کیا یزید کے پاس امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک لایا گیاتھا؟
تحریر: اسد الطحاوی الحنفی

ہم کو ایک کتاب موصول ہوئی بنام ”شہید کربلا اور کردار یزید کا علمی و تحقیقی جائزہ” جسکا مصنف کوئی حافظ عبیداللہ ہے جسکا تعارف لکھا ہے کہ فاضل وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اعتداد و عارف میں ایک نام ”محمد فہد حارث” کا لکھا ہے اور اس کی ایک تحریر کا میں بہت پہلے رد بھی کر چکا ہوں تو فیسبک کے حوالے سے معلوم ہے اسکے بارے۔
خیر اس کتاب میں موصوف نے کسی گیاوی صاحب کا رد کیا مجھے نہیں معلوم یہ کون ہے اور اس نے اپنی کتاب میں کیا لکھا تھا اور اسکے رد میں مذکورہ کتاب کا مقصد کیا ہے اس سے کوئی سروکار نہیں لیکن اس کتاب میں مسلہ مذکورہ یعنی ”کیا یزید کے پاس امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک لایا گیا تھا” اس متن پر مروی دو مروایات پر موصوف نے رد لکھا ہے اور ہم اصول حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے موصوف کے ان اعتراضات میں سے ایک روایت کا جائزہ لینگے جو اس موصوف نے اس باب میں دو مروایات کا رد لکھا ہے ۔۔۔

موصوف ایک روایت پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
دوسری روایت گیا وی صاحب نے بحوالہ ”سیر اعلام النبلاء” پیش کی ہے جس کی سند انہوں نے یوں نقل کی ہے :
كثير بن هشام: حدثنا جعفر بن برقان، عن يزيد بن أبي زياد، قال:
لما أتي يزيد برأس الحسين، جعل ينكت سنه، ويقول: ما كنت أظن أبا عبد الله بلغ هذا السن.
وإذا لحيته ورأسه قد نصل من الخضاب.

یزید بن ابی زیاد کہتے ہیں: جب یزید (بن معاویہؓ) کے پاس سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر لایا گیا تو وہ آپؓ کے دندان مبارک کو کرید نے لگا اور کہہ رہاتھا کہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ اس عمر کو پہنچ گئے ہیں حالانک سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی داڑھی اور سر خضاب سے رنگا تھا۔
[سیرا علام النبلاء ،ج3، ص320]

پہلا اعتراض موصوف نے اس سند میں بنیادی راوی کے غلط نام کی تصحیح پر کیا تھا جو کہ صحیح ہے یعنی راوی کثیر بن ھشام ہے نہ کہ ہمام۔
دوسرا اعتراض موصوف لکھتا ہے:
دوسر بات یہ ہے کہ علامہ ذھبی نے اس روایت کی سند کثیر بن ہشام سے شروع کی ہے اور کثیر بن ہشام کی وفات سنہ 207ھ یا 208 ھ ہے ۔ جبکہ امام ذھبی کی علادت 673ھ ہے۔ درمیان کی سند گیاوی صاحب نے بیان نہیں کی تاکہ اس کا جائزہ بھی لیا جا ئے۔

اور اگلا اعتراض یوں نقل کرتے ہیں:
تیسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں ”یزید بن ابی زیاد”ہے۔
جسکے بارے امام ذھبی نے میزان میں لکھا ہے کہ امام بخاری و مسلم نے ان سے متابعت میں روایت لی ہے اور بقیہ ناقدین کا اس پر کلام درج ذیل ہے ۔

ابن معین نے کہا” لا یحتج بحدیثه

امام ابو زرعہ نے کہا” اس سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی ہے ”

امام نسائی نے کہا ”یہ ضعیف ہے”

ابن مبارک نے کہا ”اسے پھینک دو ”

ابن فضیل نے کہا ”یزید بن ابی زیاد شعیہ کے ڑے اماموں میں سے تھا”

ابن عدی نے بھی کہا ہے ”ی کوفہ کے شیعہ میں سے تھا”

امام دارقطنی نے کہا ہے یہ ضعیف ہے اور بہت زیاعدہ غلطیاں کرنے والا ہے ۔ امام احمد نے بھی اسکی تضعیف کی ہے ”

