مرد اور عورت کی نماز میں فرق
اور
اہل حدیث حضرات کے مشہور اعتراض کا جواب

از قلم : اسد الطحاوی الحنفی

فیسبک پر مسلہ مزکورہ پر طوفان بد تمیزی مچایا جاتا ہے کچھ اہل حدیث حضرات کا دعوی جو انکے علماء انکو رٹوا دیں اسکے نعد انکی طبیعت کچھ ایسی ہو جاتی ہے کہ ۔۔۔ جوانکے خلاف اگر کوئی موقف بیان کرے تو اسکو یہ سنت رسولﷺ کا مخالف گردان دیتے ہیں

جن مسائل میں یہ لوگ سارے سلف اور جمہور ائمہ کو جوتے کی نوک پر رکھ کر سلفی دعوی سے محروم ہو جاتے ہیں ان میں سے ایک مسلہ

■■مرد اور عورت کی نماز کا فرق ہے■■

اس قوم کے نزدیک عورت بالکل ویسے نماز پڑھے جیسے مرد پڑھتا ہے یعنی سجود میں انکی عورتیں مردوں کے
مشابہ سجدہ کریں ۔ مردوں کی طرح بیٹھیں اور غالبا نماز میں ٹانگیں پھیلانا یا پردے کے لیے جو لازمی امور ہے انکو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھنا بھی انکے دعوے کی شرط میں ہے۔

●》اب انکا دعویٰ ہے کہ :
عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے
》دلیل کیا دیتے ہیں :

●》کہ حدیث رسولﷺ ہے کہ انہوں نے فرمایا تم ویسے نماز پڑھو جیسا کہ مجھے دیکھتے ہو۔

اب اس عمومی روایت پر انکے دعوے کی جو بنیاد ہے وہ کچھ یوں ہے!
“نبی اکرمﷺ نے یہ عمومی حکم دیا ہے تو اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں”
اور پھر یہ حضرات ہر چیز میں ظاہری الفاظوں پر ایمان لا کر بیٹھ جاتے ہیں

اب کوئی ان سے کہے نبی اکرمﷺ نے یہ بات ظاہری بات ہے مسجد میں کہی ہوگی اور مخاطب بھی صحابہ ہونگے

●》پھر نبی اکرمﷺ کا ہی فرمان ہے کہ سب سے افضل نماز باجماعت ہے
یہ بھی تو عمومی حدیث ہے تو پھر نبی اکرمﷺ نے یہ کیوں فرمایا کہ عورت کی افضل نماز گھر کے اندر ہے ؟؟؟؟؟
کیا نبی اکرمﷺ گھر میں فرض نماز پڑھتے تھے ؟ کیا انکی افضل نماز گھر میں تھی ؟ بالکل بھی نہیں

تو اسکا جواب ان انکی حضرات کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ یہاں چونکہ حدیث آگئی ہے
اور مسلہ مزکورہ یعنی عورت و مرد کی نماز میں فرق کی حدیث نہیں ہے اس لیے مرد و عورت کی نماز ایک جیسی ہے

اب کوئی انسے پوچھے کہ یعنی اب تم یہ بات تسلیم کر چکے ہو کہ عمومی حکم میں بھی تخصیص ہوتی ہے یہ قطعی قائدہ نہیں کہ ہر وقت عمومی حکم میں ہر کوئی شامل ہو اور استثناء کی صورت نہ ہو

جبکہ انکے نزیک تو ننگے سر نماز جائز ہے تو پھر اسی حدیث کے تحت عورت کی بھی نماز ہو جانی چاہیے

اور جو پردے کی روایت ہے اسکو ظاہری طور پر اس حدیث کے مخالف قرار دے دیا جائے
نبی اکرمﷺ تو سجود میں اپنی کہنیاں جسم سے اتنی دور رکھتے تھے کہ انکے بغلوں کے بالوں کی سفیدی صاف عیاں ہوتی تھی

کیا عورت حالت سجود عین مرد کی طرح کر سکتی ہے؟

ہم سب سے پہلے صحابہ کے اقوال پیش کرتے ہیں جس سے معلوم ہو کہ صحابہ میں عورتوں کے لیے رفع الیدین اور رکوع و سجود کے طریقہ میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا پردے کی بنیادی پر کیونکہ شریعت نے عورت ک لیے نماز میں بھی پردے کا خاص احتمام رکھا ہے

