تاج الشریعہ اور تحفظ ایمان

از محمد زبیر قادری،
ایڈیٹر مسلک، ممبئی

حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختررضا قادری ازہری رحمۃ اللہ علیہ کا شمار ہندوستان میں اہلِ سنّت و جماعت کے ان اساطین میں ہوتا ہے، جن کی وجہ سے یہاں سُنّیت محفوظ ہے ، اور محفوظ رہے گی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ حق و باطل میں امتیاز خانوادۂ رضویہ کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔ حضور تاج الشریعہ نے بھی زندگی بھر اس پر عمل کیا …. ان شاء اللہ ہمیشہ ہمیش یہ عمل مستحکم اور قائم و دائم رہے۔
اکثر لوگ خانوادۂ اعلیٰ حضرت پر یہ اعتراضات کرتے ہیں کہ وہ لوگ سوائے فتویٰ دینے کے دین و سُنّیت کا کچھ کام نہیں کرتے۔اور جو بھی کام کرتا ہے، اس پر فتوے بازی شروع کردیتے ہیں۔
کافی عرصے قبل احقر بھی اس خیال کا حامی ہوگیا تھا۔ لیکن حالات کا مشاہدہ کرتے کرتے حق و باطل میں امتیاز واضح ہوگیا۔ سمجھ میں آگیا کہ ہر کسی کا احتساب کیوں ضروری ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک کا منظر نامہ دیکھ لیجیے، بہت سارے دینی فتنے وہاں سے اُٹھے۔جس نے سُنیت کو پارہ پارہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس بات کا ہمیں اعتراف ہے کہ وہاں دین و سنّیت کا اچھا خاصا کام ہوا اور ہورہا ہے…. مگر ساتھ ہی وہاں سے اُٹھنے والے دینی فتنوں نے سنّیت کو جو نقصان پہنچایا، اس کی تلافی بھی ممکن نہیں۔ طاہر القادری، گوہر شاہی، جاوید غامدی، مرزا انجینئر وغیرہ اور نہ جانے کتنے ہی پیروں نے عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہے۔ قادیانیت کو سب سے زیادہ فروغ وہیں سے ملا…. یہ سب کیسے ممکن ہوگیا؟؟ حالانکہ وہاں بھی سنّیوں کی اکثریت ہے، اس کے باوجود بھی آئے دن نت نئے فتنے و فرقے وجود پذیر ہوتے رہتے ہیں اور دین و سنّیت کو کھوکھلا کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں ۔
اس کے برعکس ہند میں جب بھی دین کے نام پر کوئی فتنہ اُٹھنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا سر کچل دیا جاتا ہے، اس کا گلا دبا دیا جاتا ہے۔ایسی سخت گرفت کی جاتی ہے کہ اگر وہ فتنہ مکمل ختم نہیں ہوتا، تب بھی محدود و مطعون ضرور ہوجاتا ہے۔ اس قدر معتوب ہوجاتا ہے کہ لوگ ان کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ حال ہی میں الہٰ آباد سے اُٹھنے والا فتنہ سیّد سراواں کو دیکھ لیجیے۔ جس نے کئی بڑوں پر ایسا جادو چلایا کہ وہ بھی تقلید سے منحرف اُس صوفی کے اسیر نظر آنے لگے۔ لیکن خانوادۂ بریلی شریف سے وابستہ رہنے والے علما و مفتیان و خلفا کبھی کسی فتنے سے جلد متاثر نہیں ہوتے۔ کبھی کسی نئی فکر و نظر سے متاثر نہیں ہوتے۔ لہٰذا علما کی گرفت اور تعاقب سے جلد ہی شیخ سراواں کا جادو مانند سراب زائل ہوگیا، ورنہ نہ جانے کتنے لوگ اس کے دام فریب کا شکار ہوجاتے۔
اس سے قبل ماہ نامہ جامِ نور تیزی سے ایک فتنے کی شکل میں اُبھرا…. حضرت علامہ ارشد القادری کی نسبت نے لوگوں کو اس تحریک کے قریب کردیا…. مگر جب اس نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ کی فکر و نظر سے انحراف کیا، تو لوگ اس سے دور ہوتے گئے۔ اس فتنے نے بہت اہلِ علم کو اپنا اسیر کیا…. پھر ان کی زبانیں اپنے اسلاف کے حق میں گستاخ ہوگئیں۔ رفتہ رفتہ جام نور کی حقیقت واضح ہوتی گئی… اور آخر میں یہ فتنۂ رواں صدی طاہر القادری سے مل گیا۔تو اس کی اصلیت خوب واضح ہوگئی۔
