جذباتیت کا کھیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی حضرت امیر معاویہ کی ان خطاؤں کا ذکر کر دے جن کی قیمت یہ امت خلافت راشدہ کے انہدام اور امام حسین کی شہادت کے ساتھ آج تک چکا رہی ہے تو وہ گستاخ صحابہ اور جہنمی ہوجاتا ہے، باغ فدک کے مسئلے میں اگر کوئی سیدہ بی بی کی رائے کو خطا اور حضرت ابو بکر کی رائے کو درست کہہ دے تو وہ گستاخ اہل بیت ہوجاتا ہے اور پھر آسمان سے اس پر بلائیں بھی برسنے لگتی ہیں۔

حالاں کہ اہل سنت کے عقیدے کے مطابق عصمت تو صرف انبیا کو حاصل ہے، پھر سیدہ بی بی سے خطا کا امکان کب سے ضلالت ہوگیا، اصحاب رسول اللہ ﷺ سے اجتہادی یا منکر خطاؤں کا صدور کب سے محال ہوگیا؟

بطور خاص اجتہادی معاملات میں یہ سب کچھ کوئی عجیب وغریب بات تو نہیں ہے۔ یہاں تو اہل سنت کے مواقف میں انبیاء سے اجتہادی خطا کا امکان بلکہ تحقق کے اقوال موجود ہیں۔

آپ سیدہ بی بی کی طرف اجتہادی خطا کے انتساب کو خطا کہیں ، یہ آپ کا حق ہے، حضرت امیر معاویہ کی طرف خطاے منکر کے انتساب کو خطا کہیں یہ بھی آپ کا حق ہے، لیکن اس انتساب خطا کو گستاخی صحابہ واہل بیت کہنا چہ معنی دارد؟

سوچیے کہ جذباتیت نے اس قوم کو کس قدر علم وعقل سے دور کردیا ہے
کہ ایک عام سا مسئلہ، عدم تفکر اور شدت جذباتیت کے سبب، کس قدر پیچیدگی اختیار کرگیا ہے!

بات صرف یہ ہے کہ جب حضرت امیر معاویہ کو بے خطا کہا گیا اور ان کی خطاؤں کے ذکر کو گستاخی صحابہ کہا گیا تو اس کے رد عمل میں سیدہ بی بی کی طرف انتساب خطاے اجتہادی کو گستاخی اہل بیت کا نام دے دیا گیا۔ یہ سب علم وتحقیق سے ماورا جذبات کا کھیل ہے، جو جتنی جلد بند ہوجائے امت کے حق میں بہتر ہے۔ والی اللہ المشتکیٰ