کیا کسی معتبر سند سے امام حسن مجتبیٰؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان شرائط بیعت ثابت ہیں ؟
تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

اس مسلے پر ہم ایک تحریر پر مطلع ہوئے ہیں اور بہت سے لوگ اس تحریر کا کچھ کچھ حصہ مختلف ٹکڑوں میں فیسبک پر پھیلا کر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ جی ان شرائط کو کیوں حضرت امیر معاویہؓ نے پورا نہیں کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ تو ہم ان دلائل کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں جنکی اسناد کے صحیح ہونے کا دعویٰ کیاگیا ہے۔

ان شرائط میں جو پہلی شرط پیش کی جاتی ہے امام ابن حجر عسقلانی کی کتاب فتح الباری سے جو کہ درج ذیل حکم کے ساتھ ہے :

شرط نمبر (1)
فأرسل إلى معاوية بن ابو سفيان يبذل له تسليم إليه على أن تكون له الخلافة بعده،
و أعطاه عهد إن حدث به حدث والحسن حي ليجعلن هذا الأمر إليه:
امام نے اس شرط پر خلافت معاویہ کے سپرد کی کہ اس کے بعد خلافت دوبارہ انکی طرف لوٹے گی
معاویہ نے امام حسن سے عہد کیا کہ میرے بعد خلافت آپکی طرف لوٹا دی جائے گی:
امام اہلسنت امام ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ مندرجہ بالا شرط کو اپنی مشہور شرح “”فتح الباري،ج١٤،ص٥٣٢””
میں لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
وذكر امام محمد بن قدامة رحمته الله عليه في “”كتاب الخوارج”” بسند قوي:
امام محمد بن قدامہ نے بھی اس شرط کو قوی سند کے ساتھ تحریر کیا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب ( اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی نے مذکورہ شرط کے تحت یہ بات بالکل نہیں لکھی کہ اسکی سندقوی ہے ۔ جس شرط کے بارے انہوں نے سند کے قوی ہونے کا کہا ہےاسکا ذکر آگے آرہا ہے پہلے مذکورہ شرط کا مکمل حوالہ مع سند ذکر کرتے ہیں :
جو ادھوری شرط اوپر بیان کی گئی ہے وہ مکمل سند و متن کے ساتھ کچھ یوں ہے :
امام ابن سعد طبقات الکبریٰ میں روایت کیا ہے اور امام ابن حجر عسقلانی انہی کی سند سے مذکورہ شرط الاصابہ فی تمیز صحابہ میں نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قال ابن سعد: وأخبرنا عبد الله بن بكر السهمي، حدثنا حاتم بن أبي صغيرة، عن عمرو بن دينار، قال: وكان معاوية يعلم أن الحسن أكره الناس للفتنة، فراسله وأصلح الذي بينهما، وأعطاه عهدا إن حدث به حدث والحسن حي ليجعلن هذا الأمر إليه.

امام ابن سعد بیان کرتے ہیں عبداللہ کے طریق سے حاتم سے وہ عمرو بن دینار سے بیان کرتے ہیں :
کہ حضرت معاویہؓ بات جانتے تھے کہ امام حسنؓ سب سے زیادہ فتنے کو نا پسند کرنے والے تھے لوگوں میں میں ۔ ان سے خط و کتاب کی اور آپس میں صلح کر لی اور یہ معاہدہ کر لیا کہ اگر امام حسنؓ کے جیتے جی میں (یعنی حضرت معاویہؓ) فوت ہوئے گئے تو انہیں ولی عہد بنائیں گے۔
[طبقات ابن سعد، و الإصابة في تمييز الصحابة، ج۲، ص۶۵]

اس مذکورہ شرط کو مکمل دیکھا جائے تو اس میں تو حضرت امیر معاویہؓ پر کوئی الزام آتا ہی نہیں کیونکہ یہ شرط تو امام حسنؓ کی زندگی کے ساتھ مشروط تھی کہ اگر پہلے حضرت امیر معاویہؓ فوت ہوگئے تو خلافت امام حسنؓ کے پاس جائے گی وگرنہ ہمیشہ کے لیے حضرت امیر معاویہ کے پاس ہی رہے گی ۔
اور ایسا ہی ہوا تو حضرت امیر معاویہؓ سے امام حسنؓ نے اپنی وفات کے بعد اس شرط کے مطابق خلافت امام حسین ؓ کو سونپنے کی شرط نہیں رکھی تھی تو حضرت امیر معاویہؓ یہ فیصلہ کرنے میں آزاد تھے کہ وہ اپنی خلافت کس کو سونپیں ۔

