*حدیث: کنا أنا و علي نور بین یدي اللہ تعالی کی تحقیق*

ازقلم: ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ و بانی ٹرسٹ فلاح ملت
اوجھاگنج، بستی، یو۔پی۔

بعض تفضیلی کو دیکھا گیا کہ وہ حدیث: کنا أنا و علي نور بین یدي اللہ تعالی کو امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت پر بطور استدلال پیش کرتے ہیں؛ اس لیے مناسب سمجھا کہ اس حدیث کی تحقیق پیش کردی جائے تاکہ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے صحیح راستہ بھٹکنے والوں کو ہدایت دے یا کم از کم سنی حضرات ان کے مکر و فریب سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں، وما توفیقي إلا باللہ علیه توکلت و إلیه أنیب۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قثنا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ قثنا الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ قثنا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ حَبِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((كُنَّا أَنَا وَعَلِيٌّ نُورًا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ بِأَرْبَعَةَ عَشَرَ أَلْفَ عَامٍ، فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ قَسَمَ ذَلِكَ النُّورَ جُزْءَيْنِ، فَجُزْءٌ أَنَا، وَجُزْءٌ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَامُ)) (فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل، ج۲ص۶۶۲، رقم: ۱۱۳۰، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
ترجمہ: حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((حضرت آدم علیہ السلام کے پیدا کیے جانے سے چودہ ہزار سال پہلے، میں اور علی، اللہ تعالی کے سامنے ایک نور تھے، جب اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا؛ تو اس نے اس نور کو دو جز میں تقسیم کیا، ان میں سے ایک جز میں ہوں اور دوسرا جز علی علیہ السلام))
کسی حدیث کا حکم بیان کرنے کے لیے سب سے پہلے راوی کا متعین کرنا ضروری ہوتا ہے؛ کیوں کہ اگر راوی متعین کرنے میں غلطی ہوگئی؛ تو حکم غلط ہوجائے گا اور اگر متعین کرنے میں درستگی رہی؛ تو حکم بھی درست ہوگا، اس حدیث میں سب سے پہلے راوی الحسن ہیں، چوں کہ ان کا نام یہاں مبہم ہے، حسن نام کے بہت سارے راوی ہیں اور یہاں پر ان کے والد یا دادا وغیرہ کا ذکر نہیں؛ اس لیے ان کے والد وغیرہ کو معلوم کرکے ان کی تعیین ضروری ہے۔
اس روایت میں امام احمد بن حنبل کے استاد الحسن سے مراد حسن بن علی بن صالح بن زکریا بصری، ابو سعید عدوی (۲۱۰‒۳۱۹ھ) ہیں، اس تعیین پر متعدد دلائل ہیں:
پہلی دلیل: زیر بحث حدیث نمبر ۱۱۳۰ ہے اور اس سے پہلے کی حدیث ۱۱۲۹ ہے، اس میں امام احمد بن حنبل کے استاد حسن کا پورا نام حسن بن علی بصری کے طور پر ذکر ہے، اس میں پورے نام کی صراحت ہے، ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَصْرِيُّ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قثنا أَبِي قثنا الْحَكَمُ بْنُ ظُهَيْرٍ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ الْوَفَاةُ قَالَ: ((اللَّهُمَّ إِنِّي أَتَقَرَّبُ إِلَيْكَ بِوِلَايَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ)) (ایضا، رقم:۱۱۲۹)
