’’ختمِ قرآن‘‘ بولنے کی شرعی حیثیت
’’ختمِ قرآن‘‘ بولنے کی شرعی حیثیت
……………………………………………….
سوال از حسنین محمد (سندھ)
السلام علیکم!
میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کہنا درست ہے؟ کہ ’’قرآن ختم ہوگیاہے‘‘۔ جیسا کہ ابھی رمضان گزرا، لوگ جگہ جگہ ایسے ہی بولتے تھے کہ آج ہماری مسجد میں ختم قرآن ہے۔ یا کل ہماری مسجد میں قرآن ختم ہوگیا ہے۔ اور رمضان سے ہٹ کر ویسے بھی کسی چہلم میں جب مکمل قرآن پڑھاجاتا ہے تو سب اسی طرح بولتے ہیں۔میں کہتا ہوں یہ الفاظ ٹھیک نہیں۔ کیونکہ قرآن تو کبھی ختم نہیں ہوگا۔گروپ کے ایک دوست نے بتایا کہ آپ سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔تو مہربانی فرما کر میرے سوال کا جواب دیں۔ اور کاغذ پر لکھ کر اپنے دستخط بھی کریں۔اللہ آپ کو اجر دے!
الجواب بعون الملک الوھّاب
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔حامدًا ومصلیًّا ومسلّمًا،أمّابعد:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
رمضان کریم میں نماز تراویح میں تلاوت مکمل ہونے پر یا ویسے کسی مجلس، یا چہلم میں، قرآن کریم کے تیس پاروں کی تلاوت مکمل ہونے پر یوں کہنا کہ قرآن ختم ہوگیا ہے۔ بالکل درست ہے۔ ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تیس پاروں کی تلاوت مکمل ہوگئی ہے۔ تمام بولنے والے یہی معنیٰ مراد لیتے ہیں۔ اس کو علماء کرام کی اصطلاح میں ’’عرفی معنیٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی یہاں’’ ختم‘‘ سے مراد مکمل ہونا ہے۔ ختم ہونا بمعنیٰ کسی چیز کا باقی نہ رہنا ،ہرگز مراد نہیں۔ختم قرآن کا لفظ، قرآن مجید کے آخر میں جو دعا لکھی جاتی ہے اس میں بھی لکھا ہوتا ہے ۔وہاں بھی’’ دعاء ختم القرآن ‘‘ سے مراد : دعائے تکمیلِ قرآن ہی ہے۔
عربی زبان بلکہ متعدد روایاتِ حدیث میں، تکمیل قرآن کے لئے ختم قرآن کے الفاظ عموماً استعمال ہوئے ہیں۔ ایک روایت کے کلمات، ملاحظہ ہوں!
عن ثابت أن أنس بن مالک کان إذا ختم القرآن جمع أھلہ وولدہ فدعا لھم۔
[المعجم الکبیر للطبرانی]
ترجمہ: ثابت سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب ختم قرآن کرتے تو اپنے گھر والوں اور بچوں کو جمع کرکے ، دعا فرماتے۔
درج بالاعربی عبارت میں ہے [ کان إذا ختم القرآن]یعنی جب وہ پورے قرآن کی تلاوت مکمل کر لیتے۔ تو یہاں تکمیل قرآن کے لئے ’’ختم ‘‘کا لفظ استعمال کیا گیا۔جو اپنے معنیٰ کے اعتبار سے بالکل واضح ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تکمیل قرآن یعنی تیس پاروں کی تلاوت مکمل ہونے پر’’ ختم قرآن‘‘ کے الفاظ بولنا ،بالکل درست اور متعدد روایاتِ حدیث کے مطابق ہیں۔ اور’’ ختم‘‘ سے مراد’’ مکمل ہونا‘‘ ہے۔ھذا عندی واللہ تعالیٰ وبإعطائہ رسولہ الأعلیٰ أعلم بحقیقۃ الأحوال والأحکام۔
وکتبہ أبوالحسن واحد الرضوی کان اللہ لہ
خادم دار الإفتاء
آستانہ عالیہ فیض آباد شریف،اٹک، پاکستان