ایک غیر مقلد کی سات جھوٹی باتیں اور انکشاف حقیقت
٧٨٦/٩٢
*ایک غیر مقلد کی سات جھوٹی باتیں اور انکشاف حقیقت*
معزز قارئین کرام:
آج سوشل میڈیا کا دور دورا ہے اور اسی کے زریعے دشمنان مذہب وملت بڑی چابک دستی سے ہماری بھولی بھالی عوام کو گمراہ کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں ابھی حال ہی میں ایک عمران نامی غیر مقلد مولوی
کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اس نے سات سفید جھوٹ بول کر عوام الناس کو زبردست دھوکہ دینے کی ناپاک کوشش کی ہے
معزز قارئین کرام: میں نےجب اس کی گفتگو دھیان سے سنی تو پتہ چلا کہ اس خبیث و خسیس شخص کی ساری باتیں جہالت ولاعلمی پر دال ہیں
معززین قارئین کرام:اس کمینے شخص نے جو سات سفید جھوٹ بولے حقیقت حال کے ساتھ ذرا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور انصاف کریں ۔
جھوٹ نمبر1
وہ بڑے دعوے کے ساتھ کہتا ہے کہ کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی مکہ معظمہ گئے ہی نہیں۔
حالانکہ مستند مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زندگی میں پچپن حج وعمرے اداکئے (الخیرات الحسان ص 122)
امام ابن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
فرماتے ہیں کہ جب آپ آخری مرتبہ حج کے لئے مکہ معظمہ گئے تو کعبہ کے دربانوں کو اپنا نصف مال دیکر بیت اللہ شریف کے اندر شب بھر عبادت کرنے کی سعادت سے شرف یاب ہوئے۔کعبتہ اللہ شریف کے اندر داخل ہوکر آپ نے نصف قرآن اپنےایک پیر پر کھڑے ہو کر اور باقی نصف قرآن دوسرےپیرپر کھڑے ہو پڑھا پھر اپنے رب تعالیٰ کے حضور یوں دعا کی٫٫اے میرے رب میں نے تیری معرفت کا (اپنی بساط کے مطابق) حق ادا کرنے کی سعی بلیغ کی جیسا کہ تیری عبادت کا حق ہے سو تو میری خدمت کی کمی کو کمال معرفت کی وجہ سے بخش دے،،کعبتہ اللہ شریف کے اندر سے آواز آئی تم نے اچھی طرح معرفت حاصل کی اور خدمت عبادت میں خلوص کا مظاہرہ کیا ہم نے تمہیں بھی بخش دیا اور قیامت تک جو تمہارے مذہب پر عمل پیرا ہو گا اسے بھی بخش دیا ہے (الخیرات الحسان ص 122)
قارئین کرام: اب آپ ہی از راہ دیانت بتائیں کہ کیا کوئی شخص بغیر مکہ معظمہ پہنچے ہی حج وعمرہ ادا کرسکتا ہے ۔
معزز قارئین کرام: میں آپ کو مزید مستند حوالوں کے زریعے بتاتا ہوں کہ امام اعظم ابوحنیفہ کئ دفعہ مکہ معظمہ گئے
چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ جب میں مکہ معظمہ گیا تو وہاں کے مشہور فقیہ ومحدث جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کی اور ان سے خوب اکتساب فیض کیا (معجم ج 2ص 93،
موفق ج 1ص 88،
خطیب ج 13 ص 330
الاعتصام ج 1ص 82
حلیة الاولیاء ج 3ص 314
مناقب الامام ابی حنیفہ ص76
العقد الثمین ج 6ص 91 )
اور صاحب مناقب امام اعظم نقل فرماتے ہیں کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اکثر احادیث کی روایات حضرت عطاء بن ابی رباح سے ہی لی ہیں (مناقب امام اعظم ص122)
اس کے علاوہ صاحب المناقب امام مکی رحمۃ اللہ علیہ نے تحقیق فرمائی ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ معظمہ میں 130ھ سے 136ھ تک مقیم رہے اور کافی ایام تک آپ کو بیت اللہ شریف کے مجاور ہونے کا شرف حاصل ہوا (حیات امام ابوحنیفہ ص 78)
مکہ معظمہ میں مقیم رہے اسی پر بس نہیں بلکہ حضرت عبداللہ ابن مبارک فرماتے ہیں کہ میں نے حرم کعبہ کی مسجد میں امام اعظم ابوحنیفہ کو دیکھا کہ بیٹھے ہوئے ہیں اور مشرق ومغرب کے باشندوں کو فتوی دے رہے ہیں (موفق ج 2 ص 57)
اسی طرح رفع یدین کے مسئلے میں امام اعظم ابوحنیفہ کا امام اوزاعی کے ساتھ علمی مناظرہ بھی مکہ معظمہ کےدارالخناطیں میں منعقد ہوا جو کہ اہل علم کے مابین اعرف واشہر ہےجس کی تفصیل فتح القدیر اور مرقات شرح مشکوٰۃ وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے
معزز قارئین کرام: اس طرح کے بے شمار شواہد ہیں جس سے امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکہ معظمہ میں جانا،طویل زمانے تک مقیم رہنا، جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ سے اکتساب فیض کرنا اور فتوی دینا سب ثابت ہوتا ہے
جھوٹ نمبر 2
معززقارئین کرام:وہ غیر مقلد مولوی زور لگا کر کہتا ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ نے خود کوئی کتاب نہیں لکھی بلکہ تین سو سال کے لکھ کر ان کے نام پر ڈالی گئی کوئی محقق ہرگز یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ فلاں امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصنیف ہے
جبکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام اعظم ابوحنیفہ کی عظیم الشان تصنیف ٫٫کتاب الآثار ،،کے بارے میں فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ نے کتاب الآثار کا انتخاب چالیس ہزار حدیثوں سے کیا (تذکرة المحدثین ص 80)
اور بعینہ امام الائمہ بکر بن محمد زرنجری فرماتے
ہیں کہ ٫٫ کہ امام اعظم ابوحنیفہ نے ٫٫کتاب الآثار ،، کا انتخاب چالیس ہزار احادیث سے کیا (مناقب الامام الاعظم ج1 ص 95)
اور حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ نے اپنی تصانیف میں ستر ہزار سے زائد احادیث بیان کی ہیں اور چالیس ہزار احادیث سے ٫٫کتاب الآثار،، کا انتخاب کیا ہے
(تذکرة المحدثين ص 80)
ان کے علاوہ اور بھی کتابیں ہیں جو امام اعظم ابوحنیفہ کی تصنیف ہیں چنانچہ علامہ امام بیاضی ،علامہ صاعد بن محمد نیشاپوری اور امام محمد بن عبد الرحمن الخمیس نے چند کتابوں کی نشاندھی کی ہے
1الفقہ الاکبر2 الرسالہ 3الفقہ الابسط 4کتاب العالم والمتعلم 5الوصیہ
(اشارات المرام ص 21
الاعتقاد ص 86-85
اصول الدین عند ابی حنیفہ ص115)
معزز قارئین کرام: یہ مستند آئمہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصنیف کردہ کتابوں کو تسلیم کر تے ہیں اور وہ جاہل مطلق ہزار سو سال کے بعد نئی تحقیق لایا ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی کتاب لکھی ہی نہیں
جھوٹ نمبر 3
وہ فریبی شخص کہتا ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ کے دو شاگرد ہیں امام محمد اور امام ابو یوسف جس کے اوپرکوئی حنفی بھی اختلاف نہیں کریں گے اس میں سے ایک شاگرد مانتے تھے کہ امام اعظم ابوحنیفہ نے رفع یدین کیا اور ایک مانتے تھے کہ نہیں کیا ہے
معززین قارئین کرام:ذرا درست بات بھی آپ ملاحظہ فرمائیں
چنانچہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں ٫٫ کہ امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور اہل کوفہ کی جماعت نے فرمایا کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی بھی رفع یدین مستحب نہیں ہے اور یہی مشہور روایت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ہے ،،(شرح صحیح مسلم ،باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبتین مع تکبیرة الاحرام ص 168)
اسی طرح امام ابو جعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کی بھی شہادت ملاحظہ فرمائیں
چنانچہ آپ نقل فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ،امام محمد اور امام ابو یوسف رحمھم اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس طرح سجدوں کے وقت رفع یدین نہیں ایسے ہی رکوع کے وقت بھی رفع یدین نہیں کیا جائے گا (شرح معانی الآثار ج1 ص 148)
لہذا ان شہادتوں سے صاف ظاہر ہوگیا کہ جس طرح ترک رفع یدین کا حکم امام اعظم ابوحنیفہ سے ثابت ہے اسی طرح آپ کے دونوں شاگرد امام محمد وامام ابو یوسف کے نزدیک بھی ثابت ہے
معزز قارئین کرام: امام اعظم ابوحنیفہ کے ان دونوں جلیل القدر شاگردوں کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں اور اس جھوٹے سلفی مولوی کی جہالت دیکھیں۔
چنانچہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نمازی ابتداء نماز میں صرف ایک مرتبہ رفع یدین کرے پھر اس کے بعد پوری نماز میں کہیں بھی رفع یدین نہ کرے (موطا امام محمد ص 91-90)
اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صرف اور آغاز نماز میں رفع یدین مسنون ہے (البنایہ ج 3ص136)
جھوٹ نمبر 4
وہ تقیہ باز ،منتہل شخص کہتا ہے کہ ٫٫اصل ابوحنیفہ نے کیسے نماز پڑھی واللہ اعلم مجھے نہیں معلوم مجھے بالکل نہیں معلوم،،
معزز قارئین کرام: میں کہہ رہا ہوں اسے پتہ مگر یہاں پر لاعلمی کا مظاہرہ کرکے ان کی معتبر شخصیت کو مجروح کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے
چلو اگر واقعی اسے نہیں پتہ ہے تو میں بتاتا ہوں کہ کیسے نماز پڑھی
توسنئے امام اعظم ابوحنیفہ نے سیکڑوں احادیث صحیحہ پر عمل کرتے ہوئے بغیر رفع یدین کے نماز پڑھی اور اسی پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی چنانچہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ پوری نماز میں نمازی کو تکبیر تحریمہ کے علاوہ کہیں بھی رفع یدین کی اجازت نہیں (موطا امام محمد ص 90 ،کتاب الاصل ص 13 ،کتاب الخمہ ج 1 ص 94)
اسی طرح حضرت سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ مکہ معظمہ میں گیہوں کی منڈی میں ایک دوسرے سے ملے تو امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ تم کو کیا ہوا کہ تم نماز میں رکوع جاتے وقت اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تو امام اعظم ابوحنیفہ نے فرمایا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ملی کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز میں رکوع جاتے وقت رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے ہوں پھر امام اوزاعی کے سامنے ایک حدیث بیان فرمائی کہ ہم سے بیان کیا حماد نے ان سے ابرہیم نے ان سے علقمہ نے ان سے عبد اللہ بن مسعود نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے دوبارہ رفع یدین نہ کرتے
(مسند ابو حنیفہ بروایت ابوالحارث الحارثی ص 144)
معزز قارئین کرام یہ ہے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول وفعل جو احادیث صحیحہ کے عین مطابق ہے
جھوٹ نمبر 5
وہ مفتری غیر مقلد شخص یہ بھی کہتا ہے کہ ایک حنفی جب نماز پڑھتا ہے تو کہتا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے کہا ایسے پڑھو شافعی نے کہا مالکی نے کہا حنبلی نے کہا ۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ٫٫ صلوا کما رأیتمونى اصلى،، نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھا ہے
معزز قارئین کرام: وہ جھوٹا شخص معتمد ومستند ائمہ کرام بالخصوص امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا نام لیکر انھیں مخالف حدیث ثابت کرکے اہل ایمان کے قلوب و اذہان سے ان کے اعتبار واعتماد اور ثقاہت وعدالت کو نکالنے کی سعی لا حاصل کررہا ہے حالانکہ کہ اسے پتہ نہیں کہ یہ وہ ہستیاں ہیں جنکا علمی وروحانی فیضان تا ہنوز رواں ہے اور صبحِ قیامت تک جاری وساری رہے گا
اور ہاں اگر کوئی حنفی شخص یہ کہے کہ ایسا کرنے کے لئے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انھوں نے حدیث کے خلاف کرنے کا حکم دیا بلکہ وہ تو ایسے عظیم الشان امام ہیں کہ جس بھی چیز کو کرنے کا حکم دیتے ہیں وہ احادیث صحیحہ کی روشنی میں ہی دیتے ہیں جبھی تو آپ نے فرمایا ٫٫ اذا صح الحدیث فھو مذھبی ،، (رسم المفتی ج 1ص4،ایقاظ الھمم ص 62)
یعنی جنکے مذہب کی بنیاد ہی صحیح احادیث پر ہے
اور یہ بھی ذہن نشین کر لیں کہ اگر کوئی حنفی امام اعظم ابوحنیفہ کے حکم پر ترک رفع یدین کرتا ہے تو اسکی بنیادی وجہ وہ احادیث صحیحہ ہیں جو ترک رفع یدین پر دلالت کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تسکین خاطر کیلئے ترک رفع یدین کے ثبوت میں چند احادیث کریمہ ملاحظہ کریں
