قبر کے پاس قرآن کی تلاوت
قبر کے پاس قرآن کی تلاوت
اور ظہیر امن پوری کے مضمون کا رد
ازقلم: اسد الطحاوی
موصوف اپنی تحریر کا آغاذ کچھ اس طرح کرتا ہے :
قرآن خوانی کی شرعی حیثیت
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
قریب الموت، میت اور قبر پر قرآن پڑھنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں اس کا ہرگز ثبوت نہیں ملتا۔ نتیجہ، قل، جمعرات کا ختم اور چہلم وغیرہ بدعات وغیر اسلامی رسومات ہیں۔ واضح رہے کہ قرآن و حدیث اور اجماع سے ایصال ثواب کی جو صورتیں ثابت ہیں، مثلا دعا، صدقہ وغیرہ، ہم ان کے قائل و فاعل ہیں۔ قرآن خوانی کے ثبوت پر کوئی دلیل شرعی نہیں، لہٰذا یہ بدعت ہے۔ اہل بدعت نے اسے شکم پروری کا بہترین ذریعہ بنا کر اپنے دین کا حصہ بنا لیا ہے۔
مبتدعین کے مزعومہ دلائل کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے :
دلیل نمبر ➊
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں سے ہوا، ان کو عذاب ہو رہا تھا، ان میں سے ایک اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے اجتناب نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔
ثم أخذ جريدة رطبة، فشقها بنصفين، ثم غرز فى كل قبرواحدة، قالوا : يا رسول الله ! لم صنعت هذا ؟ فقال لعله أن يخفف عنهما ما لم ييبسا۔۔۔
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور کی ایک تازہ ٹہنی لی، اسے دو حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر قبر پر ایک کو گاڑ دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی، اے اللہ کے رسول ! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ فرمایا، شاید کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کر دے۔“ [صحيح بخاري : 182/1، ح : 1361، صحيح مسلم : 141/1، ح : 292]
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
استحب العلماء قراءة القرآن لهذا الحديث، لأنه إذا كان يرجي التخفيف بتسبيح الجريد، فتلاوته أوليٰ، والله أعلم !
”اس حدیث میں علماء کرام نے قرآن کریم کی تلاوت کومستحب سمجھاہے، کیونکہ جب ٹہنی کی تسبیح کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کی امید کی جاتی ہے توقرآن کریم کی تلاوت بالاولٰی ایسے ہوگی۔“ والله اعلم ! [شرح صحيح مسلم للنووي : 141/1]
تبصرہ :
اس حدیث سے قرآن خوانی کے ثبوت پر استدلال جائز نہیں، کیونکہ خیرالقرون میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں، نیز اس میں کہیں ذکر نہیں کہ عذاب میں تخفیف ان ٹہنیوں کی تسبیح کی وجہ سے ہوئی، لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے، نیز یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا۔ عذاب میں یہ تخفیف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا و شفاعت کی وجہ سے ہوئی، جیسا کہ :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إني مررت بقبرين يعذبان، فأحببت بشفاعتي أن يرفه ذاك عنهما، مادام الغصنان رطبين
”میں دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرا، جن (کے مردوں) کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ میں نے شفاعت کی وجہ سے چاہا کہ یہ عذاب ان سے ہلکا ہو جائے، جب تک دونوں ٹہنیاں تر رہیں۔“ [صحيح مسلم : 418/2، ح : 3012]
ان دو مختلف واقعات میں علت ایک ہی ہے۔
الجواب (الطحاوی)
موصوف کے فہم کا اندازہ اس بات سے خوب لگایا جا سکتا ہے کہ فقھاء کی یہ بات ”قبر پر نبی اکرمﷺ نے ٹہنیاں لگائی تھیں انکی تلاوت کے سبب عذاب میں کمی ہوئی”
اسکا رد یہ کہہ کر کردیا جی کہ یہ نبی اکرمﷺ نے دعا فرمائی تھی ۔
کیا اس کم فہم آدمی کے نزدیک فقھاء کو یہ بات معلوم نہ تھی ؟ کہ عذاب تو ظاہری بات ہے نبی اکرمﷺ کی دعا سے ہی کم ہوا قبور پر لیکن نبی اکرمﷺ کے اس فعل کی حکمت کیا تھی؟ فقھاء نے وہ بیان کی ہے اور اسکو بغیر کسی علت کے امن پوری میاں نے اڑانے کی فضول کوشش کی ہے جسکا نا سر ہے نہ پیر۔
