توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے لہذا اسے ختم کر دینا چاہیئے
توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے لہذا اسے ختم کر دینا چاہیئے !
ایسے کئی برین واشڈ دانش خور سوشل میڈیا پر آپ کو دکھائی دیں گے جو دانستہ یا نادانستہ مغرب کی بولی بولتے ہیں زبان ان کی ہوتی ہے آواز مغرب کی ! یقین نہ آئے تو مغرب کی پاکستان سے مطالبات کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں سرفہرست توہین رسالت کے قانون کے خاتمے کا مطالبہ دکھائی دے گا !
اس قانون کے خلاف ان کی سب سے بڑی دلیل ہی یہی ہوتی ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس شور شرابے کے پیچھے ان کا اصل مقصد توہین رسالت کے مجرموں کی پشت پناہی، سہولت کاری اور انہیں اس قبیح فعل پر جری کرنا ہوتا ہے۔ جیسے مغربی ایماء پر ریاست پاکستان کے “چاروں ستونوں” نے مل کر گستاخہ عاصیہ ملعونہ کو رہا کیا جسے یورپ نے ایوارڈ سے نوازا تاکہ ایسے لعینوں کی حوصلہ افزائی ہو ۔ اور اس ملعونہ کے بعد بھی متعدد لعینوں کو چھوڑا گیا
بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جن میں توہین رسالت کی آڑ لیکر ذاتی دشمنیاں نکالی جاتی ہیں
لیکن ایسے واقعات کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو مذہبی طبقہ ہی سب سے اول اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے جیسے کہ خوشاب میں بینک منیجر کے قتل کا واقعہ ہوا ۔ گارڈ نے ذاتی دشمنی کی بناء پر اسے قتل کر کے اس پر توہین رسالت کا الزام لگا دیا جو تحقیق کے بعد جھوٹا ثابت ہوا اور اسے عدالت نے سزائے موت دی ۔ ہاں پاکستانی قوم کی مجموعی نفسیات کے تحت بعض لوگ جذبات میں آ کر اس کے ساتھ چلے نعرہ بازی وغیرہ کی لیکن حقائق سامنے آنے پر کسی ایک بھی شخص نے اس کی حمایت نہیں کی ۔ اگر کوئی شخص اس بات کا مدعی ہے تو وہ ایسے لوگوں کو سامنے لائے جو آج بھی اس کے حامی ہیں ؟
اب ایسے واقعات کو لیکر سوشل میڈیا کے دانشگرد اپنے اپنے راگ الاپتے ہیں جن کی اکثریت اس قانون کی بنیاد سے ہی لاعلم ہوتی ہے ۔ کہلاتے وہ پاکستانی ہیں اور اس جناح کے پاکستان میں رہتے ہیں جس نے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واصل جہنم کرنے والے غازمی علم دین شہید کا مقدمہ لڑا لیکن تکلیف انہیں سب سے زیادہ ان غازیوں سے ہوتی ہے جو کسی ثابت شدہ گستاخ رسول کو واصل جہنم کرتے ہیں ۔
ایسے بدبختوں کو ان عظیم الشان غازیوں سے ملانا ہی ان کی توہین ہے جس کے یہ لوگ مرتکب دکھائی دیتے ہیں ۔ یعنی ان کی بصیرت و بصارت پر بغض اور تعصب کی اس قدر دبیز تہیں چڑھ چکی ہیں کہ انہیں اصل اور نقل کا واضح فرق بھی دکھائی نہیں دیتا ۔ کہاں وہ عظیم ہستیاں جنہوں نے ناموس رسالت پر اپنی جانیں بھی قربان کر دیں اور کہاں وہ بدبخت جنہوں نے توہین رسالت کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیئے استعمال کیا !
رہی بات اس قانون کے غلط استعمال کی تو آج تک پاکستان میں اس قانون کا درست استعمال ہی نہیں ہوا تو غلط تو بہت دور کی بات ہے۔ پاکستان بننے کے بعد کوئی ایک واقعہ دکھا دیں جس میں عدالت سے ثابت شدہ کسی گستاخ کو پھانسی دی گئی ہو ؟ اس کے برعکس درجنوں ایسے واقعات موجود ہیں کہ ان گستاخوں کو پورے حکومتی پروٹوکول کے ساتھ بیرون ملک فرار کروایا گیا ۔ اگر کسی شخص کا ناموس رسالت کی آڑ لیکر قتل کرنا اس قانون کا غلط استعمال ہے تو پاکستان میں ایسا کون سا قانون ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہو رہا ؟
کیا قصاص اور دیت کے قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا ؟ کیا طاقتور کمزور کو قتل کر دینے کے بعد اسے طاقت کے بل بوتے پر دیت لینے پر مجبور نہیں کرتا ؟ ریمنڈ ڈیوس کا کیس ابھی اتنا بھی پرانا نہیں ہوا شاہ زیب کیس میں کیا ہوا ؟کیا اس بناء پر قصاص اور دیت کے قانون کو ختم کر دیا جائے ؟
پاکستانی جیلوں میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو ناکردہ گناہوں کی سزائیں بھگت رہے ہیں جیسے قتل، چوری ، ریپ وغیرہ تو کیا ایسے تمام قوانین کا ہی خاتمہ کر دیا جائے کہ ان کا غلط استعمال کر کے بے گناہوں کو پھنسایا جاتا ہے ؟
کیا کوئی عقل رکھنے والا شخص اس بات کی حمایت کر سکتا ہے ؟؟؟
یقیناََ کوئی بھی باشعور شخص اس کی حمایت نہیں کرے گا
تو کیا کبھی آپ نے سوچا کہ یہ “مہربانی” صرف توہین رسالت ہی کے قانون کے خلاف کیوں ؟؟؟
ذرا سوچیئے ۔۔۔۔۔ سوچنا ہر گز منع نہیں ۔۔۔۔۔سوچیں اور مغربی بیانیئے کی تائید اور حمایت سے باز آ جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے !
محمد إسحٰق قریشي ألسلطاني