اگر اللہ رسولﷺ کی تخلیق نہ فرماتا تو کائنات کو بھی نہ بناتا
کیا یہ موقف قرآن و سنت کے موافق ہے ؟
تحریر: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

ہمارے ایک دوست طلحہ نجیب جو مطالعہ کا شوق رکھتے تھے اور وہ اپنے ایک دوسرے دوست کے کہنے پر اعلیٰ حضرت کی کتب پڑھنے کی طرف متوجہ ہوئے تو اللہ کے کرم سے انکا ذہن کھل گیا اور وہ اعلی حضرت کی کتب کو پڑھنا نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ اعلیٰ حضرت کے افکار کو پہلے زمانےمیں گزرے علماء کی کتب سے ثابت کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ انکا پہلے کیا عقیدہ تھا یا کس مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھےاور یہ بات اب جاننا اہم بھی نہیں ہے ۔ لیکن اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کوئی بغیر تعصب اور کھلے دل سے اعلی ٰحضرت کی کتب کا مطالعہ کرے اور تدبر کرے تو ضرور فیض سے مستفید ہو سکتا ہے ۔۔۔

حال ہی میں ہمارے دوست نے علامہ ابن تیمیہ کے حوالے سے انکے فتویٰ کا ایک جز نقل کیا تھا اور حسن اتفاق یہ کہ میں کافی عرصے سے اس حوالے کی تلاش میں تھا لیکن موصوف نے ایک عرب کے سنی کی پوسٹ شئیر کی اس حوالے سے تو مجھ کو بھی وہ حوالہ مکمل مل گیا ۔

ہمارےدوست نے جو علامہ اب علامہ ابن تیمہ کہتے ہیں :
علامہ ابن تیمیہ کی عبارت لکھی تھی وہ کچھ یوں تھی :
فما ينكر أن يقال: إنه لأجله خلقت جميعها وإنه لولاه لما خلقت فإذا فسر هذا الكلام ونحوه بما يدل عليه الكتاب والسنة قبل ذلك
(جسکا مفہوم ہے)
اسکا انکار نہیں اگر کوئی یہ کہے کہ ”یہ تمام کائنات ان (رسولﷺ) کی وجہ سے وجود میں آئی ہے اگر (اللہ) ان(رسولﷺ) کو تخلیق نہ کرتا تو کچھ بھی تخلیق میں نہ ہوتا ایسے الفاظ اگر م مروی ہوئے تو اسکی قرآن و سنت میں اشارہ ہے جیسا کہ پہلے اس پر کلام گزرا ہے ۔
[مجموع الفتاویٰ ابن تیمیہ ]

اس پر ایک اہل حدیث صاحب عبد الاحد جو ویسے تو علامہ ابن تیمہ کے فضائل و اجتہاد پر پوسٹ کرتے رہتے ہیں علامہ ابن تیمہ کے اس مومقف پر موصوف لکھتے ہیں :
شیخ الاسلام کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ اس بات ( لو لاک۔۔) سے اگر یے مراد لیا جائے کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی خلقت کا سبب ہیں تو یے درست نہیں، ہاں، اگر یے معانی لیا جائے کے کائنات کو اللہ نے انسانوں کے لیے بنایا اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے ، اس لحاظ سے سب سے کامل بندہ محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور وہی زمین پر اللہ کے سچے خلیفہ ہیں تو اس لحاظ سے کائنات اُن کے لیے بنائی گئی نا کے اُن کی وجہ سے!
( شاھد ارمان ھاشمی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موصوف نے تو علا مہ ابن تیمیہ کے موفق کے برعکس عبارت کا مطلب نکال لیا اور پھر اسکو علامہ ابن تیمیہ کی طرف منسوب کر دیا جبکہ علامہ ابن تیمیہ نے تو اس پر نکیر کرنے سے مکمل توقف کیا ہے کہ اس قول کا انکار نہیں کیا گیا اسکا سبب علامہ ابن تیمیہ نے یہی بتایا کہ قرآن و حدیث میں اس پر استدلال و اشارہ موجود ہے کہ یہ معنی اپنی اصل کے لحاظ سے قرآن و سنت کے موافق ہے ۔

اب جبکہ علامہ ابن تیمیہ نے یہ بات کہی ہے کہ اس پر ہم پیچھے قرآن و سنت کے حوالے سے کلام کر آئے ہیں تو اس پر روشنی ڈالنا اہم ہے کہ سابقہ صٖفحات پر علامہ ابن تیمیہ نے کہا موقف بیان کیا ہے ۔

