فتوی اور مفتی

کچھ فتاوٰی پڑھتا ہوں تو لکھنے والے کے سخت اندازِ تحریر سے دل گھبرانے لگتا ہے اور سوچتا ہوں کہ شاید لکھنے والے کے پیشِ نظر معاملہ کا حل مقصود نہیں ہے یا وہ حکمت کے ساتھ “ مسئلہ “ سائل کو سمجھانا نہیں چاہتا بلکہ اُلجھانا چاہتا ہے.
تخصص فی الفقہ ( مفتی کورس ) کے سالِ دوئم میں جب اُستاد محترم نے میری ذمہ داری فتوٰی نویسی کی لگائی ، تو ایک سوال ” خُلع “ کے متعلق آیا کہ کیا کورٹ کے ذریعے ” خلع” ہوجائے گا اگرچہ شوہر راضی نہ ہو؟
حالانکہ اس معاملہ میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے مگر ہمارے ادارے سے اس معاملہ پر “ خلع “ نہ ہونے پر فتوٰی دیا جاتا تھا.
کیونکہ نئی نئی ذمہ داری ملی تھی تو جوش ہی جوش میں جواب کچھ طویل ہوگیا اور ہم نے اُس میں کورٹ اور جج کے اختیارات کی بحث کو بھی چھیڑ دیا .
ادارے کا طریقہ کار یہ تھا کہ فتوی لکھنے کے بعد تصدیق کے لئے ریئس المفتی ہمارے اُستاد جنہیں ہم سب طکباء محبت سے ” آغا جان “ کہتے ہیں کے پاس جایا کرتا تھا ، حضرت اغلاط کی تصحیح و فتوی کی تصدیق فرماتے تو فتوی جاری ہوتا تھا .
جب میری تحریر حضرت کے پاس پہنچی تو “بریک ٹائم” میں مجھے بلایا اور فرمایا بیٹا مسئلہ کا علم ہونا اور ہے اور مسئلہ لوگو کو سمجھانا اور ہے .
لکھتے ہوئے سائل کی ذہنیت کو مد نظر رکھنا چاہئیے یوں سمجھو کہ جیسے ایک بچہ جسے کچھ علم نہیں ہے وہ آپ کے پاس آتا ہے اور سوال کرتا ہے تو آپ کیسے اُسے سمجھاؤ گے بالکل اسی طرح سائل کو بھی سمجھو . نیز بیٹا کچھ تحریر کرتے ہوئے محتاط ہونا چاہئیے کیونکہ جو لکھ لیا گیا وہ محفوظ ہوگیا لفظ پکڑے جاتے ہیں، اس لئے کچھ کہنا ہے تو ایسے کہو یا لکھو کے لفظ پکڑے نہ جائیں . جیسا کہ اس تحریر میں بات تو ٹھیک ہے لیکن کورٹ یا جج کو اختیارات بتانے لگو گے تو کوئی حاسد اگر اس کو توہین عدالت کے لئے استعمال کرنا چاہے گا تو اُس کے لئے یہ آسان ہوگا .
گفتگو یا تحریر ایسی ہونی چاہئیے کہ بات پہنچ بھی جائے اور کچھ پکڑ میں بھی نہ آئے اور یہ صرف علم سے نہیں ۔۔ علم کے ساتھ “حکمت “سے آتا ہے

یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًاؕ-

اللہ جسے چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جسے حکمت دی جائے تو بیشک اسے بہت زیادہ بھلائی مل گئی

محمد حسن رضا خان
ٹیکساس امریکہ