اس کے بعد زیر بحث حدیث کا ذکر ہے اور پھر اسی راوی سے حدیث نمبر ۱۱۳۱، ۱۱۳۲ اور ۱۱۳۳ مذکور ہے، پھر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، دوسرے شیخ کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں، جن کا نام أبو يعلى حمزة بن داود الأُبُلِّي ہے، پھر جب انہیں سے دوسری حدیث روایت کرتے ہیں؛ تو ان کا نام صرف ابو یعلی حمزہ ذکر کرتے ہیں۔
اصول حدیث کے فن سے جو اشتغال رکھتے ہیں، انہیں بخوبی معلوم ہے کہ کسی مصنف کی کتاب میں جو تتابع کے ساتھ اسانید مذکور ہوتی ہیں، اگر ان میں سے کسی سند میں کوئی شیخ مبہم ہوتا ہے؛ تو اس شیخ مبہم کو اقرب اسانید میں مذکور نام پر محمول کیا جاتا ہے اور یہاں پر زیر بحث حدیث جس میں الحسن مبہم نام ذکر ہے، اس سے پہلے کی سند میں سب سے اقرب کے طور پر حسن بن علی بصری نام ہے، لہذا زیر بحث حدیث میں مبہم حسن یہی راوی حسن بن علی بصری ہیں۔
دوسری دلیل: اسی زیر بحث حدیث کی تخریج امام ابن عساکر نے اپنی کتاب ’تاریخ دمشق‘ میں کی ہے، اس میں زیر بحث حدیث میں موجود مبہم راوی الحسن کا پورا نام موجود ہے یعنی ابو سعید عدوی حسن بن علی اور اس روایت میں ان کے استاد وہی ہیں، جو زیر بحث حدیث میں ہیں، یعنی احمد بن مقدام عجلی۔
أخيرنا أبو غالب بن البنا أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو علي محمد بن أحمد بن يحيى العطشي نا أبو سعيد العدوي الحسن بن علي أنا أحمد بن المقدام العجلي أبو الأشعث أنا الفضيل بن عياض عن ثور بن يزيد عن خالد بن معدان عن زاذان عن سلمان قال سمعت حبي رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يقول: ((كنت أنا وعلي نورا بين يدي الله مطيعا يسبح الله ذلك النور ويقدسه قبل أن يخلق ادم بأربعة عشر ألف عام فلما خلق الله ادم ركز ذلك النور في صلبه فلم نزل في شئ واحد حتى افترقنا في صلب عبد المطلب فجزء أنا وجزء علي)) (تاریخ دمشق لابن عساکر، ج۴۲،ص۶۷، ط: دار الفکر، بیروت)
تیسری دلیل: مزید اسی زیر بحث کی تخریج ابن المغازلی نے اپنی کتاب ’مناقب امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ‘ میں کی ہے، اس میں بھی آپ کے نام کی صراحت ہے، یعنی حسن بن علی بن زکریا، اس روایت میں بھی ان کے استاد وہی ہیں، جو زیر بحث حدیث میں ہیں، یعنی احمد بن مقدام عجلی۔
أخبرنا أبو غالب محمد بن أحمد بن سهل النحوي رحمه الله، أخبرنا أبو الحسن علي بن منصور الحلبي الأخباري، أخبرنا علي بن محمد العدوي الشمشاطي، حدثنا الحسن بن علي بن زكريا، حدثنا أحمد بن المقدام العجلي، حدثنا الفضيل بن عياض عن ثور بن يزيد عن خالد بن معدان عن زادان عن سلمان قال: سمعت حبيبي محمداً صلى الله عليه وسلم يقول: ((كنت أنا وعلي نوراً بين يدي الله عز وجل، يسبح الله ذلك النور ويقدسه قبل أن يخلق الله آدم بألف عام!، فلما خلق الله آدم ركب ذلك النور في صلبه، فلم يزل في شيء واحد حتى افترقنا في صلب عبد المطلب، ففي النبوة وفي علي الخلافة)) (مناقب أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه لابن المغازلی، ص۱۴۴، رقم:۱۳۰، ط: دار الآثار، صنعاء)
ان دلائل سے واضح ہوجاتا ہے کہ زیر بحث حدیث میں مبہم راوی الحسن، وہ حسن بن علی بن صالح بن زکریا بصری، ابو سعید ہیں۔
