یوم وصال، 18رمضان المبارک
ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی
ایک مدبر اور دینی اسکالر

ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی، الشاہ احمد رضاخاں فاضل بریلوی کے خلیفہ، مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ کی صاحبزادی اور علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ کی ہمشیرہ تھیں۔
آپ 28 جون 1935ءکو بھارت کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئیں، قیام پاکستان کے وقت چھوٹی سی عمر میں تحریک پاکستان میں پیش پیش رہتی تھیں۔میرٹھ میں ایک لیڈیز پارک تھا جہاں خواتین کے جلسے ہوتے تھے ۔ان جلسوں میں ڈاکٹر صاحبہ نظمیں پڑھتی تھیں۔ اس زمانہ میں لاؤڈ اسپیکر کمیاب تھے ڈاکٹر صاحبہ کی آوازاونچی اور تیز تھی تو ہر جلسہ میں انقلابی خطاب کیا جاتا تھا۔ اس طرح تشکیل پاکستان میں انکی آواز بھی شامل ہے۔جب مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ ہجرت کرکے کراچی آئے تو صدر میں کچھی میمن مسجد سے متصل ایک فلیٹ میں منتقل ہوگئے ۔ ڈاکٹر فریدہ صاحبہ علیہ الرحمہ نے جیکب لائنز گرلز اسکول میں داخلہ لیا میٹرک کاسمو پولیٹن گرلز سیکنڈری اسکول سے کیا۔ نارتھ ناظم آباد میں پانچ ایکڑ زمین پر اسکول کی ایک عمارت تعمیر ہوئی جس میں چار اسکول چل رہے تھے۔ جب کراچی میں لڑکیوں کے لئے فرید روڈ کراچی کے گرلز کالج سے ڈاکٹر فریدہ صاحبہ نے بی اے کیا۔ ازاں بعد عربی لٹریچر میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ ہومیوپیتھک کا بھی چار سالہ کورس کیا لیکن پریکٹس نہیں کی۔
1958 میں پوسٹ گریجویٹ کیا، ایم اے کرنے کے بعد عالمہ کا کورس مکمل کیا اور پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
آپ نے متعدد کتب تصنیف کیں،ویمن اسلامک مشن کی سربراہ کے علاوہ مختلف دینی تعلیمی اداروں سے منسلک تھیں۔ آپ جامعہ کراچی سنڈیکیٹ کی رکن بھی رہیں
کراچی یونیورسٹی کی سنڈیکٹ کی ممبر ہونے پر ڈاکٹر فریدہ صاحبہ نے تجویز پیش کی کہ یونیورسٹی کے اساتذہ کو مکان بنانے کے لئے جو قرض دیا جائے اس پر سود نہ لیا جائے اس تجویز کو پذیرائی حاصل ہوئی
ڈاکٹر فریدہ ، علامہ نورانی کے قائم کردہ ادارے ورلڈ اسلامک مشن کے زیر انتظام کراچی میں ایک ویمن اسلامک مشنری یونیورسٹی کی چانسلر تھیں، جہاں خواتین کو جدید عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں،
ڈاکٹر فریدہ احمد نے پہلی کلاس سے لے کر پانچویں کلاس تک نصاب تعلیم بھی تیار کیا تھا جو متعدد سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
1970 ءمیں عملی سیاست میں شامل ہوئیں اور تاحیات متحرک رہیں۔ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی نے بھرپور عملی زندگی گزاری۔ آپ نے خواتین میں شعور بیدار کرنے کے لئے ملک بھر میں خواتین کے ہزاروں اجتماعات سے خطاب کیے ۔
آپ نے یورپ اور افریقہ سمیت دنیا کے کئی ممالک کے تبلیغی دورے کیےآپ دینی و سیاسی تقریبات وغیرہ میں شرعی لوازمات ہمیشہ پورے فرماتیں پردے کی سختی سے پابندی فرماتیں سفر میں بھی شرعی تقاضے سختی سے پورے فرماتی تھیں
ڈاکٹر فریدہ احمدصدیقی نے تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسل اور تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔77ءکی تحریک نظام مصطفی کے دوران جب اس وقت کی حکومت نے مولانا شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ کو پابند سلاسل کردیا تو ڈاکٹر فریدہ تھیں جو جون، جولائی کی شدید گرمی میں قومی اتحاد کے جلسوں میں حکومت وقت کو للکارتی تھیں
ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی 2002 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ انہوں نے اسمبلی میں نومبر 2006ء میں حکومت کی طرف سے پیش کردہ حقوق نسواں بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے” فحاشی پھیلاؤ بل “ قرار دیا اور اس بل کے خلاف احتجاجاً اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دیا۔ انہوں اسلامی تعلیمات کے منافی اِس بل کے خلاف متعدد کتابچے بھی تحریر کرکے شائع کرائے۔
آپ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن بھی تھیں۔ آپ سندھ زکوٰة کونسل کے ساتھ جنرل مشرف کے دور میں حدود آرڈیننس کے تنازع کے حل کیلئے قائم کی گئی کمیٹی کی رکن بھی رہیں، ڈاکٹر فریدہ فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیتی تھیں اور ہر سال درجنوں اجتماعی شادیوں کا اہتمام کرتی تھیں،
آپ نے 2005 کے زلزلے اور کئی مواقع پر سیلاب کے دوران متاثرین کی امداد میں اہم کردار ادا کیا ،
ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی ایک متقی،مہمان نواز اور بااخلاق خاتون تھیں اور فارغ اوقات میں قرآن پاک کی تلاوت کے علاوہ دینی کتابوں کا مطالعہ پسند کرتی تھیں۔
ڈاکٹر فریدہ احمد کی ثابت قدمی اور رفاقت نے مولانا شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ کی لیڈر شپ کو چار چاند لگادیئے، ڈاکٹر فریدہ دینی و سماجی خدمت کی ایک روشن مثال تھیں۔ آپ کی زندگی اور جدوجہد خواتین کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
آپ کے شوہر پروفیسر محمد احمد صدیقی اکثر آپ کے ساتھ ہوتے پروفیسر صاحب آعلی پائے کے ماہر معاشیات ہیں۔پروفیسر محمد احمد صدیقی پہلے مقامی کالج میں لیکچرار تھے۔ سعودی عربین ایئرلائنز میں ایگزیکٹیو آفیسر کو مینجمنٹ پڑھاتے رہے ہیں۔ پھر وہ محترمہ ڈاکٹر فریدہ صدیقی کے ساتھ اسکول اور یونیورسٹی کی نگرانی کرتے رہے
ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی،7 اگست 2013ءبمطابق 28 رمضان المبارک کو76 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئی نماز جنازہ جمعرات 8 اگست 2013 کو بعد نماز ظہر حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطہ میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ ممتاز عالم اور جمعیت علمائے پاکستان کی سپریم کونسل کے رکن مولانا جمیل احمد نعیمی نے پڑھائی
انہیں ڈیفنس گزری کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا
آپ نے سوگواروں میں شریک حیات پروفیسرمحمد احمد صدیقی ، دو صاحبزادے ڈاکٹر طلحہ صدیقی اورڈاکٹر جنید صدیقی اور ایک صاحبزادی سمعیہ صدیقی چھوڑیں۔

آج ہمارے مذہبی سیاسی طبقے میں ایسی سوشل قابل اور باصلاحیت خواتین نہ ہونے کے برابر ہیں اللہ ڈاکٹر صاحبہ کی خدمات قبول فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے
معین نوری