اسکے بعد موصوف نے اپنی تحقیق کا نچوڑ نکالتے ہوئے یہ موقف بیان کیا
” قرآن خوانی کے ثبوت پر کوئی دلیل شرعی نہیں، لہٰذا یہ بدعت ہے۔”
اب ہم اثار صحابہ اور سلف اور متقدمین سے اسکے دلائل پیش کرتےہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں موصوف کس طرح اپنی جماعت کنوے میں بند ہیں کہ یہ تو انکا علم اتنا نہیں کہ یہ مکمل روایات پر دسترس رکھتے ہوں یا پھر جماعتی کنوے کے مینڈ ک ہونے کی وجہ سے روایت دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیا ہو۔
ہم پہلے انکے پسندیدہ امام جنکو یے (فقط اپنی ضرورت تک) امام اہلسنت کہتے ہیں پہلے ان سے اس مسلہ پر موقف پیش کرتے ہیں :
پہلے محدث احمد بن حنبل اس مسلہ پر جو موقف رکھتےتھے وہ درج ذیل ہے :
قلت لأبي وان كان يحفظ القرآن يقرأقال لا يجيء ويسلم ويدعو
(عبداللہ) کہتا ہے میں نے والد سے کہا کہ(بندہ)قرآن کا حافظ ہو اور قبر پر قرآن کی تلاوت کر سکتا ہے؟
تو (احمد) نے کہا نہیں وہ قبرستان آئے (اہل قبور)سے سلام کرے ، دعا کرے اور پھر چلاجائے
[مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله برقم: 544]
جبکہ اس فتوے کے باوجود محدث ابن حنبل نے یہ فتویٰ بھی دے رکھا ہے جسکو انکا بیٹا ہی روایت کرتا ہے :
سمعت ابي سئل عن رجل يقرأ عند القبر على الميت قال أرجو ان لا يكون به بأس
میں نے والد سے سنا ان سے سوال ہوا کہ ایک آدمی قبر میں میت پر قرآن کی تلاوت کر سکتا ہے ؟ تو احمد نے کہا میرے نزدیک اس میں حرج نہیں کوئی
[مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله برقم: 543]
یہ حال تھا ویسے محدث احمد کا بھی یہ بھی متقدمین کے وہابی تھے بالکل بندہ پوچھے جب انکے نزدیک قبر میں میت پر قرآن کی تلاوت کرنے میں انکے نزدیک کوئی حرج نہیں تو قبر پر تلاوت کرنے میں کونسا مردہ کا بل آجاتا تھا ؟
خیر اس سے بھی احمد بن حنبل نے رجوع کر لیاتھا جیسا کہ انکے مقلدین نے اپنی کتب میں روایات نقل کی ہیں
جیسا کہ ابو بکر خلال نے اس امر کے اثبات پر مکمل کتاب لکھی ہے بنام ”القراءة عند القبور” اور اس میں احمد بن حنبل سے روایت لیکر آتے ہیں :
أخبرني الحسن بن أحمد الوراق، قال: حدثني علي بن موسى الحداد، وكان صدوقا، وكان ابن حماد المقرئ يرشد إليه، فأخبرني قال: ” كنت مع أحمد بن حنبل، ومحمد بن قدامة الجوهري في جنازة، فلما دفن الميت جلس رجل ضرير يقرأ عند القبر، فقال له أحمد: يا هذا، ” إن القراءة عند القبر بدعة فلما خرجنا من المقابر قال محمد بن قدامة لأحمد بن حنبل: يا أبا عبد الله، ما تقول في مبشر الحلبي؟ قال: ثقة، قال: كتبت عنه شيئا؟ قال: نعم، قال: فأخبرني مبشر، عن عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج، عن أبيه، أنه أوصى إذا دفن أن يقرأ عند رأسه بفاتحة البقرة وخاتمتها، وقال: سمعت ابن عمر يوصي بذلك
فقال له أحمد: فارجع، فقل للرجل يقرأ “
ابن حماز مقری کہتا ہے میں احمد بن حنبل اور ابن قدامہ جوہری کے ساتھ تھا ایک جنازے میں ۔ جب اس میت کو دفن کیا گیا تو ایک آدمی قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرنے لگ گیا تو اسکو محدث احمد نے کہا یہ کیا ہے ؟ قبر پر قرآن کی تلاوت کرنا بدعت ہے ۔
تو محمد بن قدامہ نے احمد بن حنبل سے کہا اے ابو عبداللہ آپ مبشر الحلبی کے بارے کیا کہتے ہیں ؟ تو احمد نے کہا وہ ثقہ ہے ۔ کیا تم نے اس سے کچھ لکھا ہے ؟ تو ابن قدامہ نے کہا ہاں مجھے مبشر نے خبر دی عبد الرحمن بن علاء کے حوالے سے انکے والد سے کہ انہوں نے نصیحت کی تھی :جب میں وفات کے بعد قبر میں داخل ہو جاوں تو مجھے پر فاتحہ اور سورت بقرہ ختم کرنا ۔ اور کہا کہ میں نے حضرت ابن عمر سے بھی ایسا سنا تھا ۔ تو محدث احمد بن حنبل نے نے انکو کہا واپس جائیں اور اس بندے کو کہیں کہ قرآت شروع کر دے (قبر پر)
