دین علما سے سیکھئے گوگل اور یوٹیوب سے دین سیکھنے کے نقصانات
*دین علما سے سیکھئے (گوگل اور یوٹیوب سے دین سیکھنے کے نقصانات)*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ازقلم: محمد شعیب خان رضوی
متعلم: مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا، بریلی شریف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ دور فتنوں کا دور ہے۔ روز طرح طرح کے فتنے ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ جن کی نشاندہی و پیشنگوئی محبوب کبریا شافع روز جزا سید الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے ۱۴ صدی پہلے فرما دی تھی، جیسا کہ مسلم شریف میں ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ لَا يُضِلُّونَكُمْ وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آخر زمانے میں کچھ ایسے دھوکے باز، فریبی جھوٹے لوگ پیدا ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی ایسی باتیں لائیں گے جن کو نہ کبھی تم نے سنا ہوگا اور نہ تمہارے باپ دادا نے۔ پس تم ایسے مکاروں اور دھوکہ بازوں سے دور رہو اور ان کو اپنے پاس نہ آنے دو۔ تاکہ وہ تم کو گمراہ نہ کر سکیں اور نہ تم کو فتنے میں ڈال سکیں۔
اس پر فتن دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ آئے دن سوشل میڈیا پر ایسے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو لوگوں کو دین سکھانے کا دعوٰی کرتے ہیں، حالانکہ ان کا یہ دعوٰی محض دجل و فریب ہوتا ہے، اس دعوے کی آڑ میں ایسی نئی نئی باتیں بیان کرتے ہیں جو نہ کبھی ہم نے سنیں نہ ہمارے باپ دادا نے۔ موجودہ دور میں قوم کا نوجوان طبقہ جو کہ سوشل میڈیا سے جڑا ہوا ہے، اولا تو ان میں اکثر کو دینی امور سے کوئی علاقہ نہیں اور جو دین سے کچھ شغف رکھتے ہیں، عقائد و مسائل سیکھنا چاہتے ہیں تو وہ اس امر کی ذرہ برابر فکر نہیں کرتے کہ ہم دین کس سے سیکھ رہے ہیں۔
اللہ جل مجدہ الکریم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : فَسْـئـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(سورہ نحل، آیت ۴۳) ترجمہ: تو اے لوگوں! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔ آیت مذکورہ کا عموم اس امر کی جانب دلالت کر رہا ہے کہ جس مسئلے کا علم نہ ہو وہ علما سے پوچھو۔ لیکن آج ہماری قوم کے افراد علما کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کرنے کی بجائے گوگل، فیسبک،یوٹیوب وغیرہ سوشل میڈیا ایپلیکیشنز پر مسائل کی جستجو میں کوشاں ہیں۔
آج گوگل، یوٹیوب یا دیگر سوشل میڈیا ایپلیکیشنز (جن پر لوگ دین سیکھتے ہیں) نے اہل علم اور جہلا کو ایک صف میں لاکر کھڑا کر دیا ہے، پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون عالم ہے اور کون جاہل، ایسے ایسے بہروپیے جن کو خود قرآن و حدیث تو دور ابتدائی کتابیں تک سمجھ نہیں آتیں وہ بھی لوگوں کو دین سکھانے کے نام پر گمراہ کرتے پھر رہے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے;
آج جاہل بھی ہیں عالم کا لبادہ اوڑھے
ایسے ملاؤں سے ایمان بچائے رکھنا
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ (سورہ زمر،آیت نمبر ۹) ترجمہ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں؟ آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ عالم اور غیر عالم برابر نہیں اور عالم کو غیر عالم پر فضیلت حاصل ہے۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ آج لوگ صرف آسانیاں تلاش کرنے کے لیے علماء پر یوٹیوبرز اور بلاگرز کو فوقیت دیتے ہیں اور ان جہلا پر اعتماد کرتے ہیں۔
علماء کو چھوڑ کر سوشل میڈیا پر دین سیکھنے کے بہت سے نقصانات ہیں، چند مندرجہ ذیل ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
(۱)علمائے حق سے دوری اور قرآن کی مخالفت: اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ (سورۃ النساء، آیت نمبر ۵۹) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں اولو الامر ہیں۔
امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (والمراد من أولي الأمر العلماء، في أصح الأقوال؛ لأن الملوك يجب عليهم طاعة العلماء ولا ينعكس) اولو الامر سے مراد علماء ہیں اصح اقوال میں، اس لیے کہ بادشاہوں پر علما کی فرمانبرداری واجب ہے اور اس کا برعکس نہیں۔
