امیر اسماعیل سامانی کا ایک واقعہ

تحریر : نثار مصباحی
رکن روشن مستقبل، دہلی

ترکمانستان کے شمال-مشرق اور افغانستان کے شمال میں ایک بڑی ندی ہے جسے دریاے آمو (آمو دریا) اور ‘نہر جیحون’ کہا جاتا ہے۔ یہی دریا زمانۂ قدیم میں ‘خراسان’ اور ‘ماوراء النهر’ کے درمیان حدِ فاصل مانا جاتا تھا۔ افغانستان (اور کچھ ترکمانستان) کی طرف جو خطۂ زمین ہے اسے پہلے ‘خراسان’ کہا جاتا تھا اور دریا کے اُس پار (دوسری طرف) کا جو علاقہ ہے جہاں سمرقند و بخارا وغیرہ شہر واقع ہیں اسے ‘ما وراء النھر’ کہا جاتا تھا۔
تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں (261ھ سے 389ھ تک) ماوراء النہر، افغانستان، فارس، اور کچھ مزید علاقوں پر محیط ایک بڑی سلطنت تھی جسے ‘سامانی سلطنت’ کہا جاتا ہے۔ یہ عباسی خلافت سے ملحق ایک سلطنت و امارت تھی۔ اس کے عملی اور حقیقی بانی امیر ‘اسماعیل بن أحمد بن اسد بن سامان'(وفات 295ھ) تھے۔ ان سے قبل ان کے والد احمد بن اسد اور تین چچا(نوح، یحیی، الیاس) عباسی خلافت کی جانب سے بالترتیب فرغانہ، سمرقند، شاش و اشروسنہ، اور ہرات(افغانستان) کے حاکم تھے۔ پھر ان کے والد امیر احمد بن اسد(وفات 251ھ) فرغانہ کے علاوہ شاش، سمرقند اور صغد وغیرہ کے اکیلے حاکم ہوگئے۔ پھر ان کے بھائی امیر نصر بن أحمد(وفات 279ھ) کو عباسی خلیفہ معتمد باللہ نے 261ھ میں پورے ماوراء النہر کا حاکم بنا دیا۔ اس طرح سامانی خانوادے کے ایک فرد کا تسلط پورے ماوراء النهر پر قائم ہو گیا۔ یہی اس سلطنت کا نقطۂ آغاز ہے۔ مگر اسے باقاعدہ ایک سلطنت امیر نصر کے بھائی امیر اسماعیل نے 279ھ میں اپنے بھائی نصر کے انتقال کے بعد بنایا۔
امیر اسماعیل سامانی نے اپنے دورِ حکومت میں سامانی سلطنت کو جو وسعت دی، وہی اس سلطنت کی وسعت کا نقطۂ عروج بھی ہے۔ (ان کے دور میں سلطنت کی وسعت آپ نقشے میں دیکھ سکتے ہیں)
سامانی سلطنت ایک سنی مسلم سلطنت تھی اور اس کے امرا سنی عقیدے کے حامل تھے۔ ان لوگوں نے کئی بلادِ کفار بھی فتح کیے۔ ثقہ محدّث سعید بن مسعود مروزی(وفات 271ھ) کے بیٹے أحمد بن سعید بن مسعود المروزی کہتے ہیں:
“لو لم يكن لآل سامان إلا ما فتحوا من بلاد الكفر لكفى. فإنهم فتحوا مسيرة شهر.”
ترجمہ : “اگر سامانیوں کے پاس کوئی اور کارنامہ نہ ہوتا سواے اس کے جو بلادِ کفر انھوں نے فتح کیے، تب بھی یہ کافی ہوتا۔ کیوں کہ ان لوگوں نے ایک مہینے کی مسافت بھر علاقہ فتح کیا۔”
امیر اسماعیل سامانی خود سنی عقیدے کے عالم، فاضل، محدث تھے۔ امام ابن خزیمہ(وفات 311ھ) وغیرہ محدثین نے ان سے روایتیں لی ہیں۔
ان کے بارے میں حافظ شمس الدین ذہبی(وفات 748ھ) لکھتے ہیں:
“كان عالما، فاضلا، عادلا، حسن السيرة في الرعية، مكرما للعلماء، مشهورا بالشجاعة و الإقدام.” (تاريخ الإسلام، ج 6، ص 919)
یعنی امیر اسماعیل سامانی عالِم، فاضل، صاحبِ عدل و انصاف تھے۔ رعایا کے ساتھ ان کا برتاؤ اچھا تھا۔ علما کی تعظیم و اِکرام کرتے تھے۔ شجاعت و بہادری اور حملہ و اقدام میں مشہور تھے۔

ان کی زندگی میں ایک نہایت اہم واقعہ ان کے ساتھ پیش آیا جو گستاخانِ صحابہ کے لیے جاے عبرت ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے والد (امیر احمد بن اسد) ہماری تعلیم و تربیت کے لیے ایک معلم و مؤدِب لائے۔ وہ ہمیں (تعلیم و تربیت کے ساتھ) رافضیت بھی سکھاتا تھا۔(اور وہ ہم میں رافضیت پیوست کرنے میں کامیاب بھی ہو گیا)!!! (یہاں تک کہ) میں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی تنقیص تک کرنے لگا تھا۔ اسی دوران مَیں ایک دن سویا تو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھی تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
تو میرے صحابہ کی گستاخی کیوں کرتا ہے؟
میں کچھ نہیں بول سکا۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس میری طرف اٹھایا اور میرے چہرے پر جھاڑ دیا!!! میں گھبرا کر اٹھ گیا۔(نیند سے بیدار ہو گیا)۔ میرا پورا بدن بخار سے کانپ رہا تھا۔ میں بیمار ہو گیا۔ میرے سر کے بال تک جھڑ گئے۔ میں سات مہینے تک اسی طرح بیمار رہ کر بستر پر پڑا رہا!!!
پھر ایک دن میرے بھائی میرے پاس آئے، اور بولے:
آخر تیرا معاملہ کیا ہے؟(یعنی آخر تیری اس مسلسل بیماری کی وجہ کیا ہے؟)
میں نے پوری تفصیل انھیں بتا دی۔ تو انھوں نے کہا :
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے معافی مانگ!!!
پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں معذرت اور معافی مانگی اور (سچے دل سے صحابۂ کرام کی گستاخی اور رافضیت سے) میں نے توبہ کی!!
اس کے بعد بمشکل ایک جمعہ گزرا اور میرے بال اُگ آئے۔ (میں شفا یاب ہو گیا)!!
(تاریخ الاِسلام للذھبی، ج 6، ص 919)

نثار مصباحی
خلیل آباد
۹ رجب ۱۴۴۴ھ