پھر امام خلال نے یہی واقعہ دوسری سند سے بیان کیا :
وأخبرنا أبو بكر بن صدقة، قال: سمعت عثمان بن أحمد بن إبراهيم الموصلي،۔۔۔۔الخ
[القراءة عند القبور ٍص88]
ان روایات پر ناصر البانی صاحب نے اعتراض جڑے ہیں کہ پہلی سند میں خلال کا شیخ مجہول ہے اور دوسری روایت میں عثمان بن احمد مجہول ہے
تو اسکا جواب بھی دے دیتے ہیں کہ یہ روایت فقط انہی سے نہیں مروی بلکہ امام عباس الدوری نے امام یحییٰ بن معین سے بھی قبر پر تلاوت کرنے کے لیے اس روایت کو دلیل بنایا ہوا ہے
جیسا کہ انکا مقدم شاگرد امام الدوری بیان کرتے ہیں :
سألت يحيى بن معين عن القراءة عند القبر فقال حدثنا مبشر بن إسماعيل الحلبي عن عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج عن أبيه أنه قال لبنيه إذا أدخلت القبر فضعوني في اللحد وقولوا بسم الله وعلى سنة رسول الله وسنوا على التراب سنا واقرؤوا عند رأسي أول البقرة وخاتمتها فإني رأيت بن عمر يستحب ذاك
امام عباس فرماتے ہیں : کہ میں نے امام یحییٰ بن معین سے قبر پر قرآت کرنے کے بارے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا :
مجھے بیان کیا مبشر بن اسماعیل نے عبدالرحمن بن علاء سے وہ اپنے والد سے انہوں نے فرمایا اپنے بیٹے کو : جب وفات کے بعد میں قبر میں رکھنا تو مجھ پر یہ دعا پڑھنا ” بسم الله وعلى سنة رسول الله” اور میری قبر کے سر والے حصے پر سورہ بقرہ کا اول حصہ تلاوت کرنا آخری حصہ تلاوت کرنا
اور میں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو یہ فعل مستحب (پسند) فرماتے دیکھا ہے ۔
[: تاريخ ابن معين (رواية الدوري) 5413]
اس روایت سے ثابت ہوا کہ کہ امام یحییٰ بن معین نے مذکورہ روایت کو دلیل بنایا ہے اور اس روایت سے اس امر میں احتجاج کیا ہے تو یہ روایت صحیح ہے اس میں شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی ہے
اور امام الدوری نے یہی فتویٰ جب احمد بن حنبل سے پوچھا تو انکا جواب یوں تھا :
سألت أحمد بن حنبل ما يقرأ عند القبر فقال ما أحفظ فيه شيئا
کہ میں نے احمد بن حنبل سے سوال کیا قبر پر قرآن کی تلاوت کرنے کے بارے تو انہوں نے کہا مجھے اس (باب) میں کچھ یاد نہیں (یعنی میں نہیں جانتا کوئی روایت)
اور جبکہ حنابلہ نے بھی اپنی اسناد سے احمد بن حنبل کا اس روایت پر مطلع ہونے کے بعد قرآن کا قبرستان میں تلاوت کی دلیل بنایا ہے لیکن پاکستان کے غیر مقلد مفت میں حنبلیوں کے مامے بنے ہوئے ہیں رجال رجال کھیل رہے ہیں جبکہ حنبلیوں نے رجوع قبول کیا ہوا ہے ۔
اور باقی صحیح سند سے اس روایت کو دلیل بنانا امام یحییٰ بن معین سے ثابت ہے جو کہ امام احمد سے حدیث میں اوثق بھی تھے اور رجال میں ابھی انکی معرفت احمد بن حنبل سے زیادہ تھی اور تشدد بھی زیادہ تھا تو انکا اس روایت کو اس باب میں دلیل بنانے سے ثابت ہوا کہ یہ امر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے بھی ثابت ہے اور اسکو بدعت کہنا جاہلوں کا فہم ہے
نیز امام شافعی کا بھی یہی موقف تھا جیسا کہ ان سے امام ابو بکر خلال نے اپنی سند صحیح سے روایت کیا ہے :
أخبرني روح بن الفرج، قال: سمعت الحسن بن الصباح الزعفراني، يقول: ” سألت الشافعي عن القراءة عند القبر فقال: لا بأس به
حسن بن صباح کہتا ہے میں نے امام شافعی سے قبر پر قران کی تلاوت کے بارے سوال کیا تو انہوں نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں ہے
[القراءة عند القبور ص 89]
۱۔ پلا راوی : روح بْن الْفَرَج أَبُو الْحَسَن البزاز
وَكَانَ ثقة.
[تاریخ بغداد برقم: 4460]
2۔دوسرا راوی : الحَسَنُ بنُ الصَّبَّاحِ بنِ مُحَمَّدٍ الوَاسِطِيُّ
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الحُجَّةُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ
[سیر اعلام النبلاء برقم: 69]
اسد الطحاوی