●》امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں ایک باب قائم کرتے ہیں اس مسلے پر
یہ وہی امام ابن ابی شیبہ ہیں جن سے کچھ غیر مقلدین امام ابو حنیفہ کے خلاف لکھا گیا باب دکھاتے نہیں تھکتے بلکہ ایک ٹانگ پر ناچتے ہیں

چناچہ وہ ایک باب قائم کرتے ہیں
■■باب:ُ المرأة كيف تكون في سجودها؟■■
عورتیں سجدہ کیسے کرینگی ؟
(نوٹ: متقدمین ائمہ محدثین کا اثار میں یہ باب قائم کرنا اسصبات کا متقاضی ہے کہ ائمہ سلف و صالحین میں متقدمین سےعورتوں کے سجود و قیود میں فرق تھا اور اس پر تخصیص تھی کیونکہ پردے کا حکم دوران نماز بھی فرض ہی رہتا ہے)

●》حضرت ابن عباس کافتویٰ!

حدثنا أبو بكر قال: نا أبو عبد الرحمن المقري، عن سعيد بن أيوب، عن يزيد بن حبيب، عن بكير بن عبد الله بن الأشج، عن ابن عباس أنه سئل عن صلاة المرأة، فقال: «تجتمع وتحتفر»

امام بکیر بن عبداللہ حضرت ابن عباس کے تعلق سے فرماتے ہیں :
ابن عباسؓ سے سوال ہوا کہ عورت کیسے نمازپڑھے ؟
فرمایا جسک کو سکیڑ کر اور ملا کر رکھے
[مصنف ابن ابی شیبہ برقم : 2778 ، وسند حسن لغیرہ]

اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں یہ اعتراض کسی کو ہو سکتا ہے کہ
کہ بکیر کا سماع ابن عباس سے ثابت ہے یا نہیں ؟
تو بکیر صغیر تابعین میں سے ہیں اور متعدد صحابہ سے انکا سماع ہے
انکی وفات 127ھ میں ہوئی تھی

امام حاکم کے علاوہ کسی نے سماع پر نفی نہیں کی لیکن یہ تقویت حاصل کریتی ہے جیسا کہ مولا علی سے مروی ہے اس روایت سے کیونکہ جرح برحال ہو چکی سماع پر

●》اسی طرح دوسر فتویٰ حضرت مولا علی کا موجود ہے

حدثنا أبو بكر قال: حدثنا أبو الأحوص، عن أبي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: «إذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتضم فخذيها»

حارث بیان کرتا ہے مولا علی کے حوالے سے :
حضرت علی فرماتے ہیں : کہ جب عورت سجدہ کرے تو اپنے جسم کو سکیڑ لے اور اپنی رانوں کو ملا کر رکھے ۔
[مصنف ابن ابی شیبہ برقم : 2777]

اسکی سند میں حارث حدیث و اثار میں تو ضعیف ہے لیکن حضرت علی سے مروی فقہی فتاواجات میں معتبر ہے اور باقی ابو اسحاق مدلس ہیں تیسرے درجے کے لیکن حضرت ابن عباس سے شاہد موجود ہونے کی وجہ سے یہ علت رفع ہو جاتی ہے

●》مجتہد کوفہ امام ابراہیم النخعی تابعی کافتویٰ

حدثنا أبو بكر قال: نا أبو الأحوص، عن مغيرة، عن إبراهيم، قال: «إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها، ولتضع بطنها عليهما»

مغیرہ ابراہیم النخعی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں :
ابراہیم النخعی فرماتے ہیں : جب عورت سجدہ کرے تو اپنی رانوں کو ملائے اور اپنے پیٹ کو ان پر رکھ دے ۔
[ایضا ، برقم : 2779]

اسکی سند میں ایک علت یہ کہ مغیرہ پر جرح مفسر ہے کہ یہ ابراہیم سے روایت میں تدلیس کرتے تھے

لیکن یہ قول دوسری سند سے بھی امام ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے

لیکن اس سے پہلے امام ابراہیم النخعی سے ایک روایت پیش کرتے ہیں

●》جیسا کہ امام احمد نے اپنی مسند میں نقل کی ہے
حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، قال بلغني: ” أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا سجد رئي بياض إبطيه
امام منصور ابراہیم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں

حضرت ابراہیم النخعی فرماتے ہیں مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے کہ نبی اکرمﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنی کہنیوں کو جسم سے اس طرح علیحدہ کرتے کہ انکی بغلوں کی سفیدی نظر آتی ۔۔۔

[مسند احمد ، برقم : 3446]

یعنی نبی اکرمﷺ کے عمل اور انکی سنت پر یہ مجتہدین مطلع تھے بلکہ آج کی پوری غیر مقلدین کی تعداد بھی آج تک اس دنیا میں پیدا نہیں ہوئی جتنی روایات اور سنت پر مطلع امام ابراہیم النخعی اور ان جیسے مجتہدین تھے
اب انکا فتویٰ موجود ہے جیسا کہ وہ فرماتے ہیں :

حدثنا أبو بكر قال: نا وكيع، عن سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، قال: «إذا سجدت المرأة فلتلزق بطنها بفخذيها، ولا ترفع عجيزتها، ولا تجافي كما يجافي الرجل»

منصور ابراہیم النخعی سے بیان کرتے ہیں : وہ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو ملا کر رکھے اور اپنی سرین کو بلند نہ کرے اور مردوں کی طرف جسم کو کشادہ نہ کرے
[مصنف ابن ابی شیبہ برقم : 2782، وسند صحیح ]

اس سے معلوم ہوا ایسی روایات جنکو وابی اٹھائے پھر رہے ہیں مجتہدین نے ان روایات سے عورتوں کے احکام کو استثناء دیا ہے ۔۔

بلکہ عورتوں کا حکم اس میں داخل نہیں کیا کیونکہ عورتوں کے لیے نماز میں ستر کا حکم مرد کے حکم سے الگ ہے

اس لیے احادیث رسولﷺ میں وہ باتیں جن عورت کے ستر اور اسکے پردے کے احکامات کے حوالے سے خلل ہو تو اس میں عورتوں کو مستثناء قرار دیا ہے صحابہ ، تابعین اور مجتہدین نے

●》امام حسن بصری کا فتویٰ!!
یہ وہی حسن بصری ہیں جن سے رفع الیدین کے ثبوت دکھاتے ہیں انکا موقف بھی دیکھ لیں عورتوں کے بارے :

●》حدثنا أبو بكر قال: نا ابن مبارك، عن هشام، عن الحسن، قال: «المرأة تضطم في السجود»
امام حسن بصری فرماتے ہیں :
عورت سجدوں میں اپنا جسم ملا کر رکھے گی
[مصنف ابن ابی شیبہ برقم : 2781 وسند صحیح ]

بعد والے مجتہدین جیساکہ

●》امام اعظم ابو حنیفہ:
قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ:وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا.
امام اعظم ؓفرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
وَقَالَ اَیْضاً:وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا.
عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے۔
[الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84، ص92]

●》امام شافعی کا فتویٰ:
قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافَعِیّ:وَقَدْ اَدَّبَ اللّٰہُ النِّسَائَ بِالْاِسْتِتَارِ وَاَدَّبَھُنَّ بِذَالِکَ رَسُوْلُہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاُحِبُّ لِلْمَرْاَۃِ فِی السُّجُوْدِ اَنْ تَنْضَمَّ بَعْضَھَااِلٰی بَعْضٍ وَتَلْصَقُ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَتَسْجُدُ کَاَسْتَرِمَایَکُوْنُ لَھَاوَھٰکَذَا اُحِبُّ لَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَ الْجُلُوْسِ وَجَمِیْعِ الصَّلَاۃِ اَنْ تَکُوْنَ فِیْھَا کَاَسْتَرِ َمایَکُوْنُ لَھَا.
امام شافعی فرماتے ہیں :

اللہ تعالی نے عورت کو پردہ پوشی کا ادب سکھایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی ادب سکھایا ہے۔ اس ادب کی بنیاد پر میں عورت کے لیے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ سجدہ میں اپنے بعض اعضاء کو بعض کے ساتھ ملائے اور اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے‘ اس میں اس کے لیے زیادہ ستر پوشی ہے۔ اسی طرح میں عورت کے لیے رکوع ،قعدہ اور تمام نماز میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز میں ایسی کیفیات اختیار کرے جس میں اس کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہو
[کتاب الام للشافعی ج 1ص 286ص 287ب]

●》اور فقہ حنبلی کے مصنف ابن قدامہ نے المغنی اور شرح الکبیر میں احمد بن حنبل کا بھی یہی فتویٰ لکھا ہے