اب جب کہ الحسن راوی کی تعیین ہوگئی؛ تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ محدثین و ناقدین نے ان کے بارے میں کیا فرمایا ہے؛ تاکہ ان کے فرامین کی روشنی میں اس راوی کے ثقہ یا ضعیف ہونے کی معلومات حاصل کی جاسکے اور نتیجہ میں حدیث کا صحیح حکم بیان کرنے میں آسانی ہو، اس راوی کے بارے میں اقوال ملاحظہ فرمائیں:
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’يضع الحديث ويسرق الحديث ويلزقه على قوم آخرين ، ويحدث عن قوم لا يعرفون وهو متهم فيهم فإن الله لم يخلقهم‘‘۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، ج۳ص۱۹۵، رقم:۴۷۴، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ترجمہ: ’’یہ حدیث گڑھنے اور چرانے کے بعد دوسرے راویوں سے روایت کرتے ہیں، اور ایسے لوگوں سے روایت کرتے ہیں، جو غیر معروف ہیں، ان سے روایت کرنے میں یہی متہم ہیں؛ کیوں کہ ان لوگوں کو پیدا ہی نہیں کیا‘‘۔
پھر ان کی بعض مسروقہ احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’و للعدوي على أهل البيت أحاديث قد وضعها غير ما ذكرت، وعامة ما حدَّث به العدوي إلا القليل موضوعات، وكنَّا نتهمه بل نتيقنه أنه هو الذي وضعها على أهل البيت وغيرهم‘‘۔ (ایضا، ص۲۰۵)
’’جو میں نے ذکر کی ہیں، ان کے علاوہ بھی عدوی کی اہل بیت سے متعلق گڑھی ہوئی احادیث ہیں، قلیل احادیث چھوڑ کر ان کی عام مرویات موضوع ہیں اور ہم انہیں کو متہم کرتے تھے بلکہ یقین کرتے تھے کہ انہوں نے ہی اہل بیت وغیرہ کے بارے میں احادیث گڑھی ہیں‘‘۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الحسن بن علي بن زكريا أبو سعيد العدوي من أهل البصرة سكن بغداد يروي عن شيوخ لم يرهم ويضع على من رآهم الحديث ….. ثم تتبعت عليه ما حدث به فلقيته قد حدث عن الثقات بالأشياء الموضوعات ما تزيد على ألف حديث سوى المقلوبات أكره ذكرها كراهية التطويل‘‘۔ (المجروحین لابن حبان، باب الباء، ج۱ص۲۴۱، رقم:۲۲۰، ط: دار الوعی، حلب)
ترجمہ: ’’حسن بن علی، یہ اصلا بصرہ کے رہنے والے ہیں، انہوں نے بغداد میں سکونت اختیار کی، یہ ایسے شیوخ سے روایت کرتے ہیں، جن کو انہوں نے دیکھا تک نہیں اور جن کو دیکھا ہے، ان پر حدیث گڑھتے ہیں……….پھر میں نے ان کی روایت کردہ احادیث کی تفتیش کی؛ تو مجھے معلوم ہوا کہ مقلوبات کے علاوہ انہوں نے ہزار سے زائد احادیث ثقات سے روایت کی ہے، طوالت کی وجہ سے میں ان کا ذکر، نا پسند کرتا ہوں‘‘۔
امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’كَتب، وسَمع، لكنه جَازَفَ، ووَضع أسانيدَ ومُتونًا، وحَمَل أسانيدَ على مُتونٍ، ومُتونًا على أسانيدَ‘‘۔ (سؤلات السلمی للدارقطنی، باب الألف، ص۹۶، رقم:۲۳، ط: ندارد)
ترجمہ: ’’انہوں نے حدیث لکھا اور سماعت کی مگر اٹکل پچھو سے کام لیا، انہوں نے اسانید و متون گڑھے، انہوں نے اسانید کو دوسرے متون اور متون کو دوسری اسانید کے ساتھ کردیا‘‘۔
نیز آپ ہی فرماتے ہیں: ’’سمعت أبا محمد البصري، يقول: الحسن بن علي بن زكريا أبو سعيد العدوي أصله بصري سكن ببغداد كذاب على رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول على رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم یقل‘‘۔ (سوالات حمزۃ للدارقطنی، باب الحاء، ص۲۱۱، ناشر: مکتبۃ المعارف، الریاض)
ترجمہ: ’’میں ابو محمد بصری کو فرماتے ہوئے سنا: ابو سعید عدوی حسن بن علی بن زکریا، اصلا بصری ہیں، انہوں نے بغداد میں سکونت اختیار کی، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بہت زیادہ جھوٹ باندھنے والے ہیں، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب وہ بات منسوب کرتے ہیں، جو انہوں کہی ہی نہیں‘‘۔
