*چاند کی رویت پر توجہ طلب پہلو*
از قلم
مفتی علی اصغر
28 شعبان المعظم 1444
بمطابق 21 مارچ 2023
اس بار رمضان المبارک کے چاند کی جو سائنسی پوزیشن ہے اس میں امکان رویت موجود ہے۔ اتنا اعلی تو نہیں کہ رویت عامہ ہو لیکن امکان اچھا ہے اور عرب دنیا اور پاکستان میں ایک ہی دن روزہ ہونے کا امکان موجود ہے ۔البتہ بارش اور موسم کی خرابی سے صورت حال بدل سکتی ہے کہ اصل چیز امکان نہیں بلکہ آنکھ سے چاند کا نظر آنا ہے۔
کل ایک عرب ملک سے میڈیا میں خبر رپورٹ ہوئی ہے کہ مارچ کی 21 تاریخ کو چاند دیکھنے کا کہا گیا ہے
وہاں مقامی وقت کے مطابق عشاء کا وقت اس تاریخ کو 8 بجے کے آس پاس شروع ہو رہا ہے اور وہاں کے وقت کے مطابق چاند پیدا ہی آٹھ بجے کے بعد ہوگا21 مارچ کی شام کو ناسا جیسے ادارے کی بڑی سے بڑی ٹیلی اسکوپ بھی زمین سے چاند کو نہیں دیکھ سکتی۔
ہم اس وقت افراط و تفریط کا شکار ہیں حدیث پاک میں بیان کردہ حکم پر عمل تب ہی ہوسکتا ہے جب آنکھ سے چاند دیکھنے والوں کی گواہی یا خبر لی جائے۔ایک طرف علماء کا ایک بڑا طبقہ ہے جو سائنسی حقائق کی طرف توجہ نہیں دیتا اور ان حقائق کو گواہوں پر جرح کرنے میں استعمال نہیں کرتا
اگر اس طرف توجہ دی جاتی تو پچھلے سال جو ہمارے پڑوسی برادر ملک میں سعودیہ سے بھی ایک دن پہلے جو عید منائی گئی جس دن ہمارا 28 واں روزہ تھا ایسا ہرگز نا ہوتا ایسا اسی لئے ہوا کہ جو گواہ نے کہا وہ من و عن تسلیم کر لیا گیا اس پر سائنسی حقائق کی روشنی میں جرح نہیں کی گئی۔
تو دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ مون برتھ ہونے سے بھی پہلے چاند دیکھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ حالانکہ اس کیفیت میں چاند نظر آنا نا ممکن ہے
چاند کب آنکھ سے نظر آسکتا ہے اس پر سائنسی حقائق بہت واضح ہیں۔لیکن موسم یعنی بادل آندھی ،غبار ،نمی کی وجہ سے مطلع صاف نا ہو تب آنکھ سے دیکھنے میں رکاوٹ آسکتی ہے ۔
اس لئے ایسا ممکن نہیں کہ سائنس نے اگرامکان بتایا ہے صرف اس کو تسلیم کر لیا جائے۔
بلکہ آنکھ سے دیکھنا ضروری ہے۔
لیکن جب سائنسی پوزیشن ایسی ہو کہ چاند نظر آنا ممکن نا ہو تو اس پر علماء کو تحقیق و اتفاق کی حاجت ہے ۔حضرت قبلہ مفتی منیب الرحمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی تحقیق یہی ہے کہ عدم امکان ہونے پر سائنسی حقائق بہت واضح قرینہ ہوتے ہیں ۔اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے بھی اپنی تحقیق میں تین نکاتی فارمولا بیان فرمایا ہے کہ اگر یہ تین باتیں پائی جائیں تو چاند کا آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں ہوگا ۔