قَالَ الْاِمَامَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:وَالْمَرْاَۃُ کَالرَّجُلِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ اَنَّھَا تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَۃً اَوْتَسْدُلُ رِجْلَیْھَافَتَجْعَلُھُمَا فِیْ جَانِبِ یَمِیْنِھَا۔۔۔۔۔ قَالَ اَحْمَدُ:اَلسَّدْلُ اَعْجَبُ اِلَ
احمد بن حنبل کہتا ہے:

سب احکام میں مرد کی طرح ہے مگر رکوع و سجود میں اپنے جسم کو سکیڑ کر رکھے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:عورت کا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھنا میرے ہاں پسندیدہ عمل ہے
[لمغنی لابن قدامۃ ج1 ص635]

الغرض سلف و حلف کا یہی موقف ہے کہ مرد کی نماز کی طرح عورت ارکان نماز ادا کرےگی
لیکن سجود ور رفع الیدین کے مقام اور تشہد میں اپنے جسم کو اس طرح سکیڑ کر بیٹھے گی کہ اسکے اعضاء ظاہر نہ ہو یا پردے کے احتمام میں خلل نہ آئے کیونکہ جس شریعت کا مقصود یہ ہے کہ عورت با جماعت نماز نہ پڑھے بلکہ گھر میں پڑھے
وہ شریعت یہ حکم کیسے دے سکتی ہے کہ عورت جھکنے اور اٹھنے میں اپنے اعضاء کی بے پرواہی کرتی رہے ۔۔۔
لیکن ان سب دلائل کے بعد وابی کیا کہتے ہوئے کپڑے جھاڑ کر نکل جائیں گے ؟
کہ یہ سب لوگوں کا موقف اس حدیث کے خلاف ہے جس میں عمومی حکم ہے
اور یہ عمومی حکم ہے اس ان پر وحی نہیں اتری بلکہ یہ حضرات خود بھی قیاس جھاڑ رہے ہیں
اور کن کے خلاف قیاس جھاڑ رہے ہیں صحابہ و تابعین اور متجدہین کے خلاف
اور انکو شرم نہیں آتی کہ جو ہم نے قیاس جھاڑا ہے یہی حدیث رسولﷺ عین ہے جو ہمارے اس قیاس سے اختلاف کریگا یعنی کہ یہ روایات عمومی نہیں۔ بلکہ متقدمین کے فتاوجات کو دیکھا جائے تو یہ موقف کہ ”عورت کی نماز میں فرق نہیں ” یہ مسلہ خود بدعت ہے جو متقدمین کے ادوار میں متفقہ تھا لیکن بعد والوں نے اس میں اختلاف کر لیا ۔

اور متقدمین میں حضور اکرمﷺ کی وفات کے بعد عورتوں کے مساجد آنے پر کیا ماحول تھا اسکا اندازہ اس ایک روایت سے لگا سکتے ہیں:

ا مام عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ مشہور زمانہ کتاب الزھد میں ایک روایت نقل کرتے ہیں :

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَلْدَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا السَّوَّارِ يَقُولُ لِمُعَاذَةَ الْعَدَوِيَّةِ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَدِيٍّ: ” تَجِيءُ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَتَضَعُ رَأْسَهَا وَتَرْفَعُ اسْتَهَا، قَالَتْ: وَلِمَ تَنْظُرُ؟ اجْعَلْ فِي عَيْنَيْكَ تُرَابًا وَلَا تَنْظُرْ، قَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَسْتَطِيعُ إِلَّا أَنْ أَنْظُرَ ثُمَّ إِنِّي اعْتَذَرْتُ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا سَوَّارٍ إِذَا كُنْتُ فِي الْبَيْتِ شَغَلَنِي الصِّبْيَانُ وَإِذَا كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ كَانَ أَنْشَطَ لِي قَالَ: النَّشَاطَ أَخَافُ عَلَيْكِ “

