نیکیاں مشکل گناہ آسان
نیکیاں مشکل گناہ آسان
وَ اَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَ اسْتَغْنٰىۙ() وَ كَذَّبَ بِالْحُسْنٰىۙ() فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰىؕ()
تین عمل ایسے ہیں جن کے کرنے سے گناہ آسان ہوجاتے ہیں
نمبر ایک بخل سے
بخل‘ ایک مزاجی کیفیت کا نام ہے ۔ جس شخص کو یہ بیماری لگ جاتی ہے، وہ خود دنیا کی ساری چیزوں کا مالک بن کر رہنا چاہتا ہے، لیکن کسی کو کچھ بھی نہیں دینا چاہتا۔ اس کے دل و دماغ میں خودغرضی اور خودنمائی سمائی ہوئی ہوتی ہے۔ اسے صرف اپنی ذات سے محبت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے ہر رویے سے تنگی جھلکتی ہے۔ مزاج و طبیعت میں بخل نظر آتا ہے۔ اس مزاجی کیفیت کی جھلک کبھی مال و دولت میں دکھائی دیتی ہے، کبھی علم و فن میں اس کا رنگ ظاہر ہوتا ہے اور کبھی اخلاق و عادات اور رویے میں اس کی آہنگ سنی جاتی ہے۔
یعنی بخل صرف مال میں نہیں کسی بھی شبہائے زندگی میں ہوسکتاہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
السَّخِیُّ قَرِیْبٌ مِنَ اللہِ ، قَرِیْبٌ مِنَ الْجَنَّۃِ ، قَرِیْبٌ مِنَ النَّاسِ ، بَعِیْدٌ مِنَ النَّارِ، وَالْبَخِیْلُ بَعِیْدٌ مِنَ اللہِ ، بَعِیْدٌ مِنَ الْجَنَّۃِ ، بَعِیْدٌ مِنَ النَّاسِ ، قَرِیْبٌ مِنَ النَّارِ (ترمذی، دارقطنی) سخی اللہ سے قریب ہوتا ہے، جنّت سے قریب ہوتا ہے، لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جہنم سے دُور ہوتا ہے۔ بخیل اللہ سے دُور ہوتا ہے، جنّت سے دُور ہوتا ہے، لوگوں سے دُور ہوتا ہے اور جہنم سے قریب ہوتا ہے۔
دوسری برائی استغنی ہے
استغناء کی دو قسمیں ہیں ایک مقصودی صفت ہے اور دوسری مذموم ہے
استغناء عن الناس اور استغناء من الحق
یہاں استغناء سے مراد استغناء من الحق ہے
یعنی حق سے بے پرواہ ہوکر رہنے والا
یہ ایک انتہا درجے کی متکبرانہ نفسیات کی علامت ہے
تیسری برائی نیکیوں کی تکذیب
تکذیب چاہے وہ قولا ہو یا عملاً
یہ پہلی دو صفتوں کے اپنانے کا ردعمل بھی ہوسکتاہے کیونکہ
آیت مبارکہ کی تربیت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ برائیاں بتدریج آتی ہیں
یعنی پہلے بخل پیدا ہوگا پھر استغنا من الحق کی صفت پیدا ہوگی
پھر تیسرے درجے میں وہ شخص کھلم کھلا نیکیوں کا دشمن بن جائے گا
ان صفات کو اپنانے کا نقصان یہ ہوگا کہ اسکے لیے تمام برائیاں آسان ہوتی چلی جائیں گی بڑے سے بڑا گناہ اسکے بائیں ہاتھ کا کھیل بن جائے گا
چوری ڈکیتی زنا قتل جھوٹ وغیرہ اسکے لیے نہایت آسان ہوجائیں گے اور اسکے دل و دماغ سے ان برائیوں کی قباحت تک نکل جائے گی
جمالیات