پوسٹ مارٹم
پوسٹ مارٹم}
پوسٹ مارٹم بھی اگر کسی ضرورت کے پیش نظر ناگزیر ہوجائے تو جائز ہے مثلاً مقدمہ کی تحقیق کیلئے موت کی وجہ معلوم کرنی ہو،یا کوئی شخص اپنا اندرونی عضو ہبہ کردے اور علماء اس کے جواز کا فتویٰ دے دیں اس لئے اس عضو کو نکالنا ہو وغیرہ،اور اس کی نظیر یہ ہے کہ فقہانے اس مردہ حاملہ عورت کا پیٹ چاک کرنے کی اجازت دی ہے جس کے پیٹ کا بچہ ابھی زندہ ہے تاکہ اس طرح اس کا نکالا جاسکے۔(فتح القدیر :ج۲،ص۱۰۲ وحوالۂ سابق)
میڈیکل تعلیم کی غرض سے پوسٹ مارٹم کا جواز قابلِ غور مسئلہ ہے ایک طرف یہ ضرورت بھی ہے کہ اس طرح اگر تجرباتی تعلیم نہ دی جائے تو طلبہ کے لئے انسانی جسم کی پییجیدہ ساخت کا سمجھنا مشکل ہوجائے گا اور دوسری طرف اسلام میں مردہ کا جو احترام اور انسانیت کی جو تکریم پیش نظر رکھی گئی ہے وہ اس کی اجازت نہیں دیتی۔اس لئے اس کے لئے پلاسٹک کے مصنوعی اعضاء اور جسم حیوانوں،مینڈک،بندر،بن مانس وغیرہ کے جسمانی تجزیہ سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
لیکن اگر یہ اس مقصد کے لئے کافی نہ ہو تو انسانی نعشوں کا پوسٹ مارٹم بھی درست ہے ۔اسلئے کہ اس ایک نقصان سے بڑا اجتماعی اور قومی مفاد وابستہ ہے اور فقہ کا اصول ہے کہ جہاں دو میں کسی ایک نقصان سے دوچار ہونا ناگزیر ہوجائے وہاں اہم ترین نقصان سے بچنے کیلئے کمتر نقصان کو گوارا کرلیا جائے گا:لوکان أحد ھما أعظم ضرراً من الاٰخر فان الأشد یزال بالأ خف۔