علامہ رضاء الدین صدیقی
ہند و پاک میں اولین و یکتا “فخرِ ازہر” حضرت ضیاء الامت پیر کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کے منظور نظر، اہل سنت کے معروف عالم ، علامہ رضاء الدین صدیقی صاحب بھی نیو یارک امریکہ میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
موصوف بہترین ادیب، شاعر، نقاد، محقق، صوفی، خطیب اور دانشور تھے۔ پاکستان میں صفِ اول کے اخبارات، رسائل اور جرائد میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ انتہائی نفیس طبیعت، تحمل، بردباری اور اہل سنت کے مابین اعتدال کی فکر و تحریک کے حامل تھے۔ خدا تعالٰی نے انہیں مومنانہ فراست سے نوازا تھا۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائی کے دوران پاکستان کی سنی مذہبی سیاست میں پیش آنے والے واقعات پر ان کی گہری نظر تھی۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد اور قبل کے حالات کے پیش نظر جو تغیرات و مشکلات پیش آئیں اس پر ان کی رائے بہت اہم تھی۔ حالیہ برسوں میں اچھے مقاصد کے لیے اختیار کیے گئے غلط راستوں اور غیر مناسب طریقہ کار پر بھی وہ جداگانہ رائے رکھتے تھے۔ تصوف کے نام پر اہل سنت میں در آنے والی بدعات کا رد بلیغ بھی فرماتے اور ان روحانی امراض و علاقائی رسوم کے تدارک و علاج کا سامان بھی کرتے۔ علامہ رضاء الدین صدیقی صاحب ان چند مخصوص اصحابِ فہم و فراست میں سے تھے جن پر یہ حقائق آشکار ہو چکے تھے کہ تصوف کے نام پر جاری اس جہالت میں عوام کو جذباتی طور پر مغلوب کیا جا رہا ہے۔ وہ فقیر کی اس رائے و فکر کی تائید فرماتے کہ خانقاہوں، درگاہوں اور مزاروں پر الفاظ کے جادو، شعبدہ بازی اور طاقتِ لسانی سے مسلمانوں کی علمی، فکری اور معاشی استحصالی کا سفر بھرپور شدت و سرعت سے جاری ہے۔ ان کی تقاریر و تحاریر میں اس تصوف کا غلبہ تھا جو انسان کو تزکیہ نفس فراہم کرتا ہے نہ کہ شخصی غلامی و پرستش کی طرف دھکیلنے والا مکروہ سلسلہ۔
سائلین اور علم دین کے طلباء کے لیے انتہائی شفیق و مہربان تھے۔ مجھ فقیر کی یہ عادت ہے کہ شرعی و روحانی مسائل کے لیے رابطہ کرنے والوں کو اس وقت تک جواب نہیں دیتا جب تک مکمل یکسوئی نصیب نہ ہو، خصوصاً پیچیدہ مسائل میں تو اور زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے اچھی طرح سوچ سمجھ کر ، حسب ضرورت استخارہ کرنے کے بعد جواب عرض کرتا ہوں۔ مجھے اپنی اس عادت سے کچھ پریشانی بھی تھی کہ لوگ انتظار کرتے ہیں لیکن علامہ صدیقی صاحب نے فقیر کی اس عادت و فکر کی تائید فرمائی۔ غالباً پچھلے رمضان (۱۴۴۳) میں کسی معاملہ پر ان سے مشاورت درکار تھی۔ میں نے پیغام بھجوایا تو فرمایا ابھی دانت میں درد ہے، روٹ کینال کروایا ہے، ذرا بہتر ہو جاوں تو دلجمعی سے بات کریں گے۔ یعنی طالبِ علم کے مسئلہ اور معروضات کو اس قدر توجہ سے سننا سمجھنا چاہتے تھے۔
گزشتہ ایک برس میری صحت کے حوالے سے بہت پریشان کن رہا۔ حضرت رضاء الدین صدیقی صاحب ان بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے مسلسل اپنی دعا سے نوازا۔ اسی دوران ایک دن ان کا درجِ ذیل پیغام تشریف لایا؛
“حضرت معمولات کیا ہیں اور حاضری کے لئے کون سا وقت مناسب ہے تاکہ اس کے مطابق نیاز حاصل کیا جاۓ”.