ومحمد سيد ولد آدم. وأفضل الخلق وأكرمهم عليه ومن هنا قال من قال: إن الله خلق من أجله العالم أو إنه لولا هو لما خلق عرشا ولا كرسيا ولا سماء ولا أرضا ولا شمسا ولا قمرا.
لكن ليس هذا حديثا عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم لا صحيحا ولا ضعيفا ولم ينقله أحد من أهل العلم بالحديث. عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم بل ولا يعرف عن الصحابة بل هو كلام لا يدرى قائله.
ويمكن أن يفسر بوجه صحيح كقوله. {سخر لكم ما في السماوات وما في الأرض} وقوله: {وسخر لكم الفلك لتجري في البحر بأمره وسخر لكم الأنهار وسخر لكم الشمس والقمر دائبين وسخر لكم الليل والنهار وآتاكم من كل ما سألتموه وإن تعدوا نعمة الله لا تحصوها}
وأمثال ذلك من الآيات التي يبين فيها أنه خلق المخلوقات لبني آدم ومعلوم أن لله فيها حكما عظيمة غير ذلك، وأعظم من ذلك ولكن يبين لبني آدم ما فيها من المنفعة وما أسبغ عليهم من النعمة. فإذا قيل: فعل كذا لكذا لم يقتض أن لا يكون فيه حكمة أخرى. وكذلك قول القائل: لولا كذا ما خلق كذا لا يقتضي أن لا يكون فيه حكم أخرى عظيمة بل يقتضي إذا كان أفضل صالحي بني آدم محمد وكانت خلقته غاية مطلوبة وحكمة بالغة مقصودة أعظم من غيره صار تمام الخلق ونهاية الكمال حصل بمحمد صلى الله تعالى عليه وسلم. والله خلق السموات والأرض وما بينهما في ستة أيام وكان آخر الخلق يوم الجمعة وفيه خلق آدم وهو آخر ما خلق خلق يوم الجمعة بعد العصر في آخر يوم الجمعة.
وسيد ولد آدم هو محمد – صلى الله تعالى عليه وسلم – آدم فمن دونه تحت لوائه – قال صلى الله تعالى عليه وسلم {إني عند الله لمكتوب خاتم النبيين وإن آدم لمنجدل في طينته} أي كتبت نبوتي وأظهرت لما خلق آدم قبل نفخ الروح فيه كما يكتب الله رزق العبد وأجله وعمله وشقي أو سعيد إذا خلق الجنين قبل نفخ الروح فيه. فإذا كان الإنسان هو خاتم المخلوقات وآخرها وهو الجامع لما فيها وفاضله هو فاضل المخلوقات مطلقا ومحمد إنسان هذا العين؛ وقطب هذه الرحى وأقسام هذا الجمع كان كأنها غاية الغايات في المخلوقات فما ينكر أن يقال: إنه لأجله خلقت جميعها وإنه لولاه لما خلقت فإذا فسر هذا الكلام ونحوه بما يدل عليه الكتاب والسنة

(علامہ ابن تیمیہ کی عبارت کا مفہوم ہے )
محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنی آدم کے سردار ہیں، بہترین مخلوق ہیں، اللہ کے نزدیک ان میں سب سے افضل ہیں۔ اسی لیے بعض نے کہا ہے کہ “اللہ نے کائنات کو ان کی وجہ سے پیدا کیا ہے” یا یہ کہ “کہ اگر یہ (رسولﷺ) تخلیق نہ کرتا تو نہ(اللہ) عرش پیدا کرتا، نہ ہی کرسی نہ آسمان، زمین، سورج اور چاند۔
” البتہ یہ حدیث نبوی ﷺ سے مروی نہیں ، نہ صحیح سند سے نہ ہی ضعیف سے اور اسکو حدیث کے تعلق سے نہ ہی کسی حدیث کے عالم نے نبیﷺ یا صحابہؓ سے روایت کیا ہے لیکن صحیح پہلو سے اس قول کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ ..

