مرد بھی عجیب مخلوق ہے
مرد بھی عجیب مخلوق ہے
✍️ پٹیل عبد الرحمٰن مصباحی،گجرات (انڈیا)
ویسے دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ انسانی زندگی سفر اور کھانے کے درمیان گردش کرتی رہتی ہے. کبھی وہ کھانے کے لیے سفر کرتا ہے اور کبھی سفر کے لیے کھانے کا انتظام کرتا ہے. آج جب سفر کے دوران ڈرائیور نے بس ہوٹل پر لگائی تو مذکورہ دلچسپ خیال نے کچھ دیر مسرور کیا. پھر ٹیبلوں کی سجی ہوئی قطار دیکھی تو ہمارا ہیولیٰ بھی جدید آداب طعام کے مطابق ویٹر، آرڈر، پلیٹ اور کھانے کا منتظر ہو کر بیٹھ گیا. آس پاس نظر پڑی تو ٹائٹل دیکھ کر آپ کو جو حیرت ہوئی تھی وہ پیدا کرنے والا منظر سامنے آنا شروع ہوا. میری ایک جانب ایک اکیلا مرد چپ چاپ کھانا تناول کر رہا تھا جب کہ دوسری جانب دوسرا مرد اہلیہ اور بچے سمیت گویا دعوت کے چشم براہ والے انداز میں ویٹر سے ہم کلام تھا.
اُس ایک اکیلے مرد نے کم سے کم قیمت والی ڈش کا آرڈر دیا، پھر ایک پلیٹ چاول اور متعدد روٹیوں کی قیمت کا تقابل کرتے ہوئے ان میں سے بیش قیمت کو چھوڑ کر چار روٹیوں پر اکتفا کیا. اخیر میں کچھ سالن بچ گیا تو مزید ایک روٹی منگا لی. اس سب کے دوران ویٹر نے اپنے سرمایہ دار ہوٹل مالک کی رضا جوئی کے لیے ایک پاپڈ بھی اس کی سستی تھالی میں داخل کر دیا. ویٹر نے جب پانی کی بوتل کے لیے اشارہ کیا تو اس نے ایسی نظروں سے انکار کیا جیسے وہ پینا تو چاہتا تھا مگر خریدنا نہیں. سفر کے دوران کم سے کم خرچ میں کھانے کی مجبوری ادا کرنے کا یہ پروگرام اس شخص کی ویٹر کے ساتھ اِس گفتگو پر ختم ہوا کہ اگر تم نے اپنی مرضی سے پاپڈ نہ رکھا ہوتا تو بِل میں سے پندرہ روپے اور کم ہو جاتے. شاید وہ یہ بھی سوچ رہا ہو کہ سالن اگر کم ہوتا تو ایک روٹی کی رقم بھی بچ جاتی جو ابھی ابھی اس نے پانچویں روٹی پر صرف کی تھی. میرے خیال میں وہ شادی شدہ تھا، اس لیے کہ اپنی فطرت میں ایک تنہا مرد؛ ذاتی ضروریات کے سلسلے میں اتنا محتاط نہیں ہو سکتا.
دوسری طرف وہ دوسرا مرد تھا جو ایک عورت کو رشتہ ازدواج میں لیے، اس کے ذریعے حاصل شدہ نئی نسل کے ساتھ شاہانہ انداز میں؛ ہر اچھی ڈش آرڈر کرنے کا متمنی نظر آ رہا تھا. اولاََ تو پورے مینو میں سے اس نے عمدہ اور مہنگی ڈش کا انتخاب کیا. پھر ویٹر کو گرما گرم روٹیاں، کچھ مشروبات اور مختلف قسم کے چاولوں میں سے زیادہ لذیذ چاول لانے کا حکم دیا. اس کی بود و باش متوسط طبقے کی تھی مگر کھانا وہ اعلیٰ طبقے کے گھریلو سربراہ کی طرح منگا رہا تھا، کھا رہا تھا اور کھلا رہا تھا. بل کی ادائیگی کے وقت وہ اپنے دمکتے ہوئے چہرے کے پیچھے اپنی “خرچ تلفیوں” کا افسوس چھپانے میں بھی پوری طرح کامیاب رہا. نہ ویٹر سے کوئی گلہ نہ پانی اور پاپڈ کی بن مانگی ترسیل پر کوئی شکایت.