آپ ہی کے حوالے سے امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’قال الدارقطني: متروك‘‘۔ (میزان الاعتدال، امام ذہبی رحمہ اللہ، ج۱ص۵۰۶، رقم: ۱۹۰۴، ناشر: دار المعرفۃ، بیروت)
ترجمہ: ’’امام دار قطنی رحمہ اللہ نے فرمایا: وہ متروک ہیں‘‘۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ اسی راوی کا ضمنا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’و فیھا أي في سنة تسع عشرة و ثلاثمائة مات المحدث أبو سعيد الحسن بن علي بن زكريا العدوي البصري ببغداد، وكان كذابًا‘‘۔ ملخصا۔ (تذکرۃ الحفاظ، امام خطیب بغدادی، الطبقۃ الحادیۃ عشرۃ، ج۳ص۱۸، ناشر: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ترجمہ: ’’تین سو انیس ہجری میں محدث ابو سعید حسن بن علی بن زکریا عدوی بصری کا بغداد میں انتقال ہوا اور یہ کذاب تھے‘‘۔
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ، امام ابن عدی رحمہ اللہ کے حوالے سے ان کی ایک حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’هُوَ أحد المعروفين بِالْوَضْعِ‘‘۔ (اللآلی المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ، خاتم الحفاظ، کتاب المبتدأ، ج۱ص۱۰۴، ط: ندارد)
ترجمہ: ’’وہ وضع حدیث میں مشہور ہونے والوں میں سے ایک ہیں‘‘۔
امام ابن عراق کنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’الْحسن بن عَليّ بن زَكَرِيَّا أَبُو سعيد الْعَدْوى، كَذَّاب وَضاع‘‘۔ (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الأخبار الموضوعۃ، حرف الحاء المھملۃ، ج۱ص۴۹، رقم:۴۱، ناشر: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ترجمہ: ’’ابو سعید عدوی حسن بن علی بن زکریا کذاب و وضاع ہیں‘‘۔
ان اقوال سے یہ واضح ہوگیا کہ ابو سعید عدوی حسن بن علی بن زکریا، وضع و کذب سے متہم ہیں، اور یہ زیر بحث حدیث کی سند میں موجود ہیں؛ اس لیے یہ موضوع یا کم از کم سخت ضعیف ضرور ہے۔
آج کل کے بعض تفضیلی اس روایت سے امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی مطلقا افضلیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ کیوں کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف مقبول ہوتی ہے؛ لہذا امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم، اس حدیث کے پیش نظر، امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی افضل ہیں۔
پہلی بات: علماو ناقدین کے مذکورہ بالا اقوال سے واضح و روشن ہے کہ یہ حدیث محدثین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک موضوع و من گڑھت ہے؛ لہذا اس سے استدلال ہی فاسد ہے۔
دوسری بات: اگر یہ حدیث احتیاطا موضوع نہ مانی جائے؛ تو کم از کم یہ حدیث شدید ضعیف ضرور ہے، اس سے فضیلت تو ثابت ہوسکتی ہے مگر افضلیت ہرگز ثابت نہیں ہوسکتی؛ کیوں کہ امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت، تواتر و اجماع امت سے ثابت ہے، اس کے مقابل میں احادیث آحادِ صحاح بھی مقبول نہیں ہوں گی، چہ جائے کہ ضعیف یا شدید ضعیف حدیث کو قبول کیا جائے اور پھر نتیجہ میں اس سے امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی افضلیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے!
