مشہور روایت ”من كنت مولاه فعلي مولاه” سے کیا خلافت مراد ہے ؟
امام شافعی اور امام حسن بن حسن بن حسن بن ابی طالب ھاشمی مدنی کی گواہی!!!
تحقیق: اسد الطحاوی

امام بیھقی نے اس روایت کی شرح امام شافعی علیہ رحمہ سے نقل کی ہے:

أخبرنا أبو عبد الله السلمي، ثنا محمد بن محمد بن يعقوب الحجاجي، ثنا العباس بن يوسف الشكلي قال: سمعت الربيع بن سليمان يقول: سمعت الشافعي رحمه الله يقول في معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم لعلي بن أبي طالب رضي الله عنه: من كنت مولاه فعلي مولاه، يعني بذلك ولاء الإسلام

امام ربیع بن سلیمان فرماتے ہیں میں نے امام شافعی سے سنا کہ نبی اکرمﷺ کے اس قول کا معنی جو انہوں نے مولا علیؓ سے کہا جسکا میں مولا علیؓ اسکا مولا اسے مولا سے مراد ”اسلامی بھائی چارہ” ہے
[الاعتقا للبیھقی ، ص 355،د وسند حسن]

سند کے رجال کا مختصر تعارف!!
1۔امام محمد بن حسین ابو عبد الرحمٰن السلمی
حافظ ابو یعلی الخلیلیؒ (المتوفی 466ھ) فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ، مُتَّفَقٌ عَلَيْهِان
(یعنی ابو عبدالرحمٰن سُلمی) کے ثقہ ہونے پرسب کااتفاق ہے
[الارشاد فی معرفۃ علماء اہلحدیث: ص460]

2۔ محمد بن محمد بن يعقوب أبو الحسين الحجّاجي المقرئ
امام ذھبی آپکے بارے فرماتے ہیں:
العبد الصالح الصّدُوق.
[تاریخ الاسلام للذھبی، برقم:300]

3۔ العباس بن يوسف الشكلي أبو الفضل البغدادي الصوفي.
امام ذھبی انکے بارے کہتے ہیں:
وكان من مشاهير الشيوخ. روى عنه: ابن شاهين، وأبو المفضل محمد بن عبد الله الشيباني، وعبد الله بن عدي، ومحمد بن عبيد الله بن الشخير، وجماعة.
وهو مقبول الرواية.
یہ مشہور ائمہ شیوخ میں سے تھے۔ ان سے امام ابن شاھین(ناقد) ، امام عبداللہ بن عدی (صاحب الکامل) اور ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ اور انکی روایات مقبول (احتجاج بہ) ہیں
[تاریخ الاسلام للذھبی، برقم:159 ]

نوٹ:
(امام ذھبی کی اصطلاح ”مقبول الروایہ” یا ”مقبول” سے مرواد ایسا راوی ہوتا ہے جس سے احتجاج کیا جائے اور اسکا درجہ کم از کم امام ذھبی کے نزدیک صدوق ہوتا ہے)
جیسا کہ ایک راوی کے ترجمہ میں کہتے ہیں:
وهو مصدوق مقبول،
[میزان الاعتدال، برقم:5353]

نیز چونکہ یہ راوی امام ابن عدی کے شیوخ میں سے بھی ہیں جیسا کہ امام ابن عدی نے اپنی تصنیف ”الکامل فی ضعفاء میں ان سے متعدد بار روایت بھی کیا ہے
حدثنا عباس بن يوسف الصوفي،الخ۔۔
[الکامل فی ضعفاء الرجال ، برقم:1816،1971]

امام ابن عدی نے انکو اپنی کتاب الضعفاء میں شامل نہیں کیا ہے یعنی انکے نزدیک انکے یہ شیخ ثقہ و صدوق تھے
جیسا کہ اپنی کتاب الکامل کے مقدمہ میں امام ابن عدی علیہ رحمہ فرماتے ہیں:
ولا يبقى من الرواة الذين لم أذكرهم إلا من هو ثقة أو صدوق
اور باقی رجال جن کا تذکرہ میں نے ذکر نہیں کیا (اس کتاب الکامل میں )سوائے ثقہ اور صدوق درجہ کے ہیں
[مقدمہ کتاب الکامل فی ضعفاء، ص، 79]