معلوم ہوا علمائے کرام کی اطاعت کاحکم قرآن کریم سے ہے۔ علمائے کرام مسائل شرعیہ کے بیان میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے اور بے جھجک درست مسائل بیان کر اپنا فریضہ انجام دیتے ہیں، جبکہ جہلا(یوٹیوبرز اور بلاگرز وغیرہ) شرع میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا کر قرآن و سنت سے حقیقت کے خلاف مفہوم نکال کر خلاف شرع موافق طبع مسائل بیان کرتے ہیں، نتیجۃ لوگ یوٹیوبرز اور بلاگرز کے عقلی مسائل، جو ان کی طبیعت کے موافق ہوتے ہیں، پر عمل کر لیتے ہیں اور علمائے کرام کے بیان کردہ شرعی مسائل کو ترک کر اللہ عزوجل کے حکم کی خلاف ورزی کر غضب الٰہی کو مول لیتے ہیں۔
(۲)ارتداد کی سیڑھی: اسلامی معاشرے میں فی زمانہ سب سے تیزی سے بڑھنے والا فتنہ فتنۂ ارتداد ہے۔ اس فتنے کے پنپنے کی ایک وجہ گوگل اور یوٹیوب سے دین سیکھنا بھی ہے۔ ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے قرآن و حدیث کے ظاہری مفاہیم کو سمجھ کر لوگ دین اسلام کے متعلق غلط نظریات قائم کر لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ وہ نظریات ان کے ذہن میں فروغ پاتے ہیں۔ حتی کہ وہ نظریات انھیں ارتداد کے دہانے تک پہنچا دیتے ہیں۔
(۳)فیضان علم سے محرومی اور سببِ ہلاکت: ’’حضرت سیدنا ابو بکرہ رضی ﷲ عنہ راوی ہیں فرماتے ہیں میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ :عالم بنو یا طالب علم بنو یا علمی گفتگو کو کان لگا کر سننے والے بنو،یا علم اور اہل علم سے محبت رکھنے والے بنو، مذکورہ چار کے علاوہ پانچویں قسم کے مت بنو، کہ ہلاک ہو جاؤ گے اور پانچویں قسم یہ ہے کہ تم علم اور اہل علم حضرات سے بغض رکھو ۔‘‘(مجمع الزوائد)
حدیث پاک میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے چار درجے بیان کیے اور فرمایا کہ ان چار کے علاوہ میں محض ہلاکت ہے۔ علما فرماتے ہیں طالب علم بننے سے مراد صرف یہی نہیں کہ باضابطہ طور پر مروجہ طریقہ کو اختیار کر مدارس میں رہ کر ہی علم حاصل کرے بلکہ اگر وہ علما کی بارگاہ میں بیٹھ کر بھی علم حاصل کرے اس کو بھی یہ فضیلت ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر دین سیکھنا اور علما سے بدظن رہنا، ان کی تحقیر کرنا، ان سے روابط کومنقطع کرنا یہ دنیا و آخرت میں ہلاکت کا باعث ہے۔
(۴)سوشل میڈیا کی گمراہیت میں معاونت:خیر القرون سے لے کر آج تک مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے معاندین اسلام اسلامی لبادہ اوڑھ کر ان کے درمیان داخل ہوتے آئے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے رہے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے ان کا کام اور آسان ہو گیا ہے، گزشتہ زمانے میں انھیں مال و زر خرچ کر، سفر کی صعوبتوں کوبرداشت کرنے کے باوجود اتنی کامیابی حاصل نہیں ہوتی تھی، جتنی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے حاصل ہو رہی ہے، وجہ یہی ہے کہ گزشتہ زمانے میں معاندین گھر گھر جا کر لوگوں کو گمراہ کرتےتھے، لیکن آج انھیں کسی کوگمراہ کرنے کے لیے گھر گھر جانے کی ضرورت نہیں، یوٹیوب پر اپنے گمراہی بھرے ویڈیوز ڈال دیتے ہیں، گوگل پر بلاگز بنا لیتے ہیں لوگ ان کے اسلامی نام دیکھ کر، ان کی وضع قطع کو اسلامی سمجھ کر، انھیں اپنا گمان کر ان کی اتباع کرنے لگ جاتے ہیں نتیجۃ وہ گمراہ گر ان لوگوں کے ایمان وعقیدے کو تباہ وبرباد کرڈالتے ہیں۔
علاوہ ازیں یوٹیوب،گوگل وغیرہ سوشل میڈیا ایپلیکیشنز کے کثیر نقصانات ہیں جن کو یہاں درج کرنا ممکن نہیں۔ سوشل میڈیا ایپلیکیشنز سے اسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جبکہ دین علما کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کرکے حاصل کر چکے ہوں، ان کے فوائد کا حصول اسی وقت ممکن ہے جبکہ زیورِ علم سے آراستہ ہو چکے ہوں ورنہ کوئی طارق جمیل کا چھوٹا رچارج بنے گا تو کوئی ذاکر نالائق کا بیٹا ورژن، کوئی وسیم تیاگی تو کوئی سمیر مرتد۔
اللہ جل مجدہ الکریم ہمیں صحیح معنوں میں علم دین حاصل کرنے، اس پر عمل کرنے اور تا دم حیات مسلک اعلی حضرت پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