یہ تو حال ہو گیا اس شرط کے متن کا جو کہ بالکل حضرت امیر معاویہؓ کو بری کرتا ہے ہر اس الزام سے جسکی بنیاد مذکورہ شرط کو بنا کر لگایا جاتا ہے
اب آتے ہیں اس سند کی طرف تو یہ سند بھی منطقع جسکے سبب روایت ضعیف ہے کیونکہ حضرت عمرو بن دینار ۴۵ھ کو پیدا ہوئے تھے تو یہ صلح کے وقت انکی عمر ہی نہیں بنتی ہے کہ وہ موجود ہوتے ۔ اور نہ ہی انکا سماع حضرت معاویہؓ یا امام حسنؓ سے ہے بلکہ یہ تو صغیر تابعین میں سے ہیں یہاں تک کہ حضرت ابو ھریرہؓ سے بھی انکا سماع نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب آتے ہیں امام ابن حجر عسقلانی کے قول کی طرف کہ انہوں نے کس شرط کی سند کو قوی قرار دیا ؟

چناچہ امام ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں :
وقع عند الطبراني والذي في الصحيح أصح ولعل عبد الله كان مع أخيه عبد الرحمن قال فقدما على الحسن بالمدائن فأعطياه ما أراد وصالحاه على أن يأخذ من بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف في أشياء اشترطها

اور امام طبرانی کے حوالے سے مروی ہے اور یہ سب سے زیادہ ہے ہو سکتا ہے ۔ حضرت عبداللہ اپنے بھائی عبد الرحمٰن کے ساتھ مدائن میں حضرت حسنؓ کے پاس گئے اور جو انہوں نے چاہا انکو دیا ۔ اور انکے درمیان یہ طے پایا کہ وہ حضرت امام حسنؓ کو بیت المال سے پانچ ہزار (درہم) مال دینگے شرط کے مطابق۔

ومن طريق عوانة بن الحكم نحوه وزاد وكان الحسن صالح معاوية على أن يجعل له ما في بيت مال الكوفة وأن يكون له خراج دار أبجرد

اور عوانہ بن حکم کے طریق سے بھی مروی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ امام حسن ؓنےحضرت معاویہؓ سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ کوفہ کے بیت المال میں جو کچھ ہے وہ انہیں دیں گے اور انہیں ابجرود کی سرزمین کا محصول ملے گا۔

اسکے بعد امام ابن حجر آگے فرماتے ہیں :
وذكر محمد بن قدامة في كتاب الخوارج بسند قوي إلى أبي بصرة أنه سمع الحسن بن علي يقول في خطبته عند معاوية إني اشترطت على معاوية لنفسي الخلافة بعده

اور امام محمد بن قدمہ نے اپنی کتاب خوارج میں بسند قوی جو کہ ابی بصرہ تک ہے ان سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے امام حسنؓ کو حضرت امیر معاویہؓ کے سامنے یہ خطبہ دیتے ہوئے سنا ہے کہ ان (حضرت معاویہؓ) کے ساتھ یہ شرط طے پائی ہے کہ انکی (وفات ) کے بعد خلافت میری ہوگی
[فتح الباری شرح صحیح البخاری ، ج۱۳، ص ۶۵]

مذکورہ شرط میں بھی وہی بات ہے کہ شرط تو اس پر تھی کہ خلافت حضرت امیر معاویہؓ کے بعد حضرت مولا حسنؓ کی طرف واپس لٹائی جائے گی یعنی اگر حضرت امیر معاویہؓ فوت ہوگئے تو اور اگر پہلے امام حسنؓ کی وفات ہو گئی تو اس صورت حال میں کوئی معاہدہ نہ تھا ۔

اب آتے ہیں اسکی سند کی طرف جیسا کہ یہ کتاب مفقود ہے اور امام ابن حجر عسقلانی نے سند پر مطلع ہونے کے باوجود بھی روایت کے رجال کو نہ لکھا اور مبھم حکم لگا دیا سند کے قوی ہونے کا جو کہ اصول حدیث کی روشنی میں حجت نہیں ہوتا ہے ۔