تو اس سے بھی ضمنی توثیق ثابت ہوتی ہے اس راوی کی تو امام ذھبی کی توثیق اور امام ابن عدی سے ضمنی توثیق ثابت ہو جانے کے بعد انکو مجہول کہنا درست نہیں ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے بعد امام بیھقی اگلی روایت اپنی سند سے لاتے ہیں :

أخبرنا يحيى بن إبراهيم بن محمد بن علي , أنا أبو عبد الله محمد بن يعقوب قال: ثنا محمد بن عبد الوهاب , أنا جعفر بن عون , أنا فضيل بن مرزوق، قال: سمعت الحسن بن الحسن، وسأله، رجل، ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كنت مولاه فعلي مولاه» ، قال لي: بلى والله لو يعني بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم الإمارة والسلطان لأفصح لهم بذلك، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان أنصح للمسلمين، فقال: «يا أيها الناس، هذا ولي أمركم والقائم عليكم من بعدي فاسمعوا له وأطيعوا والله لئن كان الله ورسوله اختار عليا لهذا الأمر وجعله القائم به للمسلمين من بعده ثم ترك علي ما أمر الله ورسوله لكان علي أول من ترك أمر الله ورسوله»

امام فضیل بن مرزوق بیان کرتے ہیں میں نے امام حسنؒ بن حسنؓ بن حسنؓ بن علیؓ بن ابو طالب کو کہتے سنا: اور ان سے سوال کیا ایسے شخص کے بارے جو کہتا ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا؟: “جسکا میں مولا ہوں علیؓ بھی انکے مولا ہیں” تو انہوں نے کہا: ” بے شک، اور اللہ کی قسم، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خلافت اور حاکم (سلطان)کی بات کی ہوتی تو وہ اس کو لوگوں کو واضح طور پر بتا دیتے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لئے بہت فصیح تھے”۔ انہوں (امام حسن)نے فرمایا(حضور اکرمﷺ یوں فرماتے): “اے لوگو، یہ تمہارا قائد اور میرا جانشین ہے، سو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ وہی کچھ ہوگا کہ اگر اللہ اور اس کے رسول نے علیؓ کو اس امر کے لئے منتخب کیا اور مسلمانوں کے لئے اس کو قائم کیا تھا، پھر اگر وہ(لوگ) حضرت علیؓ کو چھوڑ دیتے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہدایات کو نظر انداز کرتے، تو (خود) حضرت علیؓ پہلے ہوتے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو چھوڑتے۔
(یعنی کہ اللہ و رسولﷺ نے انکو خلیفہ بناتے اور جانشین مقرر کرتے اور حضرت علی ؓ اپنا یہ حق بغیر جدو جہد کے چھوڑ دیتے جو کہ اللہ و رسولﷺ کی طرف سے تھا تو یوں خود مولا علیؓ پہلے ہوتے جو اللہ و رسولﷺ کے حکم کی نا فرمانی کرنے والے ہوتے ۔معاذاللہ)
[الاعتقاد ، ص 355،وسندہ صحیح]

سند کے رجال کی تحقیق:
1۔ يحيى بن إبراهيم بن محمد بن يحيى، أبو زكريا ابن المزكي أبي إسحاق
امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں:
مسند نيسابور وشيخ التزكية.كان ثقة نبيلا زاهدا صالحا، ورعا متق
[تاریخ الاسلام للذھبی، برقم:166]

2۔ محمد بن يعقوب بن يوسف الشيباني الحافظ، أبو عبد الله بن الأخرم النيسابوري
امام ذھبی سیر اعلام میں فرماتے ہیں:
الإمام، الحافظ المتقن، الحجة
[سیر اعلام النبلاء، برقم: 263]

