عیدِ غدیر کا شرعی حکم
عِیْدِ غَدِیْر کا شیعی پسِ منظر، حقیقی پسِ منظر، اس کا مُوْجِد (اس کی ایجاد و ابتداء کرنے والا) اور عیدِ غدیر کا شرعی حکم
عیدِ غَدِیْر کا پسِ منظر
اٹھارہ (18) ذی الحجہ کو اہلِ تشیع یہ کہتے ہوئے عیدِ غدیر مناتے ہیں کہ اس روز *”حجَّۃُالْوَدَاع”* سے واپسی پر *”غَدِیْرْ خُمْ”* کے مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم کو بلافصل خلافت اور امامت دینے کے لئے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ :
*”من کنت مولاہ فعلی مولاہ”*
یعنی جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس کا مولا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان (علی مولا ہے) سے اہلِ تشیع یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان میں مولا سے مراد یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم خلیفہ بلافصل ہیں۔
*اہلِ تشیع کے اس مفروضے کا جوابات
1- پہلی بات یہ کہ اگر مولا سے مراد خلیفہ بلافصل ہوتا اور اس فرمان کے ذریعے حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم کی خلافت کا اعلان کرنا مقصود ہوتا تو اس کا بہترین موقع تو *”حجۃالوداع”* تھا کیونکہ وہاں مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا جبکہ واپسی پر *”غَدِیْرِ خُمْ”* کے مقام میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی۔
2- دوسری بات یہ کہ مولا کا معنی خلیفہ بلافصل یا امام کسی لغت کی کتاب میں ہے ہی نہیں اور یہاں مولا سے مراد خلیفہ بلافصل مراد لینا بالکل درست نہیں کیونکہ یہاں مولا کے جو معانی مراد ہیں وہ مددگار، دوست، محبت کرنے والا وغیرہ ہیں۔
*(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، کتاب المناقب، جلد 11، صفحہ 247، اشعۃ اللمعات فارسی، باب مناقب علی، جلد 4، صفحہ 372، الصواعق المحرقہ، صفحہ 65، 66، مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد 8، صفحہ 296، 425، فتاویٰ شارح بخاری، جلد 2، صفحہ 24، )*
3- تیسری بات یہ ہے کہ اس واقعے کا حقیقی پسِ منظر یہ تھا کہ *”حجۃ الوداع”* سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم کو یمن کی طرف والی (عامل) بنا کر بھیجا تھا، وہاں کے محصولات وغیرہ وصول کر کے ان کی تقسیم اور بیت المال کے حصے کی ادائیگی کے فوراً بعد حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حج کی ادائیگی کے لئے پہنچے۔ اس موقع پر محصولات کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ناگواری ہوئی تو انہوں نے *”غَدِیْرِ خُمْ”* کے مقام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا :
اے بریدہ!
کیا تم علی سے (اس تقسیم کی وجہ سے) ناگواری محسوس کرتے ہو ؟
حضرت بریدہ رضی الله عنہ نے عرض کی :
جی ہاں؛
تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
“علی سے ناگواری مت رکھ، جتنا حصہ علی نے لیا ہے حق تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے.”
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
“اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئی۔
چونکہ اس تقسیم کی وجہ سے کچھ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی ناگواری ہوئی تھی تو ان کی بھی ناگواری ختم کرنے کے لئے نبی مکرم رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان فرمایا :
*”من کنت مولاہ فعلی مولاہ”*
یعنی جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس کا مولا ہے۔
*(صحیح بخاری، رقم الحدیث : 4350، مسند احمد، رقم الحدیث: 23036، 22967، مرقاۃ المفتاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 11، صفحہ 247، سنن الكبرى للبیھقی، جلد 6، صفحہ 242، البداية و النهاية، جلد 5، صفحہ 227)*
شیعہ کتب سے بھی عیدِ غدیر کا یہی پس منظر ثابت ہے.
*(بحار الانوار، 37/190، کشف الغمہ لاربیلی، جلد 1، صفحہ 293)*
*عیدِ غدیر کی ابتداء:*
عراقی شیعہ حاکم معزالدولہ احمد بن ابویہ دیلمی نے 18 ذی الحجہ 352ھ میں سب سے پہلے عیدِ غدیر رافضیوں کے ساتھ منائی، اس شیعہ حاکم نے شہر سجانے کا حکم دیا، چراغاں کیا گیا، ڈھول بجائے گئے، عید کی رات کی طرح اس رات بازار کھولے گئے، خوب خوشی منائی گئی اور میدان میں نمازِ عید پڑھی گئی۔
*(البدایۃ و النھایۃ لابن کثیر، جلد 5، صفحہ 261، الکامل فی التاریخ، جلد 7، صفحہ 246، العبر فی خبر من غبر، جلد 2، صفحہ 90)*
*نوٹ
فرہنگِ آصفیہ میں خُمْ کے مختلف معانی ذکر کیے گئے ہیں مثلاً شراب کا مٹکا، ہانڈی، خمیر، جوش وغیرہ جبکہ مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک جگہ کا نام خُم ہے، جہاں ایک تالاب ہے اور تالاب کو عربی زبان میں غَدِیْر کہتے ہیں تو اسی مناسبت سے اس جگہ کو *”غَدِیْرِ خُمْ”* کہا جاتا ہے۔
*عیدِ غدیر کا شرعی حکم
اگر کوئی اہلِ تشیع کے خلافِ اسلام باطل نظریہ سے متفق ہو کر عیدِ غدیر مناتا ہے تو یہ کفر ہے کیونکہ ان کے ہاں عیدِ غدیر کی بنیادی وجہ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم کی خلافت بلافصل اور خلفائے ثلاثہ کی خلافت کا انکار ہے جو کہ بغیر کسی شک و شبہ کے کفر ہے۔
اور اگر کوئی اہلِ تشیع کے خلافِ اسلام باطل نظریہ سے متفق ہوئے بغیر عیدِ غدیر صرف رسم کے طور پر مناتا ہے یا حضرت علی کرم الله تعالیٰ وجھہ الکریم سے محبت کی وجہ سے مناتا ہے تو یہ اہلِ تشیع سے مشابہت اور ان کی شان و شوکت بڑھانے کی وجہ سے ناجائز و حرام ہے۔
*(ماخوذ از سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، جلد 2، صفحہ 203، البدایۃ شرح الھدایۃ، جلد 9، صفحہ 148، ردالمحتار علی الدرالمختار، جلد 4، صفحہ 205، فتاویٰ رضویہ، جلد 14، صفحہ 250، جلد 15، صفحہ 101، 102، جلد 24، صفحہ 530، 535)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی رئیس مرکزی دارالافتاء اہلسنت عیسیٰ خیل ضلع میانوالی*
17/07/2022
03068209672