تذکرہ زندگی کی ڈائری کا
اور ایک حدیث پاک سے حاصل شدہ نکات
🌹 تذکرہ زندگی کی ڈائری کا
اور ایک حدیث پاک سے حاصل شدہ نکات🌹
از قلم مفتی علی اصغر
16 ذی الحجۃ الحرام 1444
مطابق 5 جولائی 2023
انسان اپنی زندگی کے شب و روز سے جو کچھ سیکھتا ہے یہ ہر انسان کے لئے قیمتی راز ہوتے ہیں باقی ساری کلاسیں ایک طرف اور زندگی کے شب و روز اسے جو سیکھا رہے ہیں یہ ایک طرف، یوں سمجھیں کہ باقی کلاسیں تھیوری پڑھاتی ہیں تو زندگی کی کلاس پریکٹیکل کا نام ہے جس سے نت نئی چیزیں انسان روز سیکھتا ہے۔
جس آدمی کا سوشل دائرہ یا عوامی تعلق جتنا زیادہ ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ سیکھتا ہے۔
👈کئی دفعہ دل میں خیال آیا کہ ایک ڈائری لکھی جائے جس میں اہم تجربات لکھے جائیں اور وقتِ ضرورت جب یہ شائع ہو تو تجربے کی باتیں بہت سارے لوگوں کو نفع پہنچائیں گی
لیکن ہر بار ہی اس خیال کو جھٹک دیا گیا کہ نہیں ایسا کرنا مناسب نہیں
فی الوقت ذہن یہ ہے کہ ایسا کرنے میں بہت ساری خرابیاں جنم لے سکتیں ہیں
👈 *پہلی خرابی* تو اس میں یہ ہے کہ ایسا کرنے کے لئےبہت وقت صرف کرنا پڑے گا اور یہی وقت دیگر اہم کاموں کو دینا زیادہ مناسب ہے
👈*دوسری خرابی* یہ کہ بہت ساری چیزوں میں نفس “میں میں” کروائے گا
👈 *تیسری خرابی* یہ ہوگی
کہ بعض باتیں اور واقعات خاص ہوتے ہیں اور “خاصاں دی گل عامہ اگے نئیں مناسب کرنی”
👈 *چوتھی خرابی* یہ ہے
کہ بہت سارے واقعات دوسروں سے متعلق ہوتے ہیں نام جگہ بدل کر بھی بیان کرو پھر بھی بہت معیوب سی بات ہے کہ لوگوں کی پرائیویسی ڈسٹرب ہوگی۔
👈 *پانچویں* اور سب سے بڑی وجہ جو مجھے ہر بار ایسا کرنے سے روکتی ہے وہ یہ چیز ہے کہ ماضی یاد رکھنے کی چیز نہیں بلکہ بھلا دینے کی چیز ہے زندگی میں بعض اوقات کچھ تلخ اور نا خوش گوار چیزیں بھی سامنے آتی ہیں
ان کو لے کر بیٹھنا قلم بند کرنا انسان کے ڈپریشن کو بڑھاتا ہے
بہت سارے لوگ ذاتی زندگی میں صرف اس لئے ناکام ہوتے ہیں کہ وہ ماضی سے باہر نہیں آتے عورتوں میں تو یہ مرض بہت زیادہ پایا جاتا ہے
غیبت کا سب سے بڑا موضوع عام طور پر ماضی کی باتیں ہوتی ہیں
👈بعض اوقات زندگی میں کسی کی طرف سے مسلسل تکلیف و ضرر پہنچ رہا ہوتا ہے یا انسان کسی کی سازش ،کینہ یا بغض کا شکار ہو رہا ہوتا ہے
حسن سلوک کا تقاضا تو یہ ہے کہ آپ ایسوں کے بارے میں اچھا سوچیں ،بھلائی چاہیں ،دعا خیر کریں۔لیکن انہی چیزوں کو جب اسٹوری بنا کر شائع کرنا شروع کر دیا جائے تو بندہ خود بسا اوقات بغض و کینہ اور حسد کا شکار ہو جاتا ہے
👈میں نے بہت سارے لوگ ایسے دیکھے ہیں جن کو لات پڑتی ہے، زندگی میں کہیں ٹھوکر لگتی ہے تو بس صبح و شام دو چار بندوں کی برائی ان کے لبوں پر ہوتی ہے۔