یہ اصول بھی ہم امام ابن حجر عسقلانی ہی سے ثابت کر دیتے ہیں تاکہ یہ اعتراض نہ رہے :
امام ابن حجر عسقلانی اپنی مشہور تصنیف ” نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر” جو کہ اصول حدیث کی کتاب میں اس مبھم راوی کے باب میں اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ولا يُقْبَلُ حديثُ المُبْهَم، ما لم يُسَمَّ، لأن شرط قبول الخبر عدالة رواته، ومَنْ أُبْهِمَ اسْمُه لا يُعرفُ عَيْنهُ؛ فكيف عدالته وكذا لا يُقْبَل خبره وَلَو أُبْهِمَ بلفظِ التَّعْديلِ، كأَنْ يقولَ الرَّاوي عنهُ: أَخْبَرَني الثِّقُة؛ لأنَّهُ قد يكونُ ثقةً عندَه مجروحاً عندَ غيرِه. وهذا عَلى الأصَحِّ في المسألة، ولهذه النكتة لم يُقْبَلِ المُرْسَلُ، ولو أَرسَلَهُ العدلُ جازِماً بهِ؛ لهذا الاحتمالِ بعينِه. وقيلَ: يُقْبَل تمسُّكاً بالظَّاهِرِ؛ إِذ الجَرْحُ على خلافِ الأصل، وقيل: إن كان القائل عالماً أجزأه ذلك في حق مَن يوافِقُهُ في مَذْهَبِهِ، وهذا ليسَ مِن مباحث علوم الحديث، والله تعالى الموفق.

مبھم راوی کا جب تک نام نہ ذکر کیا جائے ، اس کی حدیث قبول نہیں کی جا سکتی ہے ۔ اس لیے کہ حدیث کو قبول کرنے کے لیے راوی کی عدالت شرط ہے اور نام نہ ذکر کرنے سے ذات کی تشخیص تو ہوتی نہیں ۔ عدالت کیونکہ معلوم ہوگی۔ اسی طرح اگر راوی کا ابہام بلفظ تعدیل کر دیا گیا
مثلا کہا جائے اخب”اخبر نی الثقة” یعنی مجھے ایک ثقہ راوی نے خبر دی ہے ، تب بھی بقول اصح (اصول کے تحت) اسکی حدیث غیر مقبول ہوگی ۔ اس للیے کہ ممکن ہے کہ ابہام کرنے والے کے نزددیک تو وہ (مذکورہ راوی) ثقہ ہو مگر غیر کے نزدیک مجروح ہو، یہ احتمال چونکہ حدیث مرسل میں بھی ہوتا ہے ، اس لیے وہ بھی قبول نہیں کی جاتی ہے۔ اگرچہ صاحب ارسال عادل ہی ہو۔ البتہ بعض کا قول ہے کہ (مرسل) قبول کی جائے ، کیونکہ اصل عدالت ہے اور جرح خلاف اصل ہے اور بعض کا یہ بھی قول ہے کہ اگر ابہام کرنے والا صاحب علم ہے تو جو شخص اسکی تقلید کرتا ہے وہ اسکی مبھم تعدیل کو قبول کر سکتا ہے
مگر قول مؓاھث علم حدیث سے خارج ہے ۔
[زهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر، ص ۱۲۵]

معلوم ہوا ایک تو ان شرائط کو قبول کیا جائے تو بھی ان میں ہمارا موقف ہی مضبوط ثابت ہوتا ہے اور دوسری بات ان شرائط کی کوئی بھی ایک سند اصول محدثین پر حسن یا صحیح نہیں بنتی ہے ۔ اور مذکورہ مبھم سند کی تعدیل کو امام ابن حجر سے پیش کرنے والوں کا رد ہم نے امام ابن حجر عسقللانی علیہ رحمہ کے بیان کردہ اصول سے کر دیا ہے

نوٹ: کسی کے پاس کوئی اور شرائط سند صحیح کے ساتھ موجود ہوں تو پیش کر سکتا ہے
دعاگو: اسد الطحاوی الحنفی البریلو ی