حقوق نسواں کے عالمی دن پر کچھ گزارشات
عنوان: حقوق نسواں کے عالمی دن پر کچھ گزارشات
تحریر: پروفیسر مسعوداختر ہزاروی
اشاعت: جمعة المبارک،10 مارچ 2023 ۔۔ روزنامہ اوصاف کے تمام ایڈیشنز کے ادارتی صفحہ نمبر ایک پر
https://www.dailyausaf.com/epaper/popup.php?newssrc=issues/2023-03-10/181409/p8_06.gif
🏝🇵🇰🏝🇵🇰🏝🇵🇰🏝🇵🇰🏝🇵🇰🏝🇵🇰
ہر سال8 مارچ کو “خواتین کے حقوق کا عالمی دن” منایا جاتا ہے۔ یہ دن دنیا بھر میں ان کے حقوق سے آگاہی اور مسائل کے حل کیلئے منایا جاتا ہے۔ کالمز اور فیچر لکھے جاتے ہیں،سیمینار ہوتے ہیں،جلسے جلوس ہوتے ہیں،ٹی وی پر ٹاک شو ہوتے ہیں۔ اس دن عورتوں کی آزادی کے تحفظ کے وعدے دہرائے جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر بعض اوقات تعصب، لاعلمی یا کم فہمی کی بنیاد پر اسلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کو حقوق نہیں دئے گئے۔ حالانکہ مستند تاریخی حقائق گواہ ہیں کہ اسلام سے قبل عورتوں کا بہت برا حال تھا۔ اُن کی کوئی عزت تھی اور نہ وقعت ۔ زمانہ جاہلیت میں عورتوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ ایسے ظالمانہ ماحول میں اسلام نے عملی طور پرعورتوں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ ماں ، بہن، بیٹی اور بیوی کے طور پر عزت دی۔ جنت کو ماؤں کے قدموں کے نیچے قرار دیا گیا۔ علاوہ ازیں عورتوں کیلئے حق مہر مقرر کیا گیا، عورتوں کیلئے قرآن کی آیات نازل فرماکر وراثت میں حصے مقرر کیے گئے ۔اسلام نے عورت کو معاشی ذمہ داریوں سے آزاد کر کے گھر کی ملکہ بنایا ہے۔اسلام کے مطابق مرد و عورت ایک دوسرے کے سکون کیلئے بنائے گئے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے۔نکاح کر کے میاں،بیوی ایک دوسرے سےآسودگی حاصل کر سکتے ہیں البتہ اسلامی سماج میں شتر بے مہار آزادی کی گنجائش نہیں ہے۔اسلام سب کے ساتھ انصاف کا قائل ہے نہ کہ برابری کا اوراسی میں سب کے لیے عافیت بھی ہے۔ بھلا کون عقل مند اس پر راضی ہو سکتا ہے کہ ماں اور بیوی کو یا بیوی اور بہن کو یکساں حقوق دیے جائیں؟ ہاں سب کو ان کے جائزحقوق دیئے جانے چاہئیں۔ اسلام کی نظر میں مرد، مرد ہے اور عورت، عورت ہے۔ دونوں کے کچھ خصوصی امتیازات، مناصب اور ذمہ داریاں ہیں۔ ہروہ شعبہ جوخیر کا ہو اس میں مناسب پردے میں رہ کر عورت کام کر سکتی ہے۔ اسلام میں عورتیں جنگوں میں شرکت کرکے نرسنگ اور پانی پلانے کا کام کرتی رہیں اس طرح اسلام نے کھل کر عورت کے حقوق کا تحفظ کیا ہے۔ اگر ان پر مسلمان عمل نہ کریں تو اس میں اسلام کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ بعض اوقات ہماری ان کوہتاہیوں کی وجہ سے متعصب یا کم علم لوگ اسلام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہے۔ دور حاضر میں بے شک عورت کو آزادی ملی ہے۔ لیکن اس آزادی کے ثمرات کیا ہیں؟ کہیں خواتین کو آزادی کے نام پر ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے ان کی حرمت اور وقار کو پامال کیا جا رہا ہے تو کہیں یہی عورت ماڈرن ازم کے نام پر مردوں کی حوس پوری کرنے کی مشین بنی ہوئی ہے۔ آزادی ملی مگر اسے سکون نہیں ملا۔ اس آزادی کے نتیجے میں بغیر شادی کے بچے پیدا کرتی ہے۔ بچوں کو چائلڈ کیئر سینٹروں کے حوالے کر کے خود زندگی کے دیگر مشاغل سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔پھر ہوتا کیا ہے کہ “چائلڈ کیئر سینٹروں” کی تربیت یافتہ اولاد بڑے ہو کر ماں باپ کو انہی کے گھروں سے بے دخل کرکے “اولڈ ایج ہومز” میں منتقل کردیتی ہے۔ اگر ایک مشرقی عورت شوہر، ساس،سسر اور بچوں کیلئے کھانا پکائے،صفائی کرے تو اسے قیدی سمجھا جاتا ہے اور اگر عورت مساج سنٹروں، بازاروں اور ہوٹلوں میں ماڈل گرل،سیلز گرل، ویٹر گرل کے طور پر اس سے کہیں گھٹیا کام غیر مردوں کے لئے کرے تو اسے’’ آزادی‘‘ کہا جاتا ہے۔ واہ جی واہ۔ قربان جائیں اس عقل نا رسا پر۔ پاکستانی سماج میں عمومی سطح پر عورت کا باوقار مقام ہے۔ البتہ قبائلی جاگیردارانہ نظام کے پسماندہ علاقوں میں آج بھی خواتین پر دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کی روک تھام کیلئے قانون سازی بھی کی جا چکی ہے لیکن ابھی تک اس کا مکمل نفاذ ممکن نہیں ہو سکا مثلاََ خواتین کی قرآن سے شادی، ونی کی رسم، کارو کاری قرار دینا۔ ان حالات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ آج پھر عورتوں کو وہی درجہ دے دیا گیا ہے جو زمانہ جاہلیت میں تھا۔ عالمی یوم خواتین کے حوالے سے ایک توجہ طلب پہلو یہ بھی ہے کہ اگر خواتین کے عالمی دن کا بنیادی مقصد خواتین کی معاشرتی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ عورت جہاں ظلم کی چکی میں پس رہی ہو، وہاں اس ظلم و ستم کو آشکار کر کے اسے نجات دلانا مقصود ہوتا ہے۔ تو پھر مظلومیت کی شکار کشمیری، فلسطینی، شامی اور برمی خواتین کو کیوں بھول جاتی ہے؟ اس دن عورتوں کے جلوسوں میں “مجھے ٹائر بدلنا آتا ہے” جیسے لا یعنی بینرز کی بجائے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے کشمیر ی خواتین پر ظلم و جبر کے بینر کیوں آویزاں نہیں کیے جاتے؟ حالانکہ وہاں عورتیں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جنوری 1989سے اب تک بھارتی فوجیوں نے ایک لاکھ بیس ہزار سے زائدشہریوں کو شہید کیا جن میں ہزاروں خواتین شامل ہیں جنوری 1989سے اب تک جاری ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں 22,990خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ بھارتی فوجیوں نے 10,828خواتین کی بے حرمتیاں کیں۔ کشمیری مائیں اپنے لاپتہ بیٹوں کی گھر واپسی کی منتظر ہیں جبکہ ہزاروں خواتین اپنے لاپتہ شوہروں کی جدائی میں کرب کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں مقبوضہ کشمیر میں خاص طور پرخواتین جس المناک صورت حال سے دوچار ہیں وہ تمام انسانیت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ بھارتی فورسز مقبوضہ علاقے میں خواتین کی بے حرمتیوں کو جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کر رہی ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں کشمیری خواتین مسلسل خوف اور ذہنی تناؤ کی حالت میں رہ رہی ہیں۔ گھروں میں گھس کر عورتوں اور بچوں پر پیلٹ گن کے فائر کئے جا رہے ہیں کشمیری خواتین سات دہائیوں سے ظلم و ستم برداشت کر رہی ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظر ان پر نہیں پڑتی۔ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح سے خواتین کی بے حرمتی کی گئی ہے اس کی مثال ماضی کی پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی نہیں ملتی صرف 1981میں کپواڑہ کے علاقے کنن پورہ میں 100 سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ بھارتی فوج اور ’’را‘‘ کشمیری خواتین کی بے حرمتی اور نوجوانوں کا کھلے عام قتل عام کر رہی ہے۔ سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت کشمیریوں کا قاتل اور جنگی جرائم کا مجرم ہے۔ بھارتی فوج تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کے لئے کشمیری خواتین کو براہ راست جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں بسنے والی عورتیں سب سے زیادہ بے بسی والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ایک رپورٹ ’’کشمیر انڈر سیج‘‘ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی سیکورٹی فورسز مقبوضہ وادی میں تلاشی کے بہانے گھروں میں داخل ہو جاتی ہیں اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مسلم خواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ “عالمی یوم خواتین” کا قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں ہندووں، فلسطین میں یہودیوں اور برما میں بدھووں کے ہاتھوں مسلمان عورتوں پر ہونے والے درد ناک ظلم و جبر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