مجھ حقیر، بد اطوار، رو سیاہ اور ہر اعتبار سے کمتر، احقر کے ساتھ ان کا اس عاجزی کے ساتھ بات کرنا مجھے شدید شرمندہ کر گیا۔ کہاں وہ جہاندیدہ، سفید ریش بزرگ جس کی علمیت ، فقاہت، تقوٰی و پرہیزگاری، فراست اور ثقاہت کا ایک زمانہ معترف ہے اور کہاں یہ عاصی و مبتلائے معاصی۔ لیکن درحقیقت یہ ان کی اعلٰی ظرفی تھی اور وہ علم دین کی برکت سے ایک طالب علم کی عزت افزائی فرما رہے تھے۔
گزشتہ برس حج کے ایام میں ان کی علالت کی پھر سے خبریں ملنا شروع ہوئی تھیں۔ اس عید الفطر پر تو ان کی طرف سے عید مبارک کا پیغام بھی تشریف نہ لایا، جو پریشان کن تھا۔ امراضِ قلب میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ دل ان کی یاد میں عرق عرق ہوا پڑا ہے، آنکھیں برس رہی ہیں اور ان کی رحلت پر خود کو بے بس دیکھ رہا ہوں۔ ایک مسکراتا، حسین، با رعب چہرہ جو اپنی تمام تر بزرگی کے ساتھ شباب کی رونقیں قائم رکھے ہوئے تھا۔ چمکتی ہوئی سفید ریش مبارک، لب ہلیں تو علم و حکمت کے موتی بکھیریں اور واعظ ایسا کہ وعظ میں سبیلِ ہدایت کی راہیں ہموار کرتے جائیں۔ روحانی طبیب ایسا کہ فقط تشخیص ہی نہیں بلکہ بہترین علاج و دوا بھی عطا کرے۔ انہوں نے امریکہ میں بھرپور دینی خدمت کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی امریکہ میں کتنے ہی مخدوم، سید، شاہ، پیر، مفتی اور علامے ایسے ہیں جو فلوس و نفوس کی پوجا میں مصروف ہیں، جنہیں گرین کارڈ، نیشنیلٹی، وی آئی پی لائف اور حب جاہ ہی درکار ہے اور دین کے ساتھ کوئی اخلاص و لگن ہرگز نہیں۔ کتنے ہی ایسے مذہبی پہچان والے ہیں جنہوں نے امریکی سیٹلمنٹ کی چکر میں اپنی شکلیں، حلیے، پہچان اور کردار تک بگاڑ لیے ہیں لیکن یہ مرد درویش بھیرہ شریف کا نمک حلال فرزند ثابت ہوا جس نے دین و مذہب پر آنچ نہیں آنے دی۔ امریکی ماحول و معاشرے میں حضرت صدیقی صاحب علیہ الرحمہ نے بہترین کوششیں اور کاوشیں کیں۔ انہوں نے اپنی مسند و مسجد کو خدمت دین کے لیے وقف کیا۔
وہ اپنی وضع قطع میں اپنے شیخ کریم حضرت پیر کرم شاہ الازہری رحمہ اللہ سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضور ضیاء الامت علیہ الرحمہ نے علامہ رضاء الدین صدیقی صاحب کے لیے خاص دعائیں فرمائی ہوں گی، انہیں اپنی غلامی میں قبول کیا ہو گا، ا نہیں اپنا رنگ چڑھایا ہو گا ورنہ ایسی مماثلت فقط قدرتی تو نہیں ہو اکرتی۔
خدایا یہ میرے نصیب کی خرابیاں ہیں یا مجھ لاچار کی آزمائش کہ قبل از وصال میں ان کی دست بوسی سے محروم رہا۔ نہ ہم بر وقت امریکہ پہنچ سکے اور نہ ہی وہ سفرِ مدینہ طیبہ کا اذن پا سکے۔ یہی کیفیت اس وقت تھی جب حضرت سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ کی علالت کی خبریں سنیں، بہت دل چاہتا تھا کہ ایک بار پھر ان کی خدمت میں حاضر ہو کر دست بوسی کر آؤں، لیکن قسمت میں دن نامرادی کے لکھے تھے۔
خدا تعالٰی حضرت صدیقی صاحب کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ ان کی امثال اہل سنت میں پیدا فرمائے، جو کام انہوں نے شروع کیے تھے خدا وہ مکمل فرما دے۔
اٹھو میری جماعت کے جوانو، بزرگوں کے مشن سنبھال لو، جو سرمایہ ہم سے چھن رہا ہے اس کا نعم البدل بہت مشکل ہے۔
محروم تماشا کو پھر ديدئہ بينا دے
ديکھا ہے جو کچھ ميں نے اوروں کو بھي دکھلا دے
افتخار الحسن رضوی
۲۰ شوال المکرم ۱۴۴ بمطابق ۱۰ مئی ۲۰۲۳
#IHRizvi