گزشتہ سالوں میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے کہ لوگوں نے میرے سامنے گواہی دی لیکن جب ان سے سائنسی حقائق کی روشنی میں جرح کی تو جھوٹے ثابت ہوئے مثلا ایک شخص نے جتنے بجے چاند دیکھنے کا دعوی کیا تھا اس وقت تو چاند غروب ہوئے پانچ منٹ ہو چکے تھے بعد غروب وہ کس طرح چاند دیکھ سکتا تھا
جی ہاں چاند بھی طلوع اور غروب ہوتا ہے اس کے روز کا وقت الگ ہوتا ہے کہ اس وقت طلوع اور اس وقت غروب ہوگا
ایک شخص نے دعوی کیا کہ اس نے سورج غروب ہونے سے تھوڑا قبل چاند دیکھا ہے
یہ بالکل جھوٹا دعوی تھا سورج کی روشنی میں پہلی تاریخ کا چاند دیکھنا نا ممکن ہے
یوں سمت ہو یا سائز ہو یا دیگر بہت سارے سوالات وہ ہوتے ہیں جن سے گواہ پر جرح کر کے حقائق تک پہنچا جاتا ہے
اس مسئلہ میں غلط فہمی کی ایک بنیاد یہ ہے کہ چاند کی گردش کو ہم سورج کی طرح سمجھتے ہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ چاند کی ایک ماہ کہ جو گردش ہے وہ اپنے الگ ایک نظام پر مشتمل ہےاور یہ ایک مربوط نظام ہے پورے ماہ کا سرکل فکس طریقہ کار کے تحت چلتا ہے مثلا 10 قمری تاریخ کو چاند کتنے بجے طلوع اور غروب ہوگا اور کس جگہ سے طلوع و غروب ہوگا یہ سب بتانا ممکن ہے۔لیکن شروع اور آخری تاریخ کا چاند چونکہ آنکھ سے کبھی سائنسی امکان اور کبھی موسم وغیرہ کی وجہ سے نظر نہیں آسکتا اس لئے چاند کا کلینڈر نہیں بن سکتا اور حدیث پاک پر عمل کرنے کی وجہ سے ہم آنکھ سے دیکھنے کے پابند ہیں اور مستند گواہی پر عمل کرنے کے پابند ہیں لھذا اس نظام میں قضاء اور رویت پر مدار بے حد ضروری ہے
ہم سب سے زیادہ کنفیوز اس وقت ہوتے ہیں جب مختلف مسلم ممالک سے خبر آتی ہے کہ وہاں چاند ہو گیا ہے
حقیقت حال یہ ہے کہ ان ممالک میں کیلنڈر کو فالو کیا جاتا ہے اور مغرب سے پہلے مون برتھ کا پایا جانا کافی سمجھا جاتا ہے
اور مقامی میڈیا کہتا ہے کہ چاند نظر آگیا ہے
حالانکہ متعدد مہینوں میں چاند کا اس وقت سائنسی طور پر نظر آنا ممکن ہی نہیں ہوتا ۔
اس کو آپ نظر و فکر کا اختلاف کہہ سکتے ہیں
ایک طبقہ ہے جو اس موقف کو لے کر اس کو فالو کرتا ہے ۔
لیکن پاک و ھند میں بالخصوص جن اصولوں کو فالو کیا جاتا ہے وہ آنکھ سے نظر آنے کا معاملہ ہے
یہ بات کسی طور پر بھی درست نہیں ہے کہ آپ اس طبقہ کو صرف اس لئے مطعون کریں اور کہیں کہ اس زمانے میں چاند پر ایشو پیدا ہو رہا ہے جب چاند پر پہنچنے کی باتیں ہو رہی ہیں
حقیت یہ ہے کہ باتیں کرنا، طعن کرنا بہت آسان کام ہے لیکن ایشو کیا ہے اور کیوں پیدا ہو رہا ہے یہ سمجھ کر بات کرنا مشکل کام ہے اور ہم مشکل کام کے عادی نہیں ہیں اصل ایشو یہی ہے ۔
ہمارے یہاں چاند پر اختلاف کیوں پیدا ہوتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ سائنسی حقائق کی روشنی میں جرح نا کرنا ہے۔
اللہ پاک امت مسلمہ پر آسانی فرمائے