امام ابن حبان نے یہ بھی لکھا ہے :سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ک یشہاددت کے وقت یزید بن ابی زیاد کی عمر 14 سال تھی ، کیونکہ اسکی پیدائش 47ھ میں ہوئی ہے ۔ اور آخری عمر یں اسکا حافظہ خراب ہو گیا تھا ۔ جس کی وجہ سے اس کی احادیث میں نکارت آگئی تھی لہذا اس کے کوفہ آنے کے بعد جن لوگوں نے اس راوی سے حدیث سنی اس سمع کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ امام احمد نے اسکی تضعیف کی ہے
[کتب جرح و تعدیل ]

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حافظ ابن تیمیہ کا کہنا یہ کہنا درست ہے کہ ”سر مبارک کے یزید کے پاس لے جائے جانے کی بات باطل ہے اور اسکی سند منقطع ہے”
[منھاج السنہ ]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موصوف کا پہلا اعتراض کہ جی امام ذھبی تو متاخرین میں سے ہیں اور انہوں نے امام کثیر بن ھمام جو کہ دوسری صدی ہجری کے محدث ہیں ان تک اپنی متصل سند بیان نہیں کی ہے ۔ جبکہ یہ اعتراض بالکل بھی علمی نہیں ہے ۔ کیونکہ امام ذھبی عمومی طور پر نسخاجات سے نقل کرتے ہیں نہ کہ وہ خود سے لیکر متقدمین تک وہ ہر ورایات کو متصل بیان کرنے کا احتمام کریں۔

جیسا کہ جو روایت امام ذھبی نے طبقات الکبریٰ سے نقل کی تھی جیسا کہ امام ابن سعد مذکورہ روایت کو اپنی سند سے روایت کرتے ہیں:
أخبرنا كثير بن هشام. قال: حدثنا جعفر بن برقان قال: حدثنا يزيد بن أبي زياد. قال: لما أتي يزيد بن معاوية برأس الحسين ابن علي. جعل ينكت بمخصرة معه سنه ويقول: ما كنت أظن أبا عبد الله يبلغ هذا السن. قال: وإذا لحيته ورأسه قد فصل من الخضاب الأسود.
[طبقات الکبری برقم: 448]

تو موصوف کا پہلا اعتراض رفع ہوا کیونکہ امام ذھبی نے طبقات کے حوالے سے روایت نقل کی ہے امام کثیر بن ھشام تک متصل سند کا مطالبہ باطل ہے۔

دوسرا اعتراض موصوف نے ”یزید بن ابی زیاد ” کے حوالے سے کیا اور امام ابن حبان کی جرح نقل کرکے سکوت کیا جبکہ امام ابن حبان کے کلام میں قابل غور بات یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ” لہذا اس کے کوفہ آنے کے بعد جن لوگوں نے اس راوی سے حدیث سنی اس سمع کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔” اس سے معلوم ہوا کہ امام یزید بن ابی زیاد مطلق طور پر ضعیف نہیں ہیں بلکہ انکی عمر زیادہ ہونے کے سبب جب انکو اختلاط ہوا تو یہ تلقین بھی قبول کر لیتے اور ضعیف بھی ہو گئے لیکن قبل از اختلاط انکی مروایات قابل قبول ہیں
اور موصوف نے یہ ثابت کیا کہ مذکورہ روایت جو امام یزید بن ابی زیاد نے بیان کی ہے یہ کوفہ میں کی تھی یا ان سے روایت بیان کرنے والے راوی فقط کوفی ہیں جبکہ اس احتمال کو ہم قرائن سے رد کرتے ہیں :
سب سے پہلے ائمہ محدثین سے اس بات کا ثبوت کے انکی مروایات قبل از اختلاط محفوظ تھیں اور جنہوں نے قبل از اختلاط ان سے روایت کیا اس وقت یہ ثقہ و صدوق تھے

امام بخاری:
عَنْ يَزِيدَ فَرَجَعَ الْحَدِيثُ إِلَى تَلْقِينِ يَزِيدَ، وَالْمَحْفُوظُ مَا رَوَى عَنْهُ الثَّوْرِيُّ وَشُعْبَةُ وَابْنُ عُيَيْنَةَ قَدِيمًا
یزید (بن ابی زیاد) سے یہ روایت بیان کی ہے پس یہ حدیث یزید (بن ابی زیاد) کی تلقین تک واپس لوٹ گئی ہے۔ اور محفوظ وہی ہے جو ثوری، شعبہ اور ابن عیینہ نے (يزید سے اس کے) قدیم زمانے میں بیان کیا ہے۔
[جز رفع الییدین للبخاری ،ص 20]
امام بخاری کے کلام کے مطابق :
امام شعبہ
امام سفیان ثوری
امام سفیان بن عیینہ
قدیم السماع ہیں امام یزیدبن ابی زیاد سے !!!