عرض مدّعا یہی ہے کہ دین پر کسی حاکم کی گرفت مضبوط ہونا لازمی ہے، ورنہ لوگ دین سے کھلواڑ کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بروقت پکڑ کرنا، اس فتنے کا سدّباب کرنا…. آج کے دور میں سب سے اہم ضرورت ہے، جو کہ حضور تاج الشریعہ کے ذریعے ممکن ہوئی۔خارجی فتنوں سے تو ہم مستقل برسرِ پیکار رہتے ہی ہیں، لیکن داخلی فتنے جب سُنّی بن کر گمراہ کرنے نکلتے ہیں، تو اس کی پہچان دیر سے ہوتی ہے، تب تک کافی لوگ اس فتنے کے اسیر اور گمراہیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
آج فتنوں کا دَور دَورہ ہے…. باطل مذاہب…. باطل فرقے تو ہیں ہی…. لیکن صلح کلیت ایک بڑا فتنہ ہے، جو سنّیت میں رہتے ہوئے سنّیت کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں لگا ہوا ہے۔ کوئی بھی فرد ہو، اِدارہ یا تنظیم ہو، جب تک وہ دین و سنّیت پر مضبوطی سے قائم ہے…. اور اسلاف سے ہٹ کر کچھ غلط راہ نہیں اپناتا، تب تک وہ اپنا ہے….. ورنہ سنّیت میں اس کے لیے جگہ نہیں۔
گروہ در گروہ اور فرقہ در فرقہ بنانے سے سنّیت پارہ پارہ ہورہی ہے۔ ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے اسی کو سارا دین سمجھ رہا ہے۔ تنظیمیں ، اِدارے بنائے جاتے ہیں دین و سُنّیت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے، لیکن تنظیم کو ہی سارا دین و اسلام سمجھ لیا جاتا ہے…. اپنے آپ کو ہر تنقید سے بالاتر اور معصوم عن الخطا سمجھنا، یوں لگتا ہے اس دور کا خاصا بن گیا ہے۔ اس لیے بھلے ہی آپ کسی بھی تنظیم سے وابستہ ہوں، یہ مزاج اپنا لیجیے کہ صرف سنّیت کے لیے کام کرنا ہے، سُنّی مبلغ ہی بنے رہنا ہے۔ اور تنظیم کا مقصد بھی تو یہی ہے ناں!!!
حضور تاج الشریعہ کا یہی مشن تھا، جس پر عمل پیرا ہوکر ہم سنّیت کا صحیح معنوں میں تحفّظ کرسکتے ہیں۔ اس لیے اس مشن کو جاری رہنا چاہیے۔
حضور تاج الشریعہ کی حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رہتی تھی۔ وہ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے ریڈیو پر خبریں برابر سنتے تھے۔ دنیاوی سیاست و حالات پر نظر رکھتے تھے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہر معاملے میں بہت محتاط روی سے کام لیتے تھے۔ کسی کے بارے فوراً رائے نہیں دے دیتے تھے، بلکہ خاموشی سے جائزہ لیتے، اس کے معاملات پرکھتے، پھر کوئی فیصلہ لیتے۔ یہی محتاط روی دین کی اساس ہے۔۔۔
جبکہ کچھ لوگوں کا عمل دیکھ لیجیے کہ کل تک جن چیزوں کو حرام قرار دے کر ان سے دور و نفور تھے، آج جواز کا فتویٰ دے کر گلے کا ہار بنا کر استعمال کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے فتوے اس قدر جلدی بدل جاتے ہیں، جیسے کہ لباس تبدیل کر رہے ہوں۔ ایسے لوگوں سے دین کا نقصان ہے۔ اللہ بچائے دورِ جدید کے …………سے۔
حضور تاج الشریعہ ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن ہمیں ان کے مشن کو جاری و ساری رکھنا ہوگا۔ یہی مشن مسلکِ اعلیٰ حضرت ہے۔
زندگی یہ نہیں ہے کسی کے لیے زندگی ہے نبی کی نبی کے لیے