موقع کی مناسب سے یہاں فضیلت و افضلیت سے متعلق اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ کا بیان کردہ فائدہ جلیلہ نفیسہ ذکر کردینا مناسب سمجھتا ہوں، فرماتے ہیں:
’’فائدہ ۱: نفیسہ جلیلہ (فضیلت و افضلیت میں فرق ہے، دربارہ تفضیل حدیث ضعیف ہرگز مقبول نہیں) فضیلت و افضلیت میں زمین آسمان کا فرق ہے، وہ اسی باب سے ہے جس میں ضعاف بالاتفاق قابلِ قبول اور یہاں بالاجماع مردود و نامقبول۔
اقول: جس نے قبول ضعاف فی الفضائل کا منشا کہ افاداتِ سابقہ میں روشن بیانوں سے گزرا، ذہن نشین کرلیا ہے، وہ اس فرق کو بنگاہِ اولین سمجھ سکتا ہے، قبول ضعاف صرف محل نفع، بے ضرر میں ہے، جہاں اُن کے ماننے سے کسی تحلیل یا تحریم یا اضاعتِ حق غیر ، غرض مخالفت شرع کا بوجہ من الاجوہ اندیشہ نہ ہو، فضائل رجال ،مثل فضائل اعمال ایسے ہی ہیں، جن بندگانِ خدا کا فضل تفصیلی خواہ صرف اجمالی دلائل صحیحہ سے ثابت ہے، اُن کی کوئی منقبت خاصہ جسے صحاح وثوابت سے معارضت نہ ہو، اگر حدیث ضعیف میں آئے، اُس کا قبول؛ تو آپ ہی ظاہر کہ اُن کا فضل؛ تو خود صحاح سے ثابت، یہ ضعیف اُسے مانے ہی ہوئے مسئلہ میں تو فائدہ زائدہ عطا کرے گی اور اگر تنہا ضعیف ہی فضل میں آئے اور کسی صحیح کی مخالفت نہ ہو، وہ بھی مقبول ہوگی کہ صحاح میں تائید نہ سہی، خلاف بھی تو نہیں۔
بخلاف افضلیت کے کہ اس کے معنی ایک کو دوسرے سے عنداللہ بہتر و افضل ماننا ہے، یہ جب ہی جائز ہوگا کہ ہمیں خدا و رسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد سے خوب ثابت ومحقق ہوجائے، ورنہ بے ثبوت حکم لگادینے میں محتمل کہ عنداللہ امر بالعکس ہو؛تو افضل کو مفضول بنایا، یہ تصریح تنقیص شان ہے اور وہ حرام؛ تو مفسدہ تحلیل حرام وتضیع حق غیر، دونوں درپیش کہ افضل کہنا، حق اس کا تھا اور کہہ دیا اس کو۔ یہ اس صورت میں تھا کہ دلائل شرعیہ سے ایک کی افضلیت معلوم نہ ہو۔ پھر وہاں کا تو کہنا ہی کیا ہے، جہاں عقائدِ حقّہ میں ایک جانب کی تفضیل محقق ہو اور اس کے خلاف، احادیث سقام وضعاف سے استناد کیا جائے، جس طرح آج کل کے جہال حضرات شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہا پر تفضیل حضرت مولا علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم میں کرتے ہیں۔ یہ تصریح، مضادتِ شریعت ومعاندتِ سنّت ہے۔ و لہذا ائمہ دین نے تفضیلیہ کو روافض سے شمار کیا، کما بیناہ في کتابنا المبارك: ’مطلع القمرین في إبانة سبقة العمرین‘ (۱۳۹۷ھ) (جیسا کہ ہم نے اسے اپنی مبارک کتاب: ’مطلع القمرین فی إبانۃ سبقۃ العمرین‘ میں بیان کیا ہے۔ ت) بلکہ انصافاً اگر تفضیل شیخین کے خلاف کوئی حدیث صحیح بھی آئے، قطعاً واجب التاویل ہے اور اگر بفرضِ باطل صالح تاویل نہ ہو، واجب الرد کہ تفضیل شیخین، متواتر واجماعی ہے، کما أثبتنا علیه عرش التحقیق في کتابنا المذکور۔ (جیسا کہ ہم نے اپنی اس مذکورہ کتاب میں اس مسئلہ کی خوب تحقیق کی ہے۔ ت) اور متواتر و اجماع کے مقابل آحاد ہرگز نہ سُنے جائیں گے و لہذا امام احمد قسطلانی، ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں زیرحدیث: عرض علي عمر بن الخطاب و علیه قمیص یجرّہ، قالوا: فما أولت ذلك یارسول اللّٰہ! (صلی اللّٰہ تعالٰی علیه و سلم) قال: الدین۔ (مجھ پر عمر بن الخطاب کو پیش کیا گیا اور وہ اپنی قمیص گھسیٹ کر چل رہے ہیں، صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ فرمایا: دین۔ ت) فرماتے ہیں:
