کسی کو کال کرنے میں احتیاط ضروری ہے۔ مسکراتے ہوئے میٹھے لہجے میں بات کریں۔ نماز کی ادائیگی کیلئے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے موبائل فون بند کردیں تاکہ نمازمیں خلل نہ ہو۔ علاوہ ازیں قدرت کی اس نعمت کو دعوت و تبلیغ تذکیر و اصلاح کا ذریعہ بنائیں۔ البتہ اس بات کادھیان رہے کہ بسااوقات مختلف لوگوں کی طرف سے کسی مضمون یا تحریر کو قرآن وحدیث کی عبارت ظاہر کرکے پیغامات کی شکل میں بھیج دیاجاتاہے اورساتھ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ثواب کی غرض سے بھیجنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔ ایسی عبارات یاخبروں کی صحت کاجب تک کامل یقین نہ ہو اسے آگے منتقل نہیں کرناچاہیے۔ماضی میں گھر کے سرپرست کے لئے گھر کے بچوں اوردیگر افراد پر نظر رکھنا انتہائی آسا ن تھا۔ لیکن اب چونکہ بچہ، بچہ موبائل استعمال کررہاہے تو والدین اور گھر کے بڑوں کافرض بنتاہے کہ نئی نسل کواس کے غلط استعمال سے باز رکھنے کیلئے ان پر نظر رکھیں۔ عمدہ انداز میں اس کے برے انجا م سے انہیں خبردار کریں۔موبائل فون کے ذریعےبراہ راست گفتگو کرنے کے علاوہ دوسری سب سے اہم سہولت پیغامات کی ترسیل ہے۔ اس لئے ایک مسلمان کے لیے لازمی ہے کہ وہ پیغامات دوسروں کو بھیجنے میں اسلامی آداب کوپیش نظر رکھے۔ خوشی کے لمحات اوراہم قومی اور مذہبی تہواروں پرایسے پیغامات کی ترسیل جو اپنے مضمون اور پیغام کے اعتبار سے بھیجنے والےکے حسن ذوق اور وقار کا مظہر ہوں ۔بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ جہاں موبائل کے بے شمار فوائد ہیں وہاں اس کے غلط استعمال کی وجہ سے بہت سی خرابیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ عریاں تصاویر اور فحش وڈیوز سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔ اپنی تنہائیوں میں بھی اللہ کا خوف کرکے ان کو دیکھنے سے محفوظ رہنا بہت ضروری ہے۔ یہ آج کے دور کی ہماری آزمائش اور بری وبا بھی ہے۔ آج کل وطن عزیز میں بڑے بڑوں کی نازیبا وڈیوز لیک کر کے تماشا بنایا جا رہا ہے۔ الامان والحفیظ۔ موبائل فونز کے استعمال کا ایک نقصان جسمانی بیماریوں میں اضافہ ہے اس حوالے سے ماہرین طب بھی گاہے بگا ہے مختلف مشورے دیتے ہیں اورخطرات سے آگاہ کرتے آ رہے ہیں۔ اگر ڈاکٹرز کے مشوروں پر عمل کیا جائے تو موبائل فونز کے بے جا استعمال کی وجہ سے ذہنی دباؤ، پریشانی، دل کی بیماریوں، سردرد، نظر کی کمزوری اور دوسری پوشیدہ بیماریاں ختم ہو سکتی ہیں۔ فری کالز اور فری ایس ایم ایس کی وجہ سے نوجواں نسل ساری، ساری رات کالز اور ایس ایم ایس پر لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے نیند پوری نہ ہونے کی صورت میں صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ وقت اللہ کی ایک بیش بہا اور گراں مایہ نعمت ہے جو سونے و چاندی سے بھی قیمتی ہے ۔ آج کل موبائل فون پر خاصہ وقت اس کی سکرین کو دیکھنے میں ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ موبائل فون کے حوالے سے اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں جن سے بچنا از حد ضروری ہے۔ ان نقصانات سے بچنے کے لئے کچھ ایسی تدابیر اور ایسے کام کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے ہم اپنی ضرورت کے مطابق موبائل استعمال تو کریں مگر اس کے معاشرے پر پڑنے والے برے اثرات سے بھی بچا جا سکے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ذمہ داری والدین کی ہے کہ وہ بچوں کو موبائل لے کر دینے سے پہلے اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ آیا ان کے بچے کو موبائل کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں۔ پھر اس بات کا خیال رکھیں کہ بچے موبائل فون کا استعمال کس طرح سے کر رہے ہیں؟ کس سے بات کر رہے ہیں؟ کیا بات کر رہے ہیں؟ بچوں کے موبائل فون کو دیکھیں کہ وہ موبائل فونز کا غلط استعمال تو نہیں کر رہے۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے بڑے بڑے لوگ خود ہی اس موبائل کے ذریعے وڈیوز بنا کر دوسروں کی عزتیں اچھالنے اور بلیک میلنگ میں مصروف ہیں۔ وہ چھوٹوں کو کیا سمجھائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک آنے والے نسلوں کی تربیت کیلئے ایک صالح معاشرہ تشکیل پائے۔ اس مقصد کیلئے ہر فرد اپنے حصے کا فریضہ سرانجام دے تو تبدیلی ناممکن نہیں۔
بقول اسلم گورداسپوری
مُجھے اِس کارگاہِ زیست کو پھر سے بسانا ہے
یہ آڑھے ٹیڑھے بے ترتیب گھر اچھے نہیں لگتے
یہ کیسا دور ہے تخریب کو ایجاد کہتا ہے
جو ننگِ آدمیت ہوں، ہنر اچھے نہیں لگتے
کوئی مقصد تو ہونا چاہئیے آخر مُسافت کا
یہ بے مقصد یہ بے معنی سفر اچھے نہیں لگتے
اُٹھو اور اُٹھ کے اِس دھرتی کا سینہ چیر کر رکھ دو
یہ آہیں اور یہ نالے بےاثر اچھے نہیں لگتے
مُجھے بے فیض اِنسانوں سے اسؔلم سخت نفرت ہے
کہیں بھی ہوں، یہ بے سایہ شجر اچھے نہیں لگتے