3۔ محمد بن عبد الوهاب بن حبيب. الفقيه أبو أحمد العبدي النيسابوري الفراء الأديب
امام ذھبی لکھتے ہیں:
وروى عنه من أقرانه: محمد بن يحيى، وأحمد بن سعيد الدارمي، وأحمد بن الأزهر، وغيرهم. ومن الأئمة: النسائي ومسلم، وقال: ثقة
ان سے روایت کرنے والوں میں امام یحییٰ الذھلی ، امام دارمی وغیرہم ہیں ۔ اور امام نسائی و مسلم جیسے ائمہ بھی۔ اور انہوں نے کہا یہ ثقہ ہے ۔
[سیر اعلام النبلاء، برقم: 394]

4۔ جعفر بن عون بن جعفر المخزومي العمري
امام ذھبی انکے بارے نقل فرماتے ہیں:
وقال أحمد بن حنبل: رجل صالح، ليس به بأس. قال محمد بن عبد الوهاب – وهو من المكثرين عن جعفر
امام احمد کہتے ہیں یہ نیک شخص ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اور امام ابن عبد الوھاب نے کہا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جعفر بن مرزوق سے سب سے زیادہ روایت کرنے والے ہیں
[سیر اعلام النبلاء ، برقم: 165]

5۔ فُضَيْلُ بنُ مَرْزُوْقٍ العَنَزِيُّ مَوْلاَهُم
امام ذھبی لکھتےہیں:
وَثَّقَهُ: سُفْيَانُ بنُ عُيَيْنَةَ، وَيَحْيَى بنُ مَعِيْنٍ.
وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: أَرْجُو أَنَّهُ لاَ بَأْسَ بِهِ.
[سیر اعلام النبلاء برقم: 124]
اور انکے بارے تصریح کرتے ہوئے امام ذھبی لکھتےہیں :
قُلْتُ: وَهُوَ شِيعِيٌّ غَيْرُ رَافِضِيٍّ.
میں کہتا ہوں یہ شیعہ تھے لیکن امامی کھٹمل نہیں تھے
[تاریخ الاسلام ، برقم: 323]
اور

آخری راوی : امام حسن بن حسن بن حسن بن ابی طالب ھاشمی مدنی جو اہل بیت کی نسل سے ہیں
انکے والد کو امام حسن المثنی بھی کہا جاتا ہے یعنی امام حسن مثنیؓ امام حسنؓ کے والد تھے اور انکی شادی امام حسین ؓ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے ہوئی تھی ۔ تو معلوم ہوا کہ امام حسن بن حسن بن حسن کے والد امام حسنؓ کے بیٹے اور انکی والدہ امام حسینؓ کی بیٹی ہیں

جیسا کہ امام ابن حبان فرماتے ہیں :
الحسن بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم يروي عن أبيه روى عنه أهل بلده أمه فاطمة بنت الحسين بن علي مات في الحبس
امام حسن بن حسن بن حسن بن علی بن ابو طالب یہ اپنے والد سےروایت کرتے تھے اور اہل علاقہ سے انکی والدہ حضرت فاطمہؓ جو امام حسینؓ بن علیؓ کی بیٹی تھیں ۔
[الثقات ابن حبان برقم: 7153]
ایسے ہی امام ابن سعد الطبقات میں بیان کیا ہے

