*کسی کے غم میں اضافہ مت کیجیے*
*if u cant* reduce *trouble* don’t *increase* .
*ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب : *ابرش نور
*قدیم زمانے کی بات ہے ایک آدمی اپنے بہترین قیمتی گھوڑے پر سوار ساحل سمندر پر سفر کر رہا تھا جیسے جیسے سورج ڈھل رہا تھا ۔* رات کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ اس کی تھکن میں بھی اضافہ ہو رہا تھا ۔ *بڑھتی تھکن نے اسے سراۓ کی تلاش پر مجبور کیا اور وہ کافی تلاش کے بعد ایک سرائے میں پہنچا۔* سراۓ کے قریب پہنچ کر اس نے اپنے گھوڑے کو سرائے کے دروازے کے قریب ایک درخت سے باندھا اور سرائے میں چلا گیا۔کھانا کھانے کے بعد مسافر نے سوچا کچھ وقت سستا لیا جاۓ اور پھر سفر کا آغاز کروں گا۔ *رات کے دامن میں سکون تھا مسافر نے جیسے ہی آرام کے لیے اپنا سر تکیے پر رکھا وہ گہری نیند میں چلا گیا* ۔ جب سراۓ میں موجود تمام لوگ سو گٸے تو قریب جنگل میں چھپے چوروں کے گروہ نے اپنے ایک ساتھی کو سراۓ سے کھانا لینے بھیجا ۔ چور سراۓ میں آیا مگر اسے کھانے کی کوٸی چیز نہ ملی مگر جب وہ باہر نکلا تو اس کی نظر اس قیمتی گھوڑے پر پڑی ۔چور نے خالی ہاتھ واپس جانے کی بجاۓ اپنے ساتھ اس مسافر کا وہ قیمتی گھوڑا لیا اور چل دیا ۔ *صبح نور نے جب ہر طرف زندگی کو رونق بخشی پرندے چہچانے لگے ۔پرندوں کے نغموں کی آواز جوں ہی اس کے کان میں پڑی تو وہ ہڑبھڑا کر اٹھا ۔* اس نے محسوس کیا کہ اسے اب کافی دیر ہو چکی ہے چنانچہ فورا اٹھا اور سفر کا ارادہ باندھا ۔ جیسے ہی اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا تو دیکھا اس کا گھوڑا وہاں موجود نہیں ۔ *ادھر ادھر تلاش کیا مگر لوگوں نے اسے بتایا کہ آپ کا گھوڑا یقینا چوری ہو گیا ہے* ۔وہ گھوڑا چرائے جانے پر بے حد غمگین تھا گھوڑا قیمتی تو تھا ہی مگر اس کی پرورش اس نے خود کی تھی اس لیے اسے اپنے اس گھوڑے سے پیار بھی بہت تھا ۔ *ادھر سراۓ کے ہر مسافر کو ایک گھوڑے کے چوری ہونے کی خبر پہنچ چکی تھی۔* سرائے کے مسافر اس غمگین مسافر کے گرد جمع ہو گٸے اور طرح طرح کی باتیں کرنے لگے ۔ *ایک آدمی نے کہا:’’* کیا یہ تمہاری حماقت نہیں کہ تم نے گھوڑے کو اصطبل سے باہر باندھا ۔‘‘ *دوسرے نے کہا* :’’اور یہ اس سے بڑھ کر حماقت ہے کہ گھوڑے کو چھنال نہیں لگائی۔‘‘ *تیسرے نے کہا:’* ’اور یہ حماقت کی انتہا ہے کہ سمندر کی طرف گھوڑے پر سفر کیا جائے ۔‘‘ *چوتھے نے کہا:’’* صرف سست اور کاہل لوگ ہی گھوڑے رکھتے ہیں ۔‘‘ *ایک اور نے کہا* جب گھوڑا سنھبالا نہیں جاتا تو پالا ہی کیوں ۔ *ایک اور نے کہا* اس کی جگہ میں ہوتا تو میں کبھی بھی اتنے قیمتی گھوڑے پر سفر نا کرتا ۔ان کی باتیں سن کر مسافر بے حد حیران ہوا اور چلایا:’’ *میرے دوستو ! اے سراۓ اور دنیا کے مسافرو!* کیا تم اس لئے میری غلطیوں اور کوتاہیوں کو گنوا رہے ہو کہ میرا گھوڑا چوری ہو گیا ہے لیکن عجوبہ یہ ہے کہ تم نے ایک لفظ بھی اس شخص کے متعلق نہیں کہا جس نے میرا گھوڑا چرایا۔ تم *میری تکلیف میں اضافہ کر رہے ہو کیا تمھیں نہیں معلوم میں اس وقت ایک گہرے غم میں مبتلا ہوں ۔* یہ ہمارے معاشرے کا عام مزاج ہے اگر آپ کسی کے غم کا مداوا نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے تلخ جملوں سے کسی کے زخموں پر نمک بھی مت چھڑکیں ۔ *حادثے کی تعریف ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ اچانک ہوتا ہے اور کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے* ۔ کبھی کبھی اس میں ہماری غفلت ضرور شامل ہوتی ہے مگر ہم سب انسان ہیں کمزور ہے اتنی کامل عقل کے مالک نہیں ہیں ۔ ہر چھت کی اپنی کہانی ہے ہر انسان کہیں نا کہیں کسی نا کسی درد میں مبتلا ہے ۔ جس پر حادثہ بیتا ہوتا ہے درد کی گہراٸی وہی جانتا ہے دیکھنے والے تو محض تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ کوشش کریں آپ کی وجہ سے لوگوں کا درد کم ہی ہو نا کہ اس میں اضافہ ہو ۔اس کی اک عام سادہ اور مزاحیہ *مثال یہ بھی ہے کہ جب کوٸی انسان بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوتا ہے اکثر اس کے رشتے دار اس کی عیادت کو آتے ہیں اس کے سرہانے بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں تو ایسے جملے بولتے ہیں وہ نہیں فلاں کا بیٹا اسے ایسا ہوا تو وہ فوت ہو گیا ۔دوسرا فرد بھی ایسی کہانی سناتا ہے کہ فلاں کو ڈاکٹر نے انجکشن لگایا تو وہ صبح فجر نور پیر ویلے فوت ہو گیا ۔ مریض بیچارہ اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے پتہ نہیں اگلا نمبر میرا نہ ہو* ۔ بہرحال سر تبسم کی یہ تحریر یہ کہانی یہ لطیفہ آپ کو یہ سبق دے رہا ہے کہ *خدا را لوگوں کے غم میں اضافے کا سبب مت بنیں ۔ غم ہلکا کیجیے سہارا دیجیے ورنہ چپ چاپ کنارہ کیجیے ۔*