انجمن طلبہ اسلام میدان ِ عمل میں
تحریر معین نوری

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے،11اگست, 1947 کو اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ”اگر ہم اس عظیم مملکت کو خوش اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف اور صرف عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دینی ہو گی، خصوصاً عام لوگوں اور غریبوں پر“۔
فلاح کے اِس اسلامی تصور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے،صوفیہ عظام کے طریقے پر سماجی خدمت پر یقین رکھنے والی طلبہ تنظیم، انجمن طلبہ اسلام“نے ہمیشہ طلبہ کو خدمتِ خلق اور فلاح ِانسانیت کا درس دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم کے کارکنان کئی مرتبہ ”خیر الناسِ من ینفع الناس“ کی عملی تفسیر ثابت ہوئے اور کئی مرتبہ کارکنانِ انجمن کا یہ جذبہ لوگوں کے جینے کا سہارا بنا۔
غریبوں کی دادرسی ہو یا مریضوں کی دل جوئی،علم کی شمع جلانی ہو یا بھوکے پیٹ کی آگ بجھانی ہو، کہیں سیلاب ہو یا زلزلہ آجائے یا کوئی اور حادثہ پیش آئے۔انجمن طلبہ اسلام ہر مشکل گھڑی میں فوری طور پر آگے آئی اور متاثرہ دلوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔ انجمن کے کارکنان نے بعض جگہوں پر سرکاری حکام اور فوج سے بھی پہلے پہنچ کر زلزلہ یا سیلاب متاثرین کو محفوظ مقامات تک پہنچایا یا ان کو امداد فراہم کی۔ بعض جگہوں پر تو متاثرین کو اپنے جواں وجود کا سہارا دینے کے لیے صرف اس تنظیم کے کارکنان ہی پہنچ پائے تھے۔ خدمت کے جواں جذبوں سے سرشار انجمن کے کارکنوں نے اپنی محنت اور وسائل سے کئی مرتبہ لاکھوں روپے مالیت کی امداد اکٹھی کرکے متاثرین میں تقسیم کی۔
8اکتوبر2005ء کو جب صوبہ سرحد (موجودہ نام خیبر پختون خواہ} اور آزاد کشمیر میں ملکی تاریخ کا بد ترین زلزلہ آیا تو شاید ہی انجمن کا کوئی کار کن ہو جس کی آنکھ اس المناک حادثے پر نم نہ ہوئی ہو۔ مصیبت کی اس گھڑ ی میں پاکستان بھر سے سیکڑ وں کارکنان اپنا گھر بار چھوڑ کر متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئے اور امدادی کاموں میں ہاتھ بٹایا۔ انجمن کی قیادت اور کارکنان نے عید کے ایام بھی اپنے گھروں میں گزارنے کے بجائے زلزلہ متاثرین کے درمیان گزارے. عوام ابھی2005ء کے زلزلے کے تباہ کن اثرات سے سنبھلنے نہ پائے تھے کہ2010ء کے سیلاب نے گلگت، سوات،کشمیر اور خصوصاً پنجاب و سندھ کے علاقوں میں تباہی مچا دی۔ انجمن کے کارکنان نے اس میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔اس طرح کی خدمات رفقاء و عوام کے تعاون سے سر انجام دی جاتی ہیں اور انجمن کے کارکنان بھی اپنا جیب خرچ ان پر خرچ کرتے ہیں۔