’’لئن سلّمنا التخصیص به (أی بالفاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنه) فھو معارض بالأحادیث الکثیرۃ البالغة درجة التواتر المعنوي الدالة علی أفضلیة الصدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنه فلا تعارضھا الآحاد، و لئن سلمنا التساوي بین الدلیلین لکن إجماع أھل السنة و الجماعة علی أفضلیته وھو قطعي فلا یعارضه ظني‘‘۔ (إرشاد الساری شرح صحیح البخاری، باب تفاضل اہل ایمان فی الاعمال، مطبوعہ: دارالکتاب العربیۃ، بیروت، ۱/ ۱۰۶)
اگر ہم یہ تخصیص ان (یعنی فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ) کے ساتھ مان لیں؛ تو یہ ان اکثر احادیث کے منافی ہے، جو تواتر معنوی کے درجہ پر ہیں اور افضلیت صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ پر دال ہیں اور احاد کا ان کے ساتھ تعارض ممکن ہی نہیں اور اگر ہم ان دونوں دلیلوں کے درمیان مساوات مان لیں، لیکن اجماعِ اہل سنت و جماعت افضلیت صدیق اکبر پر دال ہے اور وہ قطعی ہے؛ تو ظن اس کا معارض کیسے ہوسکتا ہے؟! (ت)
الجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں، جس میں ضعاف سن سکیں بلکہ مواقف وشرح مواقف میں؛ تو تصریح کی کہ بابِ عقائد سے ہے اور اس میں آحاد صحاح بھی نامسموع، حیث قالا:
’’(لیست) ھذہ المسألة (یتعلق بھا عمل فیكتفی فیھا بالظن) الذي ھو کاف في الأحکام العملیة بل ھی مسألة علمیة یطلب فیھا الیقین‘‘۔ (شرح مواقف، المرصد الرابع ازموقف سادس فی السمعیات، مطبوعہ: منشورات الشریف الرضی قم ایران، ۸/ ۳۷۲)
ان دونوں نے کہا کہ یہ مسئلہ عمل سے متعلق نہیں کہ اس میں دلیل ظنی کافی ہوجائے جو احکام میں کافی ہوتی ہے بلکہ یہ معاملہ تو عقائد میں سے ہے اس کے لئے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے۔ (ت) (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی، باب الأذان و الإقامۃ، ج۵ص۵۸۱‒۵۸۲، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، پوربندر)
تنبیہ: فضائل الصحابۃ، امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کی کتاب ہے، یہاں اشکال یہ پیدا ہوتا ہےکہ آپ ایک عظیم مجتہد ہیں، اس کے باوجود آپ نے ایک بڑی جماعت کے نزدیک موضوع و من گڑھت یا محطاط مذہب کے مطابق شدید ضعیف حدیث کو اپنی کتاب میں کیوں درج کیا؟!
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ فضائل کے باب میں ضعیف یا شدید ضعیف حدیث روایت کرنے میں تسامح سے کام لیتے تھے؛ اس لیے آپ نے اس حدیث کو اپنی اس کتاب میں جگہ دے دی۔و اللہ تعالی أعلم۔