چونکہ بنی آدم کے صالحین میں سب سے افضل محمدﷺ ہیں، اس لیے ان کی تخلیق (اللہ کی) بامقصد حکمت عملی کانتیجہ تھا کائنات میں کسی اور مخلوق سے بڑھ کر۔ اس لیے تخلیق رسولﷺ کی تکمیل اللہ نے بالکل بے عیب (پر فیکٹ) کی ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام
بنی آدم کے سردار محمدﷺ ہیں، اللہ تعالیٰ آپ پر رحمتیں نازل فرمائے، حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد آپ کے جھنڈے تلے ہونگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حقیقت یہ ہے کہ میں اللہ کے ہاں خاتم النبیین اس وقت لکھا گیا تھا جب آدم علیہ السلام اپنی تخلیق کی مٹی کے مراحل میں تھے، یعنی میری نبوت کا فیصلہ (ازل سے) ہو چکاتھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت ظاہر ہوا لیکن اس میں روح پھونکنے سے پہلے، جس طرح اللہ تعالیٰ بندے کی روزی، عمر، اعمال اور مصائب یا خوشی کا فیصلہ جب پیدا کرتا ہے لیکن اس میں روح پھونکنے سے پہلے۔ اللہ کا ازل سے فیصلہ ہوتا ہے

چونکہ انسان تمام مخلوقات کا مظہر و افضل ہے اور آخری تخلیق چھوٹے جاندرہیں ، اور چونکہ انسان اللہ کی بہترین و افضل مخلوق ہے تمام مخلوقات سے، اس لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی سب سے بہترین تخلیق ہیں ۔ جیسا کہ (محمد ﷺ)تخلیق کے تمام مقاصد میں سے حتمی مقصد تھا۔ لہٰذا یہ کہنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ’’یہ سب کچھ انکی(رسولﷺ) کی وجہ سے پیدا ہوا‘‘ یا ’’اگر وہ نہ ہوتے تو یہ سب کچھ پیدا نہ ہوتا (اللہ کی طرف سے )
[مجموع الفتاویٰ جلد ۱۱،ص۹۸]

مزید یہ کہ علامہ ابن تیمیہ نے اس پورے موقف کو قرآن و سنت کے موافق معنی کے اعتبار سے قرار دیا ہے لیکن حدیث رسولﷺ کا انکار کیا ہے لیکن بعد میں علامہ ابن تیمیہ اس موقف پر حدیث سے مطلع ہو چکے تھے جبکہ اس باب سے مروی روایت جو کہ مستدر ک الحاکم میں موجود ہے اس روایت پر پہلے علامہ ابن تیمیہ نے موضوع کا حکم لگایا جس میں حضرت آدم کے توسل اور سبب تخلیق کائنات کا متن موجود تھا
لیکن علامہ ابن تیمیہ اسکی جید شاہد پر مطلع ہو چکےتھے جو صحیح سند سے مروی تھی جیسا کہ وہ اپنے ایک رسالے میں فرماتے ہیں :

علامہ ابن تیمیہ نے اس روایت کو امام ابن الجوزی سے باسند متصل بحوالہ امام ابن الجوزی کی تصنیف الوفاء سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

الشیخ ابو الفرج ابن الجوزی فی (الوفاء بفضائل المصطفیٰ) : حدثنا أبو جعفر محمد ابن عمرو، حدثنا أحمد بن سحاق بن صالح، ثنا محمد بن صالح، ثنا محمد ابن سنان العوقي، ثنا إبراهيم بن طهمان، عن بديل بن ميسرة، عن عبد الله بن شقيق، عن ميسرة قال: قلت: يا رسول الله، متى كنت نبياً ؟ قال: (( لما خلق الله الأرض واستوى إلى السماء فسواهن سبع سماوات ، وخلق العرش،كتب على ساق العرش: محمد رسول الله خاتم الأنبياء، وخلق الله الجنة التي أسكنها آدم وحواء، فكتب اسمي على الأبواب، والأوراق والقباب، والخيام،وآدم بين الروح والجسد،فلما أحياه الله تعالى: نظر إلى العرش فرأى اسمي فأخبره الله أنه سيد ولدك، فلما غرهما الشيطان ، تابا واستشفعا باسمي إليه .

ترجمہ: حضرت میسرہ بیان کرتے ہیں کہ مین نے عرض کیا یا رسول اللہ!آُپ کب نبی تھے؟ فرمایا، جب اللہ تعالیٰ نے زمین کی تخلیق فرمائی پھر آسمان کی طرف استواء فرمایا اور سات آسمان بنائے اور عرش پیدا فرمایا اور ساق عرش پہ لکھا محمد رسواللہ خاتم الانبیاء اور جنت بنائی جس مین آدم اور حوا علیہما السلام کو ٹھہرایا، پھر دروازوں ، پتوں قبوں اور خیموں پر میرا نام مکتوب فرمایا۔ اس وقت آدم روح و جسد کے درمیان تھے پھر ان میں روح ڈالی تو انہوں نے عرش کی طرف نظر اٹھائی چنانچہ اس پر میرا نام لکھا دیکھا اللہ تعالیٰ نے انکو خبر دی یہ تیری اولاد کا سردار ہے
پھر جب شیطان نے ان (حضرت آدم علیہ السلام) کو دھوکا دیا تو انہوں نے توبہ کی اور میرے اسم گرامی سے بارگاہ الہی میں وسیلہ پکڑا

