بچپن کا انصاف !!

غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی

________ہلکی سی بوندا باندی ہوتے ہی موسم بہت اچھا ہوگیا تھا۔نیلے آسمان میں رَنگ بِرَنگی دھاریاں ایک عجیب ہی نظارہ پیش کر رہی تھیں۔اسی رم جھم میں کب رات آگئی پتا ہی نہیں چلا۔ہَوَا میں ٹھنڈک بڑھتی جارہی تھی اس لیے سب لوگ جلدی ہی بستر پر لیٹ گئے۔لیٹے ہی تھے کہ اریب مصطفیٰ کی آواز گونجی ابو جان! آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آج ہمیں نبی کی کہانی سنائیں گے۔چلئے اب تو رات بھی ہوگئی اب ہمیں نبی کی کہانی سنائیے۔
بیٹا موسم ٹھنڈا ہے صبح اسکول بھی جانا ہے اس لیے جلدی سو جاؤ، کہانی کل سنائیں گے۔

ابو جی، سنا دو نا!
مجھے بھی نیند نہیں آرہی ہے۔دوسری طرف لیٹی ہوئی زنیرہ فاطمہ بھی بھائی کے مطالبے میں شریک ہوگئیں تو بابا جان نے بچوں کی پیاری سی خواہش کو ٹالنا مناسب نہ سمجھا۔دونوں کو قریب کیا اور دھیرے سے کہا۔

سنو بچو!
یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہمارے نبی (ﷺ) کے بچپن کا زمانہ تھا۔اور ہمارے نبی اپنی اَمّی جان حضرت آمنہ کے ساتھ مَکّے میں رہتے تھے۔ایک دن مَکّے میں قبیلہ بنو سعد کی بہت ساری عورتیں آئیں۔اُنہیں میں ایک نیک خاتون دائی حلیمہ بھی تھیں۔یہ جب نبی کے گھر آئیں تو اُنہوں نے ہمارے نبی کو اٹھا کر گود میں لے لیا۔ہمارے نبی خوشی خوشی ان کی گود میں آگئے۔دائی حلیمہ کو ایسا لگا کہ جیسے اُنہوں نے کسی پھول کو گود میں اٹھا لیا ہو۔کیوں کہ ہمارے نبی پھولوں کی طرح نرم ونازک تھے۔آپ کے بدن سے ایسی خوشبو آتی تھی جیسے عطر کی ہزاروں شیشیاں ایک جگہ رکھی ہوں۔

دائی حلیمہ نے آپ کا مَن موہنا چہرہ دیکھا تو اتنا پیار آیا کہ فوراً ہی سینے سے لگا کر دودھ پلانا شروع کردیا۔

أبو جی، جب ہمارے نبی اپنی اَمّی کے ساتھ رہتے تھے تو دائی حلیمہ دودھ پلانے کیوں آئی تھیں، ہمارا مُنــّا ابــان تو امی ہی کا دودھ پیتا ہے؟

میری بِٹِیا سلامت رہو۔خدا تمہارا نصیبہ اچھا فرمائے۔بابا جان نے سوال سن کر فرط محبت میں زُنیرہ فاطمہ کا ماتھا چوم لیا۔اور کہا بیٹا!

اُس زمانے میں گاؤں دیہات کے لوگوں کا رہن سہن بہت اچھا ہوتا تھا۔وہ بڑے محنتی اور طاقت ور ہوتے تھے۔اُن کی بولی باہری لوگوں کی ملاوٹ سے پاک ہوتی تھی اس لیے ان کی زبان بھی شہر کے لوگوں سے اچھی ہوا کرتی تھی۔اس لیے مکے والے کچھ وقت کے لیے اپنے بچوں کو گاؤں دیہات اور قبیلے کی عورتوں کو دے دیا کرتے تھے تاکہ اُن کے بچے اچھے ماحول میں رہ کر دودھ پئیں۔جس سے اُنہیں طاقت ملے اور اُن کی بولی بھی شہر کے لوگوں سے اچھی ہوجائے۔دائی حلیمہ کا قبیلہ بنو سعد پورے مکے میں اپنی اچھی بولی کے لیے بہت مشہور تھا۔وہاں کا ماحول بھی بہت اچھا اور سکون والا تھا۔اس لیے ہر سال اس قبیلے کی عورتیں مکہ شریف آتی تھیں اور چھوٹے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے اپنے قبیلے لے آتی تھیں۔دائی حلیمہ بھی اسی مقصد سے مکہ شریف آئی تھیں تاکہ وہ نبی پاک کو اپنے قبیلے لے جاکر دودھ پلائیں اور گاؤں کے اچھے اور صاف ستھرے ماحول میں نبی پاک کی پرورش بھی کریں۔