1-ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام صرف شروع نماز میں کندھوں تک رفع یدین کرتے پھر تکبیر کہہ کر یہ دعا پڑھتے ٫٫سبحاك اللهم بحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك و لا اله غيرك ،، (صحیح ابن خزیمہ ج 1 ص 239)
2-حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے اور صرف شروع نماز میں رفع یدین کانوں کے برابر کرتے پھر ثناء پڑھتے (سنن دار قطنی ج1ص 300)
3-حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رفع یدین سات مقامات پر کیا جائے نماز کے شروع میں بیت اللہ شریف کی زیارت کے وقت صفا مروہ پر عرفات ومزدلفہ میں وقوف کے وقت اور رمی جمار کے وقت (شرح معانی الآثار ج1ص 416)
4-حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کیا میں تم لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں پھر انھوں نے نماز پڑھی اور رفع یدین نہ کیا مگر ایک مرتبہ (سنن ابو داؤد ص 116)
5-حضرت ابو عون اعور رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی آپ ہر اٹھک اور سجدوں کے درمیان صرف تکبیر کہتے تھے پھر آپ نے فرمایا کہ میں تم میں سب سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں نماز کے اعتبار سے آقا ئے کریم اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری تک کی یہی نماز تھی (مسند راھویہ ج 1ص 353)
محترم قارئین کرام: اس کے علاوہ سیکڑوں احادیث صحیحہ ہیں جو ترک رفع یدین پر بین دلیل ہیں جن میں سے چند حوالے پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں تاکہ شائقین کو رجوع کرنے میں آسانی ہو
شرح معانی الآثار ج1ص 145
المستدرک للحاکم ج1ص 330
مسند احمد بن حنبل ج5 ص 275
مصنف عبد الرزاق ج2
ص 64
مسند ابوداؤد طیالسی ج 1 ص 276
سنن نسائی الکبری ج 1 ص 351
مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 240
المعجم الکبیر للطبرانی ج 3 ص 281
صحیح البخاری ج 1 ص 271
صحیح ابن خزیمہ ج 1 ص 291
جھوٹ نمبر 6
وہ جاہل سلفی مولوی بڑے دعوے کے ساتھ کہتا ہے کہ صحابہ کرام و خلفائے راشدین پورے رفع یدین کرتے تھے
معزز قارئین کرام:
سب سے پہلے آپ یہ ذہن نشیں کرلیں کہ جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کرتے صحابہ کرام وہی کرتے کیونکہ سارے کے سارے صحابہ سنت کے دلدادہ و عامل تھے
محترم قارئین کرام:ترک رفع یدین کے حوالے سے ہم نے جو مذکورہ بالا سطور میں مرفوع احادیث بیان کی بلا شبہ صحابہ کرام بھی اسی پر عمل کرتے تھے خاص طور پر حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین
ہم یہاں خلفائے راشدین کے حوالے سے کچھ شواہد پیش کرتے ملاحظہ فرمائیں
1-حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق وعمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پیچھے نماز پڑھی پس انھوں نے رفع یدین نہیں کیا مگر پہلی تکبیر کے وقت نماز کے شروع میں (سنن الکبری للبیہقی ج 1 ص 79)
2-حضرت اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی تو انھوں نے شروع نماز کے علاوہ کہیں رفع یدین نہیں کیا (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 268 مصنف عبد الرزاق ج 2 ص 71 ۔ شرح معانی الآثار ج1ص 164)
3-حضرت کلیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ باب العلم حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم صرف شروع نماز میں رفع یدین کرتے پھر دوبارہ اس کے علاوہ رفع یدین نہ کرتے (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 267۔ شرح معانی الآثار ج1ص 163۔ مسند امام زید ص 88)
4-ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ دسوں جنتی صحابہ کرام جنکے جنتی ہونے کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی وہ صرف نماز شروع کرتے وقت ہی رفع یدین کرتے تھے (عمدة القارى ج 5 ص 271)