اسکے بعد علامہ ابن تیمیہ نے امام ا بو نعیم کی دلائل نبوہ اور ابن جوزی کے طریق سے اس باب کی دوسری روایت نقل کی ہے جو مستدرک للحاکم میں بھی موجود ہے
وروى أبو نعيم الحافظ في كتاب دلائل النبوة: ومن طريق الشيخ أبي الفرج حدثنا سليمان بن أحمد ثنا أحمد بن رشدين ثنا أحمد بن سعيد الفهري ثنا عبد الله ابن إسماعيل المدني عن عبد الرحمن زيد بن أسلم عن أبيه عن عمر بن الخطاب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” لما أصاب آدم الخطيئة رفع رأسه فقال يا رب بحق محمد إلا غفرت لي، فأوحى إليه وما محمد؟ ومن محمد؟ فقال: يا رب إنك لما أتممت خلقي رفعت رأسي إلى عرشك فإذا عليه مكتوب: لا إله إلا الله محمد رسول الله، فعلمت أنه أكرم خلقك عليك، إذ قرنت اسمه مع اسمك. فقال: نعم، قد غفرت لك وهو آخر الأنبياء من ذريتك ولولاه ما خلقتك

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام خطاء کے مرتکب ہوئے تو انہوں نے (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کیا : اے پروردگار! میں تجھ سے محمدﷺ کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔ تو اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا : اے آدم !تم نے محمدﷺکو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی تک میں نے انہیں تخلیق بھی نہیں کیا؟ اس پر حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : مولا! جب تو نے اپنے دست قدرت سے مجھے تخلیق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی، میں نے اپنا سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو عرش کے ہر ستون پر لا إلہ إلا اللہ، محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا۔ تو میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہوسکتا ہے جو تمام مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے آدم! تو نے سچ کہا ہے، مجھے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب وہی ہیں۔ اب جبکہ تم نے اس کے وسیلہ سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمدﷺ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی تخلیق نہ کرتا۔

ان دو مروایات کو بیان کرنے کے بعد علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں :
فَهَذَا الْحَدِيثُ يُؤَيِّدُ الَّذِي قَبْلَهُ وَهُمَا كَالتَّفْسِيرِ لِلْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ
یہ حدیث ، گزشتہ حدیث کی تائید کرتی ہے اور دونوں حدیثین احادیث صحیہ کی تفسیر کی حیثیت رکھتی ہیں
(یہ یاد رہے یہ حدیث علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک استشہاد اور اعتبار کے لے لائق ہے ،کیونکہ موضوع روایت محدثین کے نزیدک قابل استشہاد نہیں ہوتی )
[مجموعة الرسائل والمسائل، ج۴،ص ۱۱]

کچھ اہل حدیث حضرات یہ کہتے ہیں کہ علامہ ابن تیمیہ نے ایک جگہ اس روایت کو موضوع کہہ کر رد کیا ہے تو اسکا جواب ہے یہ موقف علامہ ابن تیمیہ کا پہلے کا تھا اسکی دلیل یہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہ نے مستدرک والی روایت کو فقط موضوع قرار دیا تھا اسکی سند کے سبب
لیکن جب علامہ ابن تیمیہ ابن جوزی علیہ رحمہ کی الوفاء میں اسی متن کا شاہد کی جید سند پر مطلع ہو چکے تو انہوں نے مذکورہ روایت جو سند کے اعتبار سے انکے نزدیک غیر ثا بت تھی دوسری جید سند پر مطلع ہونے کے سبب ثابت ہوگئی اس وجہ سے علامہ ابن تیمیہ نے اس حدیث کے ساتھ دوسری روایت جو الشفاء سے نقل کی ان دونوں مجموعی احادیث کو صحیح احادیث کی تفسیر کی حیثیت قرار دی ۔

مزید یہ کہ امام ابن جوزی کی الشفاء کی سند بالکل صحیح ہے اس کے رجال پر ہم آج سے کئی سال پہلے تحقیق لگا چکے ہیں

دعاگو: اسد الطحاوی