اچھا! تو دائی حلیمہ اس لیے آئی تھیں،پھر اس کے بعد کیا ہوا؟

ایک بار پھر زُنیرہ نے سوال کیا جب کہ اریب مصطفیٰ بس کہانی سننے پر ہی دھیان لگائے ہوئے تھے۔سوال کرنے کی ساری ذمہ داری زُنیرہ فاطمہ اٹھائے ہوئے تھیں۔

ہاں بیٹا! دائی حلیمہ دودھ پلانے ہی آئی تھیں۔جب دائی حلیمہ نے ہمارے نبی کو سینے سے لگایا تو آپ نے صرف داہنے سینے سے دودھ پیا۔کچھ دیر بعد دائی حلیمہ نے آپ کو بائیں سینے سے بھی دودھ پلانا چاہا مگر ہمارے نبی نے کئی کوششوں کے بعد بھی بائیں سینے سے دودھ نہیں پیا۔

جانتے ہو ہمارے نبی نے ایسا کیوں کیا؟

نہیں أبو آپ ہی بتائیں نبی نے ایسا کیوں کیا؟

اس بار اریب مصطفیٰ نے جواب دے کر بتانے کی کوشش کی کہ وہ بھی کہانی میں دل چسپی لے رہے ہیں۔

پیارے بچو!
جس وقت دائی حلیمہ مکے آئی تھیں اُس وقت اُن کی گود میں اُن کا اپنا دودھ پِیتا بیٹا عبداللّه بھی موجود تھا۔اس لیے ہمارے نبی نے داہنے سینے ہی کا دودھ پیا اور بائیں سینے کا دودھ اپنے رضاعی بھائی کے لیے چھوڑ دیا تاکہ وہ بھوکا نہ رہ جائے۔اس طرح ہمارے نبی نے بچپن ہی میں انصاف کی اتنی بڑی مثال پیش کرکے سب کو اشارہ دے دیا تھا کہ آنے والے وقت میں ہمارے نبی پوری دنیا کو انصاف سے بھر دیں گے۔جہاں کوئی کسی کا حق نہیں چھین سکے گا۔ہمارے نبی دنیا میں امن اور انصاف قائم کرنے آئے تھے۔امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہر انسان کو انصاف نہ ملے۔اس لیے ہمارے نبی نے انصاف کرتے ہوئے ایک طرف کا دودھ خود پیا اور دوسری جانب کا دودھ اپنے رضاعی بھائی کے لیے چھوڑ دیا۔

اَبّو جان رضاعی بھائی کسے کہتے ہیں؟

بیٹا جب کوئی ماں کسی دوسرے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو اُس ماں کے سگے بچے دودھ پینے والے بچے کے رضاعی بھائی بہن ہوجاتے ہیں یعنی ایسے بھائی بہن جو دودھ پینے کی وجہ سے بھائی بہن بنے ہوں۔ایسوں بچوں کو رضاعی بھائی بہن کہا جاتا ہے۔ہمارے نبی نے دائی حلیمہ کا دودھ پیا تھا اس لیے اُن کے بچے ہمارے نبی کے رضاعی بھائی بہن بن گئے تھے۔

اچھا بیٹا اب یہ بتاؤ کہ اس کہانی سے ہمیں کیا سبق ملا؟

ابو جی، آپ ہی بتائیں!

اس بار زُنیرہ، اریب ایک ساتھ بولے۔

بیٹا اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں سب کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے۔جیسا کہ ہمارے نبی نے اپنے رضاعی بھائی کے لیے ایک طرف کا دودھ چھوڑ کر انصاف کی مثال قائم کی۔آپ لوگ بھی آپس میں ایک دوسرے کے لیے ایسا ہی کیا کرو۔کھانے پینے کی چیزیں ہوں یا کتابیں اور کھلونے، آپس میں مل بانٹ کر استعمال کیا کرو تاکہ کسی کا دل نہ ٹوٹے۔جب انصاف ہوتا ہے تو ہر طرف خوشی ہوتی ہے اور ناانصافی سے تکلیف اور غصہ آتا ہے جس سے سب کو نقصان ہوتا ہے۔

اب سمجھے!!

جی ابو ہم اچھی طرح سمجھ گئے ہم بھی آئندہ اپنے نبی کی طرح انصاف کریں گے اور آپس میں پیار محبت سے رہیں گے۔ساری خوشیاں مِل جُل کر ایک دوسرے کے ساتھ بانٹیں گے۔کبھی بھی کسی کا حق نہیں ماریں گے اور سب کے ساتھ پیار محبت سے رہیں گے۔

زُنیرہ کے ساتھ اریب مصطفیٰ نے بھی یہی بات دہرا دی۔

ماشاءاللہ یہ ہوئی نا بات!
چلو اب رات کافی ہوگئی ہے اب تم لوگ سو جاؤ تاکہ صبح اسکول جانے میں دیر نہ ہو۔

جی ابو، خدا حافظ

٢٧ ربیع الثانی ١٤٤٤ھ
23 نومبر 2022 بروز بدھ