” پیچھے اس امام کے “

میں ایک دن سوچ رہا تھا کہ آخر “پیچھے اس امام کے” اس جملے کا مطلب عوام کیا سمجھتی ہے،
تو میری سمجھ میں جو آیا اُسے جان کر آپ حیران ہو جائیں گے۔

پیچھے اس امام کے…
یعنی اس امام کے پیچھے پڑ جاؤ ۔!
کہاں جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
کیا کرتا ہے۔۔۔۔۔؟
کب سوتا ہے۔۔۔۔۔۔؟
اکثر یہ سنت پڑھتا نظر نہیں آتا،
اس سے پہلے کہاں نماز پڑھاتا تھا۔۔۔؟
وہاں سے کیوں نکالا گیا۔۔۔۔؟
اب وہاں کیوں جاتا ہے۔۔۔؟
فلاں سے کیوں بات کرتا ہے۔۔۔ ؟
نمازیوں کے ساتھ کیوں بیٹھتا ہے؟
نمازی بالخصوص نوجوان اس سے ملنے کیوں آتے ہیں۔۔۔۔؟
اس کے پاس موبائل کون سا ہے۔۔؟
گاڑی بہت تیز چلاتا ہے۔۔۔۔؟
اس کے پاس گاڑی کہاں سے آگئی۔۔؟
کھا کھا کر موٹا ہوگیا ہے،
جب آیا تھا تو پتلا تھا، اس کو چربی چڑھ گئی ہے ،
یہ بازار/مارکیٹ کیوں جاتا ہے۔۔۔؟
اگر محفل/میلاد/جلسہ/پروگرام میں یا کسی ضروری کام سے چلا جائے تو کہا جاتا ہے کہ
یہ امام بہت غیر حاضر ہونے لگا،
ابھی جماعت کھڑی ہو نے میں 3/4 منٹ باقی ہوتے ہیں لوگ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے کہ امام آیا یا نہیں،
سالوں سال گھر نہ جائے اپنے والدین/بیوی/ بچوں سے دور رہے اگر مہینے دو مہینے بعد دوچار دن اپنے گھر/گاؤں چلاجائے تو بعض فتنہ پرور شور مچاتے ہیں کہ لو جی امام صاحب بڑے غیر ذمہ دار ہوگئے ہیں،
(خود کو مہینے میں چار یا آٹھ چھٹیاں درکار ہوتی ہیں، مگر امام بندہ بشر تھوڑی ہے اسے چھٹی کا کیا حق پہنچتا ہے۔۔۔؟
خود روز گھر جائیں مگر امام۔۔۔؟ نہ بھئی نہ)
امام کبھی بیمار ہوجائے تو بجائے عیادت و بیمار پرسی کے اس پر بھی اعتراضات شروع کردیئے جاتے ہیں،
بس جی ان کو تو کوئی بہانہ چاہئے ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

آج اکثر ائمۂ مساجد ان چیزوں کے شکار ہیں، وہ اپنا دکھڑا کہیں تو کس سے کہیں۔۔۔؟
ان کا کوئی حامی اور مدد گار نہیں، قوم جب چاہتی ہے اماموں کو نکال دیتی ہے، اور اکثر جگہ اماموں کو حسد/بغض/ذاتی انتقام کی وجہ سے نکالا جاتا ہے، امام بیچارہ بھی اپنا بیگ اٹھا کر چل پڑتاہے،
اور جیسے ہی وہ جاتا ہے فتنہ و فساد کے چیمپئن/معاشرے کے ناسور اس کی “ایک برائی” کو “سو برائیاں” بنا کر عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔

اگر یہ جھوٹ ہے تو آپ مجھے بتائیں، اور اگر سچ ہے تو کم از کم اپنے حلقے کے امام و خطیب صاحب کے ساتھ اپنا قلبی تعلق مضبوط کریں، ہر اس شخص کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں جو امام صاحب کے بارے غلط سوچ رہے ہیں