امام ابن عبدالبر کہتے ہیں :
فإنه انفرد يزيد بن أبي زياد عن عبد الرحمان بن أبي ليلى عن البراء فرواه عنه الثقات الحفاظ منهم شعبة والثوري وابن عيينة وهشيم وخالد بن عبد الله الواسطي
اور اگر اس میں تفرد ہے یزید بن ابی زیاد کا عبد الرحمن بن ا بی لیلی سے براء سے روایت کرنے میں پھر ان سے ثقات حفاظ جن میں امام شعبہ ، ثوری ، ابن عیینہ ، ھشیم ار خالد بن عبداللہ ہیں ۔
[التمہید ،ج۹، ص220]

امام ابن عبدالبر کے کلام کے مطابق امام یزید بن ابی زیاد سے محفوظ سماع کرنے والوں میں
امام ہشیم
اور
امام خالد بن عبداللہ واسطی بھی شامل ہیں
اور
یہی امام بیھقی کا موقف ہے

اور امام سفیان بن عیینہ کہتے ہیں:
، ﻗﺎﻝ ﺳﻔﻴﺎﻥ: ” ﻭﻗﺪﻡ اﻟﻜﻮﻓﺔ ﻓﺴﻤﻌﺘﻪ ﻳﺤﺪﺙ ﺑﻪ، ﻓﺰاﺩ ﻓﻴﻪ، ﺛﻢ ﻻ ﻳﻌﻮﺩ، ﻓﻈﻨﻨﺖ ﺃﻧﻬﻢ ﻟﻘﻨﻮﻩ، ﻭﻛﺎﻥ ﺑﻤﻜﺔ ﻳﻮﻣﺌﺬ ﺃﺣﻔﻆ ﻣﻨﻪ ﻳﻮﻡ ﺭﺃﻳﺘﻪ ﺑﺎﻟﻜﻮﻓﺔ، ﻭﻗﺎﻟﻮا ﻟﻲ: ﺇﻧﻪ ﻗﺪ ﺗﻐﻴﺮ ﺣﻔﻈﻪ ﺃﻭ ﺳﺎء ﺣﻔﻈﻪ
امام حمیدی اس روایت کو بیان کر کے کہتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ یزید بن ابی زیاد جب مکہ میں تھا تو اس نے یہ حدیث ہمیں یہ ثم لا یعود کے بغیر بیان کی اور جب کوفہ میں گیا تو اس نے یہ حدیث ہم سے جملہ لا یعود کے ساتھ بیان کیا تو
میں نے گمان کر لیا انہیں اہل کوفہ نے یہ جمہ تلقین کر دیا ہے
[مسند حمیدی]

اور محدثین کے نزدیک یہ بات بھی متفقہ ہے کہ امام سفیان بن عیینہ کا سماع یزید بن ابی زیاد سے محفوظ و قبل از اختلاط ہے۔ اور امام سفیان بن عیینہ خود شاگرد ہیں جعفر بن فرقان کے ۔
جبکہ ائمہ کا یہ بھی اتفاق ہے جیسا کہ امام سفیان بن عیینہ نے کہا کہ جب یزید بن ابی زیاد کوفیٰ گیا تو اسکا حافظہ متغیر ہو چکا تھا جبکہ جعفر بن فرقان کا کوفہ میں سماع کرنا یزید بن ابی زیاد سے محال ہے کیونکہ جعفر بن فرقان کوفہ میں یزید بن ابی زیاد کی وفات کے بعد آیا تھا
جیسا کہ امام ابو نعیم کہتے ہیں :
وقال أبو نعيم: قدم الكوفة جعفر بن برقان وعبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز سنة سبع وأربعين ومائة.
ابو نعیم کہتے ہیں کہ جعفر بن فرقان اور عبد العزیز بن عمر یہ کوفہ میں 147ھ میں داخل ہوئے
[تاریخ الاسلام برقم:18]

جبکہ یزید بن ابی زیاد تو 136ھ میں فوت ہو گیا تھا جیسا کہ امام ذھبی کہتے ہیں:
توفي على الصحيح سنة ست وثلاثين ومائة.
اور صحیح قول کے مطابق (یزید بن ابی زیاد) کی وفات 136ھ میں ہوئی تھی
[تاریخ الاسلام ، برقم: 319]