امام ذھبی تذھیب میں فرماتے ہیں :
الحسن بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالبالهاشمي المدني، وأمه فاطمة ابنة الحسين بن علي، وله أخوان: عبد الله وإبراهيم.
روى عن: والديه.وعنه: فضيل بن مرزوق، وعبيد بن وسيم الجمال، وعمر بن شبيب المُسلي.
امام حسن جو کہ امام حسن بن حسنؓ بن علیؓ ہیں (امام علی کے پڑپوتےہیں ) یہ مدنی ھاشمی خاندان کے ہیں اور انکی والدہ حضرت فاطمہؓ ہیں جو کہ امام حسینؓ بن علیؓ کی بیٹی ہیں ۔ اور ان (امام حسن ) کے دو بھائی تھے ایک عبداللہ اور دوسرا ابراہیم
یہ اپنی والدہ حضرت فاطمہ ؓبنت حسینؓ سے روایت کرتے تھے ، اور ان سے فضیل بن مرزوق اور دیگر روایت کرتے ہیں
[تذهيب تهذيب الكمال ، برقم: ]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خلاصہ تحقیق: جن تفضیلیوں نے ایسی روایت سے مولا علیؓ کے خلیفہ ہونے پر قیاس کیا ہے وہ امام حسن مثنیٰ کے بیٹے جو خود اہل بیت میں سے ہیں انکے نزدیک بھی مولا علیؓ کے گستاخ ہیں کیونکہ اگر نبی اکرمﷺ نے یہاں خلافت مولا علیؓ کا اعلان فرمانا ہوتا تو وہ تصریحا فرماتے ۔ اور مولا علیؓ اگر اس سے مراد اعلان خلافت سمجھتے تو وہ ضرور اپنے اس حق کے لیے کھڑے ہو جاتے بلکہ جنگ کرتے
اور انکا اس خلافت جو کہ حضرت ابو بکر صدیق اسکے حقدار تھے اور اکے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک ہمیشہ خاموش رہنا اور انکو خود سے افضل قرار دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ مولا علیؓ بھی اس روایت سے وہ مطلب اخذ نہیں کرتے تھے جیسا کہ آج کے تفضیلیوں کو بخار اٹھا ہے

اور امام شافعی جنکی بہت تعظیم کی جاتی ہے تفضیلیہ کے ہاں انہوں نے بھی اس سے مراد فقط اسلامی بھائی چارا ہے نہ کہ کسی قسم کی خلافت کا اعلان!!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور حضرت علی ؓ سے اسکا ثبوت بھی موجود ہے کہ واقعی وہ اس روایت سے ایسا کوئی اجتہاد نہ فرمایا بلکہ کسی بھی صحابیؓ نے اس حدیث کی بنیاد پر ایسا نہیں سمجھا جیسا کہ مسند احمد میں مروی ہے :
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا حنش بن الحارث بن لقيط النخعي الاشجعي ، عن رياح بن الحارث ، قال: جاء رهط إلى علي بالرحبة، فقالوا: السلام عليك يا مولانا، قال: كيف اكون مولاكم وانتم قوم عرب؟ قالوا: سمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم غدير خم، يقول: ” من كنت مولاه، فإن هذا مولاه” ، قال رياح: فلما مضوا تبعتهم، فسالت من هؤلاء؟ قالوا: نفر من الانصار فيهم ابو ايوب الانصاري
..
ریاح بن حارث کہتے ہیں کہ ایک گروہ ” رحبہ ” میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا ” السلام علیک یا مولانا ” حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہارا آقا کیسے ہوسکتا ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غدیر خم کے مقام پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں جب وہ لوگ چلے گئے تو میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا اور میں نے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ کچھ انصاری لوگ ہیں جن میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔
[مسند احمد، برقم: 23563،وسندہ صحیح]

معلوم ہوا یہ موقع جس میں کچھ صحابہ کرامؓ کی حضرت علیؓ سے مال غنیمت پر کچھ اختلاف ہوا ان لوگوں کی شکایات کے جواب میں حضور اکرمﷺ نے یہ بات فرمائی تی اور اس لیے یہ وقتی مسلہ تھا جو نبی اکرمﷺ کے فرمان کے بعد ختم ہو گیا تبھی مولا علیؓ اس بات کو بھول چکے تھے لیکن چونکہ ان لوگوں نے یہ بات حضرت علیؓ کو یاد کرائی تو انکو یہ بات یاد آئی جس سے معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ یا دیگر صحابہ کرامؓ یا اہل بیتؓ اس سے مراد خلافت یا جانشین بننا لیتے تو یہ محال ہے کہ وہ خود اسکو بھول جاتے ۔۔۔

تحقیق: دعا گو اسد الطحاوی