تسلیم اور صبر
اِدْفَعْ بالَّتِی ھِیَ أَحْسَنُ
عموماً لوگوں کو یہ کہتے سنا جاتاہے کہ مجھے غلط بات برداشت نہیں ہوتی
یعنی انکے کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مجھے صرف اچھی باتیں برداشت ہوتی ہے
حالانکہ اچھی باتوں کو برداشت کرنا ہی نہیں پڑتا انہیں تسلیم کرنا ہوتا ہے براشت ہمیشہ طبیعت کے مخالف باتوں کو کیا جاتا ہے
درج بالا آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رب کریم نے اس آیت میں ایمان والوں کو غیظ و غضب میں صبر کا اور نادانی وجہالت کے وقت حلم و بردباری کا اور برائی کے مقابلہ میں عفو و درگزر کا حکم دیا ہے، جب وہ ایسا کریں گے تو خدا ان کو شیطان کے اثر سے محفوظ رکھے گا۔ (تفسیر کبیر: ۱۳/۶۴۰)
ہم میں سے اکثر نے اپنی ذات کے ارد گرد کچھ خود ساختہ اصولوں کی دیوار بنائی ہوتی ہے یوں تو وہ بہت نرم گو بااخلاق اور حلیم نظر آتے ہیں مگر جب کبھی کوئی ان دیواروں کو پھلانگنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بھڑک اٹھتے ہیں انکی وہ ساری قوت برداشت والا خول پھٹ جاتا ہے
من چاہی زندگی میں خلل برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے
ایسے لوگ درحقیقت صبر کی حقیقت سے واقف ہی نہیں حالانکہ
جذبات کو قابومیں رکھنے اور صبر و تحمل کی فضیلت اور ثواب کی کثرت اس بنیاد پر ہے کہ اس میں ایک شخص کو امتحان کی مختلف راہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ کہیں ملتے ہوئے فائدوں سے محرومی کو گوارا کرنا پڑتا ہے، کبھی خارجی مجبوری کے بغیر خود سے اپنے آپ کو کسی چیز کا پابند کرلینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی بے عزتی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کہیں زیادہ کو چھوڑ کر کم پر قانع ہونا پڑتا ہے، کہیں قدرت رکھتے ہوئے اپنے ہاتھ پاوٴں کو روک لینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی مقبولیت کو دفن کرنے پر راضی ہونا پڑتا ہے، کہیں شہرت اور استقبال کے راستے کو چھوڑ کر گمنامی کے طریقے کو اختیار کرنا پڑتا ہے، کہیں الفاظ کا ذخیرہ ہوتے ہوئے اپنی زبان کو بند کرلینا پڑتا ہے ، کہیں جانتے بوجھتے دوسرے کا بوجھ اپنے سر پر لے لینا پڑتا ہے، کہیں اپنے آپ کو ایسے کام میں شریک کرنا پڑتا ہے جس میں کسی قسم کا کوئی کریڈٹ ملنے والا نہیں، ان تمام مواقع پر نفس کو کچل کر خلافِ نفس کام کرنے پر اپنے آپ کو مجبور کرنا پڑتا ہے ، یہی وہ راز ہے جس سے انسان کا سفر ہمیشہ بلندی کی طرف جاری رہتا ہے، وہ کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا اور نہ کبھی سخت مایوسی کا شکار ہوتا ہے
جمالیات