تو جب جعفر بن فرقان کا کوفہ میں یزید بن ابی زیاد کی زندگی میں آنا ہی ثابت نہیں تو جعفر بن فرقان کیسے یزید سے کوفہ میں سماع کر سکتے ہیں ؟ جب یزید کا حافظہ کوفہ میں متغیر ہو چکا تھا معلوم ہوا کہ انکا سماع یزید بن ابی زیاد سے انکے قدیم زمانے میں تھا
یہی وجہ ہے کہ امام سفیان، امام ثوری وغیرہم جو کہ یزید بن ابی زیاد سے محفوظ سماع کرنے والے ہیں وہ بھی جعفر بن خرقان سے بھی روایت کرتے ہیں جب انکا سماع محفوظ و قدیم ہے یزید بن ابی زیاد سے تو اصول کے تحت یہ بات پختہ ہے کہ جعفر بن خرقان کا سماع بھی محفوظ ہے کیونکہ اسکا طبقہ سفیان بن عیینہ و ثوری سے اوپر کا ہے۔

جیسا کہ سفیان ثوری کہتے ہیں:
وعن سفيان الثوري قال: ما رأيت أفضل من جعفر بن برقان.
سفیان کہتے ہیں میں نے نے جعفر بن برقان سے افضل کوئی نہیں دیکھا ہے ۔

جیسا کہ امام سفیان بن عیینہ کہتے ہیں:
وقال حامد بن يحيى البلخي عن بن عيينة حدثنا جعفر بن برقان وكان ثقة من ثقات المسلمين
ابن عیینہ کہتے ہیں کہ جعفر بن برقان یہ ثقہ مسلم (ائمہ ) میں سے ثقہ ہیں۔
[تھذیب التھذیب]

اور یہ تصریح بھی موجود ہے کہ جب یہ کوفہ آئے تو ان سے سفیان ثوری ، وار وکیع نے سماع کیا ہے کوفہ میں
جعفر بن برقان الجزري أبو عبد الله، سمع ميمون بن مهران والزهري، روى عنه الثوري ووكيع، قدم الكوفة
[تاریخ الکبیر للبخاری برقم: 3143]

جبکہ مذکورہ روایت میں ان سے بیان کرنے والا راوی کثیر بن ھشام ہے جو کہ دمشق میں تجارت کے حوالے سے جاتے تھے اور انہی سے وہ اکثر روایت کرتے تھے جیسا کہ امام ذھبی لکھتے ہیں:
كثير بن هشام، أبو سهل الكلابي الرقي. كان يتجر إلى دمشق وغيرها. عن: جعفر بن برقان فأكثر،
کثیر بن ھشام یہ تجارت کے سلسلہ میں دمشق اور دیگر علاقوں میں جاتے اور یہ جعفر بن برقان سے اکثر روایت کرتے ہیں
[تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال برقم: 5680]

اور امام ابن عساکر بھی کچھ اس سے ملتا جلتا کام کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

كثير بن هشام أبو سهل الكلابي الرقي نزيل بغداد نسبه بعض أهل العلم إلى دمشق لأنه كان يجهز إليها حدث عن جعفر بن برقان
کثیر بن ھشام یہ رقی ہیں اور بغدادمیں رہے لیکن بعض اہل علم نے انکی نسبت دمشق کی طرف کی ہے کیونکہ یہ (تجارت کے سلسلہ ) میں وہاں سفر کرتے اور انہوں نے جعفر بن برقان سے روایت کیا ہے
[تاریخ ابن عساکر ، برقم: 5801]

پس ان دلائل سے ثابت ہوا کہ جعفر بن برقان کا سماع قبل از اختلاط ہے یزید بن ابی زیاد سے اور یزید بن ابی زیاد کا متغیر ہونا کوفہ میں ہے کہ جنہوں نے اس سے کوفہ میں سماع کیا اسکا سماع غیر محفوظ ہے ۔ جبکہ جعفر بن برقان تو کوفہ میں یزید بن ابی زیاد کی وفات کے بعد آیا اور جعفر کا شاگرد جو کہ سلسلہ تجارت کے سبب دمشق آتا جاتا ہے وہاں اسکا سماع یزید بن ابی زیاد سے ہوا۔۔
جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یزید بن ابی زیاد دمشق میں بھی تھے جبھی تو ان سے جعفر بن برقان روایت کرتے تھے ۔ اور اس مسلہ میں یہ احتمال پیدا نہیں ہو سکتا کہ یزید بن ابی زیاد سے جعفر بن برقان کا سماع بعد اذ اختلاط ہو ۔
یہی وجہ ہے کہ جعفر بن برقان کا ترجمہ امام خطیب نے بھی اپنی تاریخ بغداد میں نہیں کیا کیونکہ یہ تجارت کے سلسلہ میں ہمیشہ صفر میں رہتے تھے ۔

تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی