یہ رضا اکیڈمی ممبئی کے روح رواں حضرت سعیدی نوری صاحب قبلہ کے فرزند ارجمند جناب احمد رضا صاحب ہیں، موصوف ابھی ایک نعت خواں ہیں تعلیمی اعتبار سے کوئی خاطر خواہ معیار نہیں ہے ،نہ عالم و فاضل نہ مفتی اکثر لوگوں کی شہادت کا اعتبار اگر کیا جائے تو تعلیم سے کوئی خاص شغف بھی نہیں ہے چہ جائیکہ علمی معیار کچھ ہو لیکن اس کے باوجود آپ موصوف کے ناز و انداز دیکھیے ایک معمر فقیہ و مفتی پیر و شیخ کی یاد تازہ ہو جائے گی بلکہ میں تو کہتا ہوں خالص علمی آدمی تو اس طرح ہاتھ چموانے سے بھی کڑھن محسوس کرتا ہے ____

مگر ہمارے احمد رضا بڑے اطمینان و سکون سے اس فریضے کو انجام دے رہے ہیں، یہی وہ مقام ہے جہاں سے انسان پر کبر و نخوت کا بھوت سوار ہوتا ہے اگر انسان علم و عمل دونوں سے بہرور ہو تو وہ ممکنہ حد تک اس شیطانی صفت سے بچ سکتا ہے لیکن اگر انسان علم و تفقہ سے خالی ہو تو پھر بہت ہی مشکل ہے کہ وہ تکبر و نخوت سے باز آجائے ___

اور ساتھ ہی یہ معاملہ صرف حضرت موصوف کا ہی نہیں بلکہ ہمارے یہاں اکثر بڑے علما و اساتذہ پیر و سجادگان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی مریدان خواہان جنت سر پر بٹھاتے ہیں ہاتھ چومتے ہیں بعض تو اس قدر مؤدب واقع ہوتے ہیں کہ قدم چوم کر آنکھوں سے لگا لیتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ گھر میں خود کے والدین اسی ادب کے لیے ترستے ہوں مگر مرید اگر چہ پیر سے معمر بھی ہو پیر کے گود میں کھلانے لائق بچے کو مستقبل کا ولی کامل سمجھ کر ہاتھ پیر چومنے چاٹنے میں اپنی قسمت کی معراج سمجھتا ہے ____

اب ذرا یہاں یہ بات سمجھیے کہ جس بچے کو بچپن میں ہی اس قدر شاہانہ شان و شوکت دیکھنے ملے ،جس کے ناز و انداز پر مریدان سلسلہ قربان ہونے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور صرف مریدان سلسلہ ہی نہیں بلکہ جامعات کے اساتذہ بھی اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تو بتائیے وہ بچہ کس طرح ملت کے تئیں دردمند اور فکر مند ہوگا یا کس طرح وہ اساتذہ کے سامنے دیگر طلبہ کی طرح زانوئے ادب طے کرے گا اور کس طرح اساتذہ کی ڈانٹ پھٹکار کو برداشت کرے گا ظاہر سی بات ہے جو عزت و احترام اور قدر و منزلت ایک شیخ الحدیث اور شیخ طریقت کی چالیس پچاس اور پچپن کی عمر سے لے کر آخر عمر تک ہوتی ہے وہ تو اس فرزند ارجمند کو ابھی نابالغی کی حالت میں ہی مل چکی ہے تو وہ کیوں کر اتنی مشقت و مصائب برداشت کرکے کچھ پڑھنے لکھنے کی کوشش کرے گا ___

جبکہ یہ بات لازم و ضروری ہے کہ دیگر عامی طلبہ کے مقابلے میں ان سجادگان و ناظمین خانقاہ و مدارس کے بچوں کو علم و عمل کے اعتبار سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے اور صرف علم و عمل ہی نہیں بلکہ مصائب و دقت اور پریشانی برداشت کرنے کا مادہ بھی ان کے اندر زیادہ ہونا چاہیے کیوں کہ آنے والے وقت میں یہی بچے قوم کے قائد و رہنما بنیں گے اور یاد رکھیں قیادت نرم بستروں پر بیٹھ کر اور گول تکیوں سے ٹیک لگا کر نہیں کی جاتی اس کے لیے دھوپ کی شدت اور سردی کی سختی دونوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے ____

لہذا اس بات پر ہمارے تمام بڑوں بڑوں کو توجہ دینی چاہیے کہ اپنے بچوں کے ذہنوں میں یہ بات نہ ڈالیں کہ تم ابھی سے پیر بن چکے ہو بلکہ انہیں مستقبل کے لیے تیار کریں اور محنت و جانفشانی کی بھٹی میں جلائیں تاکہ وہ کندن بن کر بالکل کھرے ہو جائیں اور مستقبل میں ملت کی قیادت کا بوجھ اٹھا سکیں _____

(نوٹ ) اس تحریر کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اپنے پیر و استاذہ کے بچوں کی عزت و قدر اور ان کا احترام نہ کیا جائے یا مجھے موصوف احمد رضا سے کوئی ذاتی معاملہ ہے یا ان کے ہاتھ پیر چموانے سے مجھے کوئی نقصان ہے بس مقصد یہ ہے کہ اس طرح اس کام کو انجام نہ دیا جائے جس سے ان کا مستقبل خراب ہو اور وہ تعلیم و تعلم سب سے دور ہو کر صرف اسی میں پڑے رہیں اور اسی کو مقصد حیات سمجھ لیں، اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ادب صرف ہاتھ یا پیر چومنے کا نام نہیں ہے ادب ایک کیفیت کا نام ہے جس کا تعلق خالص قلب سے ہے آپ کسی کا کتنا ادب و احترام کرتے ہیں یہ آپ کے دل کا معاملہ ہے استاد یا پیر کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یا خانقاہ میں امتیازی شان و شوکت حاصل کرنے کے لیے اس طرح ریاکاری کرنے کا نام ادب نہیں ہے _____

اللہ پاک ہم سب کو حقیقی مؤدب بنائے چاپلوسی اور ریاکاری سے محفوظ فرمائے __

آمین ثم آمین ___

محمد مجیب الرحمن رہبر __