http://www.sunnipublications.net

اُس وقت تمہارا کیا حال ہوگا؟

تحریر: محمد زبیر قادری

آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ”اُس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہو جائیں گے اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی۔
صحابۂ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! کیا ایسا بھی ہوگا؟
فرمایا: ہاں، اور اِس سے بڑھ کر۔
اُس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع کروگے۔
صحابۂ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا ایسا بھی ہوگا؟
فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اُس وقت تم پر کیا گزرے گی، جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو برائی سمجھنے لگوگے۔“ (کتاب الرقائق، ابن مبارک، ص۴۸۴)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کی عملی تصویر آج ہمارے معاشرے میں نظر آرہی ہے۔ انسان دنیاوی ترقی کی طرف تو جارہا ہے لیکن آخرت کے معاملہ اس کا برعکس ہے۔ یعنی لوگ دنیا میں اتنے مست اور مگن ہوگئے ہیں کہ آخرت کی کوئی فکر ہی نہیں۔
اللہ اور اس کے پیارے رسول ﷺ نے ہمیں جس جس چیز سے منع کیا اور جن چیزوں کو حرام قرار دیا، آج ہم میں ان چیزوں کو بڑے شوق سے اپنا رہے ہیں اور ان کاموں کو بڑی خوشی سے کررہے ہیں۔ حالانکہ ہمیں یہ وعید معلوم ہےکہ ان چیزوں کی حصول یابی اور ان کاموں کے انجام پر جہنم کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
معاشرے میں پنپتے ہوئے جھوٹ، چوری، غیبت، حرام کاری روز افزوں بڑھتا جارہا ہے۔ اُمت کے معماروں کی توجہ اس جانب بالکل بھی نہیں جبکہ معاشرے کے سدھار کی ذمے داری ان کے کاندھوں پر ہے۔
ہماری قوم کے ہونہار نوجوان دن رات موبائل فون اور انٹرنیٹ پر مصروفِ عمل نظر آرہے ہیں، جیسے یہ بہت بڑا کارِ خیر ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ہمیں اخباروں میں یہ خبریں پڑھنے مل رہی ہیں کہ کمسن نوجوان نے نابالغ لڑکی سے منہ کالا کیا۔ …. بے چارے والدین دن رات کولہو کے بیل کی طرح پیسہ کمانے میں ہی لگے ہوئے ہیں، یہ اپنے بچوں کو موبائل فون اور انٹرنیٹ تو دلا دیتے ہیں، مگر وہ یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ان کے ہونہار بچے اس کا استعمال کیا کررہے ہیں؟
اسی طرح حدیث مبارکہ کے مطابق ”تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی“۔ اس کا مظاہرہ ہم آئے دن کررہے ہیں کہ لڑکیاں و عورتیں آزادی کے نام پر آج سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ بے ہودہ، لچّر اور فضول ٹی وی سیریلوں، ویب سیریز کو دیکھ دیکھ کر یہ اتنی آپے سے باہر ہوگئی ہیں کہ آج عورتیں اور لڑکیاں بازاروں میں کم سے کم کپڑوں میں رہنا باعثِ فخر سمجھنے لگی ہیں۔ جدید فیشن کے نام پر عورتوں کے جسم سے کپڑے کم سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ اور اس کو کوئی معیوب بھی نہیں سمجھ رہا، کوئی ٹوکنے والا نہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے؟؟؟ جب عورتیں ایسا کریں گی تو بچیاں کیوں پیچھے رہیں؟؟؟
آج بچیاں کالج جانے کے لیے گھر سے برقع میں نکلتی ہیں مگر راستے میں ہی برقع اُتر کر پرس میں چلا جاتا ہے اور اندر سے جینس ٹی شرٹ میں ملبوس دوشیزہ باہر نکلتی ہے۔ ان مسلمان گھرانوں کو کیا ہوگیا ہے، جن کی یہ بچیاں ہیں۔ کل ناگپاڑہ جنکشن سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ دو لڑکے اور تین لڑکیاں جو برقع ملبوس تھیں، مستی مذاق دست درازی کرتے جارہے تھے۔ جو کہ قریب کے ایک مسلم کالج کے طلبا و طالبات تھے۔ ایسی حرکتیں شادی شدہ افراد بھی راستے پر کرنے سے شرمائیں گے۔ لیکن وہ برقع پوش لڑکیاں بلاجھجک اپنے دوستوں کے ساتھ خوش فعلیوں میں مصروف بھری سڑک سے گزر رہی تھیں۔ اس طرح کے واقعات ہر مسلم کالج کے اندر و باہر سڑکوں پر نظر آتے ہیں، مگر حیرت ہے کہ ان کے والدین کیوں آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ کیا انہیں آج کے حالات کا علم نہیں۔ یا وہ یہ چاہتے ہیں کہ اچھا ہے لڑکا لڑکی خود ہی اپنی پسند سے شادی کرلیں۔ ان کے لیے دُلہا یا دلہن کی تلاش نہ کرنا پڑے اور شادی کے خرچے بھی بچ جائیں۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کل شادی سے پہلے ہی وہ سب کچھ ہوجاتا ہے جو کہ شادی کے بعد ہونا چاہیے۔ اس طرح کے واقعات کی بہتات ہے، لیکن معاشرے میں بدنامی کے باعث ایسے واقعات کو دبا دیا جاتا ہے۔
اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔
سنیو۔۔۔۔ جاگو۔۔۔