ایسے لوگ ماضی میں جھانک جھانک کر اپنی قبر وہیں بنا لیتے ہیں اور مستقبل میں اپنی ناکامیوں کو ختم کرتے ہوئے کامیابی کی طرف بڑھنے کے بجائے پوری زندگی کسی ایک جھٹکے یا غم یا کسی ناکامی کے صدمے سے باہر نہیں نکل پاتے
👈بسا اوقات فوتگی اور کسی مالی صدمہ میں بھی ایسا دیکھا گیا ہے کہ فطری افسوس اپنی جگہ پر ، صدمہ کا غم اپنی جگہ پر ، اس سے انکار نہیں وقتی طور پر انسان دل برداشتہ ہوتا ہے
📢لیکن بعض لوگ صدمہ کو بار بار اپنے اوپر اس طرح طاری کرتے ہیں جیسے سردی میں رضائی یا کمبل سرک جائے تو انسان اسے فورا اپنے اوپر لیتا ہے
‼️صدمہ اپنے اوپر طاری کرنا اور اس سے قصدا باہر نہ نکلنا بہت بڑی غلطی ہوتی ہے اس سے صحت بھی متاثر ہوتی ہے اور زندگی کے بہت سارے کام بھی۔ پھر بندہ ڈپریشن میں اگر مستقل طور پر چلا جائے تو باہر آنا مشکل ہو جاتا ہے۔نفسیاتی امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔
بات ڈائری لکھنے سے کافی آگے چلی گئی اور نفع عام اور تربیت مسلمین کے لئے کچھ مزید چیزیں بھی بیان کر دی گئیں
👈آج یہ ڈائری لکھنے کا موضوع ایک حدیث پاک پڑھ کر تازہ ہوا
👇🏻
امام سیوطی علیہ الرحمہ نے جامع الصغیر میں معجم کبیر کے حوالے سے نقل کیاکہ *رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم* نے ارشاد فرمایا:
*”ذی قعدہ کی اس دن 27 تاریخ تھی جب جبرئیل امین میرے پاس آئے اور کہا قیامت تک کے لئے عمرہ کرنا حج میں شامل کر دیا گیا ہے”*
👇🏻
یہاں ایک مراد یہ ہے کہ عمرہ کرنا فرض یا واجب نہیں صرف حج کرنا فرض ہے ۔
👈 *اس حدیث پاک کے تحت شارحین حدیث نے ایک نکتہ بیان کیا کہ تاریخ یا درپیش واقعات کو یاد رکھنا اور ان کا حوالہ دے کر بات کرنا یہ حدیث پاک اس کی اہمیت کی بنیاد ہے کہ آپ نے ایک واقعہ کو اس کی تاریخ کے ساتھ بیان کیا*
👈لھذا شادی بیاہ کی تاریخ ہو یا کسی کی پیدائش و فوتگی کی تاریخ نوٹ کرنا کسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کسی دن یا کسی تاریخ کا حوالہ دے کر بیان کرنا جائز عمل ہے۔
نیت یہ ہو کہ یہ طریقہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےسیکھنے کو ملتا ہے تو باعث ثواب بھی ہوگا۔
میں نے اوپر جو ایک مذمتی بیان لکھا وہ ایسا ہی ہے کہ کسی عمل کی اچھائی بھی ہوتی ہے تو اس کی آفت بھی ۔
👈امام غزالی علیہ الرحمہ نے علم کی آفت، عبادت کی آفت دیگر موضوعات پر تفصیل سے کلام کیا ہے ۔مراد وہاں یہ ہے کہ بسا اوقات کسی اچھے کام کے کرنے میں بھی بندہ آفت بلکہ گناہ کا شکار ہو جاتا ہے۔لھذا اچھا عمل حدود و قیود میں ہو تو اچھا ہی رہے گا ورنہ بری نیت یا کوئی غلطی گناہ میں ڈال سکتی ہے جیسا کہ ریا کاری کے ساتھ عبادت کرنا۔