مجھے اُس وقت ایک ہوٹل کی چھت کے نیچے؛ قریب ترین فاصلے کے باوجود؛ دو مردوں کی کیفیت کا بُعدِ مسافت؛ میرے سفر کی کل مسافت سے زیادہ لگ رہا تھا. ٹیبلوں کے بیچ گھِرا ہوا میرا ہیولیٰ اسی حیرت میں ڈوبا ہوا تھا کہ دو مرد ایک جگہ بیٹھ کر ایک ہی کام کرتے ہوئے ایک دوسرے سے اتنے زیادہ مختلف کیسے ہو سکتے ہیں!!! کشمکشِ کی یہ حالت فوراً دور ہو گئی جب میں نے اپنے ہیولے کو یہ یاد دلایا کہ ویسے دونوں ہی شادی شدہ ہیں مگر پہلا مرد اکیلا سفر پر ہے اور دوسرا ایک عورت کے ساتھ جو اس کی شریک حیات ہے.
مرد بھی عجیب مخلوق ہے نا! جب تک اکیلا (غیر شادی شدہ) ہوتا ہے بے نیاز رہتا ہے، اپنی ذات کے لیے اچھی سے اچھی چیز کا انتخاب کرتا ہے اگر چہ وہ مہنگی بلکہ بسا اوقات؛ اوقات سے باہر کی کیوں نہ ہو. پھر ایک عمر کو پہنچ کر وہ ایک عورت کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کرتا ہے. نیا سفر شروع ہوتے ہی وہ بدل سا جاتا ہے. اس کی بے نیازی کا کچھ حصہ فکر انگریزی میں ڈھل جاتا ہے اور کچھ حصہ اپنی عظمت کے گمان میں. پہلے وہ بے نیاز ہوتا ہے، لوگوں کی نظروں سے بھی اور خرچ کی زیادتی سے بھی. مگر اب شادی کے بعد وہ فیملی کے ساتھ ہو تو اپنی عظمت برقرار رکھنے کی فکر میں رہتا ہے اور اکیلا ہو تو خرچ میں کمی کرتا ہے اس عورت کی فکر میں جس کی ذمہ داری اس نے قبول کی ہے. ایک اعتبار سے بہت سخت اور خود پرست نظر آنے والی مرد نام کی یہ مخلوق بہت بھولی بھالی ہوتی ہے. مرد اپنی فطرت میں اتنا سیدھا ہوتا ہے کہ بغیر چوں چرا کیے خوشی خوشی زندگی بھر کی ذمہ داری قبول کر لیتا ہے اور قبول کر لینے کے بعد بساط سے زیادہ نبھانے کی کوشش کرتا ہے. اچھا کھانے، پہننے اور رہنے کی جگہ اچھا کھلانے، پہنانے اور رکھنے کا خوگر بن جاتا ہے.
حقیقت یہ بھی ہے کہ مرد کی یہ ساری خصوصیات اسلامی تعلیمات پر مبنی صالح معاشرے ہی میں ابھر کر آتی ہیں، جس میں عورت برابر کا نہیں بلکہ مرد کی اپنی ذات سے زیادہ حق پاتی ہے. رہا فیمنزم پر مشتمل معاشرہ تو اس میں عورت حقوق کی برابری کے شور میں مرد کے برابر ہونے سے تو رہی، الٹا اپنی انا میں ڈوب کر مرد کی قربانیوں سے بہرہ ور ہونے کی خوشی بھی گنوا بیٹھتی ہے. بہرحال زندگی کے سفر میں مرد ایک حوصلہ مند، باوقار ساتھی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے زندگی کے سفر میں عورت ایک نزاکت پسند، حیا پرور ساتھی ہے. حوصلہ و غیرت بغیر کا مرد اور وفا و حیا بغیر کی عورت؛ زندگی میں ایک دوسرے کے لیے ایسے ہی بے سود ہے جیسے مقصد بغیر کا سفر یا نمک بغیر کا کھانا بے کار ہے. مغرب کی روح فرسا بے حیائی پر مشتمل تہذیب پر مرنے والا مردہ معاشرہ اسے جتنا جلد سمجھ لے اتنے ہی جلد اس کی “نشاۃ ثانیہ” کا امکان پیدا ہو جائے گا.
15.06.1444
07.01.2023