اہل مغرب کی کچھ خوبیاں اور دور آخر میں ان کے غلبہ اور کثرت کے اسباب
اہل مغرب کی کچھ خوبیاں اور دور آخر میں ان کے غلبہ اور کثرت کے اسباب:
[تَقُومُ السَّاعَةُ والرُّومُ أكْثَرُ النَّاسِ. فَقالَ له عَمْرٌو: أبْصِرْ ما تَقُولُ، قالَ: أقُولُ ما سَمِعْتُ مِن رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، قالَ: لَئِنْ قُلْتَ ذلكَ، إنَّ فيهم لَخِصالًا أرْبَعًا: إنَّهُمْ لأَحْلَمُ النَّاسِ عِنْدَ فِتْنَةٍ، وأَسْرَعُهُمْ إفاقَةً بَعْدَ مُصِيبَةٍ، وأَوْشَكُهُمْ كَرَّةً بَعْدَ فَرَّةٍ وخَيْرُهُمْ لِمِسْكِينٍ ويَتِيمٍ وضَعِيفٍ، وخامِسَةٌ حَسَنَةٌ جَمِيلَةٌ: وأَمْنَعُهُمْ مِن ظُلْمِ المُلُوكِ.]
ترجمہ:
“مستورد بن شداد قرشی نے حضرت عمرو بن عاص کے پاس کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ جب قیامت قائم ہوگی تو اہل روم سب سے زیادہ کثرت میں ہوں گے۔ حضرت عمر بن عاص نے اسے کہا: دیکھ تو کیا کہتا ہے۔ اس نے کہا میں وہی کہتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو پھر
اہل روم (اہل مغرب) میں چار خصلتیں ہیں۔ وہ فتنہ کے وقت تمام لوگوں سے زیادہ بردبار ہیں۔ مصیبت کے بعد تیزی سے بحال ہوتے ہیں، فرار سے بہت نفرت کرتے ہیں، مسکین، یتیم اور ضعیف سے بھلائی کرتے ہیں اور پانچویں صفت بہت خوبصورت ہے، یہ کہ وہ بادشاہوں کو ظلم سے روکنے والے ہیں”
قابل توجہ:
1۔ مغرب میں جہاں منفی باتیں ہیں وہاں کچھ مثبت خوبیاں بھی ہیں۔ ہماری توجہ سلبی صفات کے ساتھ ساتھ ایجابی خصائص پر بھی ہونی چاہئے۔
2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دور آخر میں (قریب قیامت) اہل روم کی کثرت کا ارشاد فرمایا۔ اور صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی توجیہہ بیان کی اور اہل روم کی وہ خصوصیات بیان کیں جن کی وجہ سے وہ قیامت تک باقی رہیں گے۔
3۔ اہل مغرب کی ایک خوبی فتنہ کے وقت بردبار رہنا ہے۔ یعنی وہ آزمائش کے لمحوں میں حواس نہیں کھوتے۔ اسی لئے وہ تاریخ کے مختلف مراحل میں بار بار ابھرتے رہے ہیں۔
4۔ اہل مغرب کی دوسری بڑی خوبی مصیبت کے بعد تیزی سے بحال ہونا ہے۔ وہ ایسا اپنی بردباری اور منصوبہ بندی کی وجہ سے کر پاتے ہیں۔
5۔ اہل مغرب کی تیسری بڑی خوبی فرار اور شکست خوردگی سے نفرت ہے۔ میدان نہ چھوڑنا اور ڈٹے رہنا ایسی خوبی ہے جو مکمل فنا سے محفوظ رکھتی ہے۔
6۔ اہل مغرب کی چوتھی بڑی خوبی ضعیف، یتیم اور مسکین سے بھلائی ہے۔ موجودہ مغرب میں سوشل سیکیورٹی کا نظام اسی خوبی کا عکاس ہے۔
7۔ اہل مغرب کی سب سے بڑی خوبصورتی بادشاہوں کو ظلم سے روکنا ہے۔ یہ مغرب کا وہ سماجی شعور ہے جو اپنی تمام تر ثقافتی قباحتوں کے باوجود ریاستی ظلم کے معاملے میں حساس ہے۔ چناچہ اہل مغرب نہ صرف اپنی حکومتوں کو نظام عدل برقرار رکھنے پر مجبور کرتے ہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں ظلم ہورہا ہو وہ اس پر آواز بلند کرتے ہیں
(نوٹ: اہل مغرب سے مراد ان کا حکمران طبقہ نہیں بلکہ مغربی معاشرہ ہے۔ مغرب کے حکمران یہود کے قائم کردہ بے رحم سرمایہ دارانہ نظام کے مہرے ہیں۔ اور ظلم کے عالمی نظام کا حصہ ہیں)
8۔ اس روایت میں جن خوبیوں کا بیان کیا گیا ہے وہ اجتماعی بقا کی شرائط ہیں۔ اگر مسلمان معاشروں میں ان اقدار کو اختیار کیا جائے تو وہ غلبہ دین حق میں معاون ہوں گی۔
9۔ فی الوقت اجتماعی سماجی عدل کے اعتبار سے مغرب کے معاشرے مسلم معاشروں سے بہتر ہیں۔ قرآن پاک نے جس کائناتی قانون بقا کا ذکر کیا ہے عدل اجتماعی اس کی لازمی شرط ہے۔
10۔ ہمیں مغرب پر تنقید کے ساتھ ان کی مثبت باتوں تسلیم بھی کرنا چاہئے اور اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنی اصلاح بھی کرنی چاہئے۔
(ڈاکٹر صاحب زادہ احمد ندیم)
مآخذ:
الراوي : المستورد بن شداد | المحدث : مسلم | المصدر : صحيح مسلم
الصفحة أو الرقم: 2898 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]