انطاکیہ ۔۔۔۔۔ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر
انطاکیہ ۔۔۔۔۔ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر 😪
طالب علمی کے زمانے میں رومتہ الکبری کی تاریخ پڑھتے ہوئے، ان کے جن چند شہروں سے میری بڑی دوستی تھی اور مجھے ان کے نام بھی بہت fascinate کرتے تھے ،ان میں ایک انطاکیہ(Antocheia ) بھی تھا، یہ شہر آج ترکی کا حصہ ہے اور ان دس شہروں میں شامل ہے جو حالیہ زلزلے میں بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔
اگر آپ نیچے دیا ہوا نقشہ دیکھیں تو جنوب مشرقی ترکی کا ایک حصہ مزید جنوب میں شام میں داخل ہوتا نظر آئے گا ،یہیں انطاکیہ واقع ہے ۔یہ بحیرہ روم کے ساحل سے 14 میل کے فاصلے پر واقع ہے، اور ایک زمانے میں شام کا سرحدی شہر تھا ۔
اس شہر کی بنیاد سلیوکس Seleucus اول نے300 قبل مسیح میں رکھی تھی ۔ رومی سپہ سالار پومپی Pompey نے اس شہر پر 64قبل مسیح میں قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد وہ ایشیا میں رومیوں کا سب سے اہم شہر اور سلطنت روما کی ایشیائی ولایات کا صدر مقام بن گیا ۔
یہ شہر کئ بار ایران کے ساسانی بادشاہوں کے حملوں کی وجہ سے تاراج ہوا، اور کئ بار زلزلوں کے ہاتھوں ۔ آج کل جو لوگ ترکی کے حالیہ زلزلوں کو ہارپ ٹیکنالوجی کی کرشمہ سازی بتا رہے ہیں، وہ محض conspiracy theory ہے ۔کیونکہ یہ علاقہ صدیوں سے زلزلوں کی زد پر رہا ہے ۔
ایرانی بادشاہ شاہ پور اول نے انطاکیہ کو 258ء اور پھر 260ء میں مفتوح اور تاراج کیا۔ 540ء میں ایران کے ساسانی بادشاہ خسرو اول( انوشیروان ) نے اس کا محاصرہ کر کے تباہ کیا۔اس کے بعد قیصر روم جسٹینین Justinian نے انطاکیہ کو مضبوط حصار میں از سرنو تعمیر کرایا ۔یہی حدود ازمنہ وسطی کے پورے دور میں قائم رہیں۔لیکن اس کے باوجود ایرانی لشکروں نے اس خوبصورت سرحدی شہر کو 602ء اور 611ء میں تاراج کیا۔ بار بار بسنے اور اجڑنے والا یہ شہر 16ھج/637ء میں عرب مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا ۔ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا زمانہ خلافت تھا ۔
اموی دور میں اس شہر کا خاصا تذکرہ ملتا ہے اور پھر عباسی دور میں بھی ،چونکہ یہ بازنطینی سلطنت اور اموی وعباسی سلطنت کے درمیان واقع تھا لہذا عربوں نے اسے اپنے سرحدی فوجی نظام(العواصم) کا صدر مقام بنا لیا تھا اور بظاہر علمی سرگرمیوں کا بھی مرکز بنا رہا ۔
صلیبی جنگوں کے درمیان یہ علاقہ سخت متاثر ہوا، کبھی عیسائیوں کے قبضے میں چلا جاتا اور کبھی مسلمان اسے واپس لے لیتے ۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد اس شہر پر فروری 1919ء میں فرانسیسی افواج نے قبضہ جمایا اور اسے شام کے انتداب mandate میں شامل کر لیا، جبکہ ترکی کا دعوی یہ تھا کہ انطاکیہ اور حطائے کا پورا علاقہ اس کا حصہ ہے ۔بالاخر 23 جون 1939 کے معاہدے کی رو سے حطائے،اسکندرون اور انطاکیہ وغیرہ پر ترکی کا دعوی تسلیم کر لیا گیا اور اس کے بعد آپ ان شہروں کو، جو شام کے شمال میں واقع ہیں۔ترکی کا حصہ دیکھتے ہیں ۔
شام کا شمالی علاقہ، صدیوں سے زلزلوں کی زد پر رہا ہے ۔ قبل مسیح میں بھی یہاں زلزلے آتے تھے ۔۔۔۔۔اموی اور عباسی دور میں بھی یہاں زلزلے آتے رہے ۔1872 ء میں اتنا شدید زلزلہ آیا تھا کہ پورا شہر برباد ہو گیا تھا ۔ شام کا شمالی علاقہ، ترکی کا جنوب مشرقی علاقہ اور استنبول یہ سارے علاقے فالٹ لائین پر قائم ہیں ۔
ان شہروں کے بچاو کا صرف ایک ہی طریقہ ہو سکتا ہے کہ یہاں آبادی کا دباو کم سے کم رکھا جائے ۔۔۔۔۔۔کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر پابندی لگا دی جائے ۔۔۔۔۔زیادہ سے زیادہ چار منزلہ عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت ہو وہ بھی زلزلہ پروف ہوں ۔۔۔۔۔۔ماہرین اس حوالےسے اور بھی تدابیر سوچ سکتے ہیں ۔
فی الوقت ہماری دعائیں اہل ترکیہ اور اہل شام کے ساتھ ہیں، اللہ تعالی رحم فرمائے، وہاں کے باشندوں کو عافیت میں رکھے آمین
نگار سجاد ظہیر