جھوٹ نمبر 7
وہ جھوٹا شخص یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ پورے جتنے بھی خلفائے راشدین تھے انکی نماز کی جتنی بھی دلائل آتی ہیں وہ پوری سینے پر ہاتھ اور رفع یدین کی آتی ہیں
معزز قارئین کرام:جبکہ درست بات یہ ہے کہ خلفائے راشدین وصحابہ ترک رفع یدین کی طرح ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو سنت قرار دیتے
حصول اطمینان کے لئے چند دلائل پیش خدمت ہے
1-حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں دائیں ہتھیلیوں سے بائیں ہتھیلیوں کو پکڑ کر ناف کے نیچے رکھنا چاہیے (سنن ابو داؤد ج 1 ص 117)
2-حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نماز میں دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر زیر ناف باندھتے (مصنف ابن ابی شیبہ ج 3ص 322-321)
3-حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے اخلاق میں سے یہ چیزیں ہیں روزہ جلدی افطار کرنا سحری دیر سے کرنا اور نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا (الجوہر النقی للبیہقی ج 2 ص 32)
4-حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بیان فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت یہ ہے کہ ہتھیلیوں کو ہتھیلیوں پر ناف کے نیچے رکھا جائے (السنن الکبری للبیہقی ج 2 ص 31)
معزز قارئین کرام: تو دیکھا آپ نے کہ وہ شیطان صفت غیر مقلد مولوی کس طریقے سے دجل و فریب کا جال بچھا کر ہزاروں لاکھوں لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے
معزز قارئین کرام :آپ نے اس کی گفتگو سے یقیناً محسوس کرلیا ہوگا کہ وہ فراڈی آدمی قدم قدم پر جھوٹ بول کر علمی خیانت کررہا ہے
حالانکہ جھوٹ بولنے کی ممانعت اوراسکی تباہ کاریاں وہ خوب جانتا ہوگا
محترم قارئین کرام: قرآن وحدیث کی روشنی میں کذب بیانی کی ممانعت ومذمت ذرا آپ بھی ملاحظہ کیجئے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
1-واجتنبوا قول الزور (الحج: 30)
اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو
ارشاد باری تعالیٰ ہے
2-ان اللّٰہ لا یھدی ھو کاذب کفار (الزمر:3)
بے شک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا بڑا نا شکرا ہو
ارشاد باری تعالیٰ ہے
3-لعنت الله علی الکاذبین (آل عمران:61)
جھوٹوں پر اللہ کی لعنت
1-ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بد بو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے (سنن ترمذی ج 3ص 393)
2-ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
3-جھوٹ بولنا سب سے بڑی خیانت ہے (سنن ابو داؤد ج 4ص 381)
4-ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جھوٹ ایمان کے مخالف ہے (مسند احمد بن حنبل ج1ص 22)
5-ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جھوٹ بولنے سے منہ کالا ہوجاتا ہے (شعب الایمان ج 4ص 208)
6-ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جھوٹی بات کہنا کبیرہ گناہ ہے (معجم کبیر ج 18ص 140 ملخصا)
7-ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جھوٹ بولنا منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے
(صحیح مسلم ص 50)
معزز قارئین کرام:یہ وہ سات سفید جھوٹ ہیں جس کے زریعے وہ ناہنجار سلفی مولوی ہزاروں افراد کو گمراہ کر رہا ہے لہذا میں اپنی بھولی بھالی سنی عوام کو متنبہ کر تا ہوں کہ ایسے بے ایمان لوگوں کی باتیں ہرگز ہرگز نہ سنیں بلکہ صرف اور علماء اہلسنت کے ہی بیانات سنین اور انھیں کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا ہوں تاکہ داریں میں کامیاب و کامرا ں
ہو جائیں۔۔۔۔
فقط والسلام
اسیر جامی فقیر مھدی حسن نظامی علیمی میرانی غفر لہ ولوالدیہ سگ دیار سرکار شاہ میراں ،اشرف نگر،کھمبات شریف، گجرات، انڈیا