سماجی فلاحی کاموں میں انجمن طلبہ اسلام کی شرکت ہمارے معاشرے کی روشن علامات ہیں جن کے بڑے مثبت پہلو ہیں۔سماجی نوعیت کے کاموں میں حصہ لینے کے لیے طلبا اپنے شہروں، علاقوں گھروں سے باہر نکلتے ہیں، مختلف علاقوں کے مختلف زبان اور مسائل رکھنے والے افراد سے رابطے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے دکھ سکھ سے آگاہی ہوتی ہے۔ محبتوں کا سلسلہ دراز ہوتا ہے، بھائی چارے کا ماحول پیدا ہوتا ہے، قومی خدمت کے ساتھ قومی یکجہتی کے جذبات فروغ پاتے ہیں اور لسانی علاقائی تعصبات کے خاتمے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ غریب طبقے کے مسائل اور دکھوں کا مداوا ہوتا ہے۔معاشرے میں مثبت اقدار کو فروغ ملتا ہے ا ور اسلام کا پرامن، اعتدال پسند اور انسان دوست تشخص اجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ان سرگرمیوں میں شریک کارکنان کو اپنی زندگی کا اہم تحریکی تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ ان میں انسانی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔ پاکستان کے مسائل کے ساتھ جغرافیائی حالات کا پتا چلتا ہے اور ان میں مسائل و معاملات کے مشاہدے، تجزیے اور ادراک کا فہم و شعور پیدا ہوتا ہے۔دیگر سماجی تنظیموں اور شخصیات سے روابط پیدا ہوتے ہیں اور سماجی کاموں اور سماجی تنظیموں کی تشکیل میں راہنمائی ملتی ہے۔ انجمن کی یہ سرگرمیاں جہاں غریبوں کا ایک سہارا بنتی ہیں وہاں ان سے طلبہ کے وقار کی بحالی میں بھی مدد ملتی ہے۔ ان کے ذریعے طلبہ تکنیکی طور پر بہترین منصوبہ ساز، پالیسی ساز، تقسیم کار، منتظم اور اچھے رہنما بنتے ہیں۔ مختلف وسائل کو مناسب انداز میں استعمال کرنے اور ٹائم مینجمنٹ کے ساتھ بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت نوجوانوں میں تخلیق پاتی ہے۔
نفسا نفسی اور عقیدتوں عداوتوں کی کشمکش کے ماحول می انجمن نے جو یاد گار قومی و سماجی خدمات انجام دی ہیں، اُنھوں نے نہ صرف بے کسوں کی اشک شوئی کی بلکہ ان سے پاکستانی معاشرے کا ایک مثبت، خوشگوار، پر امن اور انسان دوست تشخص بھی اجاگر کرنے میں مدد ملی ہے جو فرقہ پرست اور دہشت گرد عناصر کی تشدد آمیز سرگرمیوں کے باعث بدنام ہو چلا تھا۔
1988ء میں انجمن کی جانب سے ”سماجی انقلاب“کی اصطلا ح کا استعمال، وطن عزیز کی طلبہ تاریخ میں ایک منفرد باب کا اضافہ تھا۔انجمن طلبہ اسلام نے اپنی مختلف سماجی خدمات پر فوج کے سربراہ سمیت اعلیٰ حکام، سیاسی راہ نماؤں،اقوام متحدہ کے نمایندوں اور مبصرین سے خراج تحسین کے علاوہ 1992ء میں ”انجمن ہلال احمر“سے سماجی خدمات کا ایوارڈبھی وصول کیا ہے۔
آج پھر انجمن طلبہ اسلام ماضی کے چراغوں کو روشن کرتے ہوئے ، اندھیرے دور کرنے کے لیے کوشاں ہے اور بارش اور سیلاب سے متاثرہ اور چھتوں سے محروم افراد کی مدد کرنے میں شب روز مصروف عمل ہے۔
2022 کی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں میں انجمن طلبہ اسلام کے کارکنوں نے اپنی محنت، جذبے اور وسائل سے ایک ہزار سے زائد خاندانوں کو راشن ، کپڑے اور ضرورت کا دیگر سامان فراہم کیا ۔ ہم خیال تنظیموں میں انجمن کی مرکزی قیادت کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس نے سب سے پہلے بلوچستان کا دورہ کیا اور متاثرین کی داد رسی میں اپنا کردار ادا کیا۔
پھولا پھلا رہے یارب میری امیدوں کا چمن
سدا سلامت اے ٹی آئی، تا قیامت اے ٹی آئی
ہم نہ ہوں ، ہمارے بعد اے ٹی آئی
🌹🇵🇰🌷

معین نوری، کراچی،