حضرت ابو خلدہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو السوار سے سنا تھا، آپ نے معاذہ عدویہ (عورت) سے اس وت کہا جب وہ بنوعدی کی مسجد میں تھیں”تم میں سے کوئی (عورت) مسجد میں آجاتی ہےتو سر رکھ کر پچھلا حصہ اٹھا لیتی ہے”
اس (عورت) نے کہا آپ نے دیکھا ہی کیوں ؟ آنکھوں میں مٹی ڈال لی ہوتی، اب دیکھنے کی کوشش نہ کرو۔ انہوں نے کہا کیا کروں ؟ خدا کی قسم! نظر تو پڑ جاتی ہے اور پھر میں نے معذرت کرلی۔ اس (عورت) نے کہا! اے ابو السوار میں گھر میں ہوتی ہوں تو بچے پریشان کرتے ہیں اور مسجد میں آجاتی ہوں تو خوشی ہوتی ہے ۔
انہوں (ابو سوار) نے کہا! اسی خوشی کا مجھے تم پر خوف ہے (کہ عورتوں کے سبب ہماری نظریں محفوظ نہیں )
[کتاب الزھد للعبداللہ بن احمد بن حنبل ، برقم: 1853]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سند کے رجال کا تعارف!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.1 پہلے راوی: عمرو بن علي بن بحر بن كنيز،
قال النَّسائيّ: ثقة حافظ، صاحب حديث.
امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ حافظ اور حدیث والا ہے
[تاریخ الاسلام للذھبی برقم: 350]

.2دوسرے راوی: سليمان بن داود أبو داود الطيالسي
الحَافِظُ الكَبِيْرُ، صَاحِبُ (المُسْنَدِ) ،
امام ذھبی کہتے ہیں کہ بڑے حافظ الحدیث اور مسند کے مصنف ہیں
[سیر اعلام النبلاء للذھبی برقم: 123]

.3تیسرے راوی: خالد بن دينار، أبو خَلْدة التَّميميُّ البَصْريُّ الخَيَّاط
وثقه يزيد بن زريع، وابن معين، والنسائي.
امام ذھھبی کہتے ہیں امام یزید ، امام ابن معین اور امام نسائی نے انکو ثقہ قرار دیا ہے
[تاریخ الاسلام للذھبی برقم: 30]

.4چوتھے راوی: أبو السوار العدوي، البصري،
ثقة
[تقریب الہتذیب ابن حجر عسلانی برقم: 8152]

اور جس عورت سے امام ابو سوار نے بات کی انکا مختصر تعارف درج ذیل ہے:

معاذة بنت عبد الله أم الصهباء العدوية
السيدة، العالمة، أم الصهباء العدوية، البصرية، العابدة، زوجة السيد القدوة: صلة بن أشيم.
روت عن: علي بن أبي طالب، وعائشة، وهشام بن عامر.
وحديثها محتج به في الصحاح.
وثقها: يحيى بن معين.
امام ذھبی کہتے ہیں : یہ سیدہ عالمہ اور صھبا کی والدہ تھیں ۔ یہ بصرہ کی تھیں اور بہت عبادت گزار تھیں اور یہ صلہ بن اشیم کی زوجہ تھیں۔
انکی حدیث سے صحاح میں احتجاج کیا گیا ہے
اور امام یحییٰ بن معین نے بھی انکو ثقہ قرار دیا ہے۔
[سیر اعلام النبلاء برقم: 200]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ خیر القرون کے اس پاکیزہ دور میں امام ابو سوار جیسے عظیم محدث حیثیت کے مالک لوگ بھی عورت کے مسجد میں آنے کے سبب اپنی نظروں پر بشری تقاظے کے سبب کنٹرول نہ کر پاتے ، یہی وجہ ہے کہ اس امت کے محدث حضرت عمر بن خطاب نے عورتوں کو مسجد میں آنے کو نا پسند کیا ۔ کیونکہ انکی سوچ آنے والے وقت کو پہلے بھانپ گئی تھی۔ اور آج کو دور جو فتنوں سے بھرا ہوا ہے اور آج کے دور میں کچھ نادان لوگوں کا یہ سوچنا کہ عورتوں کو مسجد میں جانے کی ترغیب دیتے ہیں بلکہ اصرار کرتے ہیں تو انکے لیے مقام فکر ہے ۔۔۔

اور دوسری بات :
چونکہ امام ابو السوار حضرت عمر بن خطاب کے شاگرد تھے۔
تو عورت کے سجدہ کرنے کے طریقہ کو بھی امام ابو سوار نے اچھا نہیں سمجھا مردوں کی طرح

معلوم نہیں خود کو سلفی کہنے والے یہاں کیوں سلف سے بغاوت شروع کر دیتے ہیں!!!
اسد الطحاوی ✍