ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْؕ-هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِیْهِ سَوَآءٌ تَخَافُوْنَهُمْ كَخِیْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۲۸)

تمہارے لیے (ف۵۲) ایک کہاوت بیان فرماتا ہے خود تمہارے اپنے حال سے (ف۵۳) کیا تمہارے لیے تمہارے ہاتھ کے مال غلاموں میں سے کچھ شریک ہیں (ف۵۴) اس میں جو ہم نے تمہیں روزی دی (ف۵۵) تو تم سب اس میں برابر ہو (ف۵۶) تم اُن سے ڈرو (ف۵۷) جیسے آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو (ف۵۸) ہم ایسی مفصل نشانیاں بیان فرماتے ہیں عقل والوں کے لیے

(ف52)

اے مشرکو ۔

(ف53)

وہ مثل (کہاوت) یہ ہے ۔

(ف54)

یعنی کیا تمہارے غلام تمہارے ساجھی ہیں ۔

(ف55)

مال و متاع وغیرہ ۔

(ف56)

یعنی آقا اور غلام کو اس مال و متاع میں یکساں استحقاق ہو ایسا کہ ۔

(ف57)

اپنے مال و متاع میں بغیر ان غلاموں کی اجازت سے تصرُّف کرنے سے ۔

(ف58)

مدعٰی یہ ہے کہ تم کسی طرح اپنے مملوکوں کو اپنا شریک بنانا گوارا نہیں کر سکتے تو کتنا ظلم ہے کہ اللہ تعالٰی کے مملوکوں کو اس کا شریک قرار دو ۔ اے مشرکین تم اللہ تعالٰی کے سوا جنہیں اپنا معبود قرار دیتے ہو وہ اس کے بندے اور مملوک ہیں ۔

بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍۚ-فَمَنْ یَّهْدِیْ مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُؕ-وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(۲۹)

بلکہ ظالم (ف۵۹) اپنی خواہشوں کے پیچھے ہولیے بے جانے (ف۶۰) تو اُسے کون ہدایت کرے جسے خدا نے گمراہ کیا (ف۶۱) اور اُن کا کوئی مددگار نہیں (ف۶۲)

(ف59)

جنہوں نے شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلمِ عظیم کیا ہے ۔

(ف60)

جہالت سے ۔

(ف61)

یعنی کوئی اس کا ہدایت کرنے والا نہیں ۔

(ف62)

جو انہیں عذاب الٰہی سے بچا سکے ۔

فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاؕ-فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ-لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُۗۙ-وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَۗۙ(۳۰)

تو اپنا منہ سیدھا کرو اللہ کی اطاعت کے لیے ایک اکیلے اسی کے ہوکر (ف۶۳) اللہ کی ڈالی ہوئی بِنا جس پر لوگوں کو پیدا کیا (ف۶۴) اللہ کی بنائی چیز نہ بدلنا (ف۶۵) یہی سیدھا دین ہے مگر بہت لوگ نہیں جانتے (ف۶۶)

(ف63)

یعنی خلوص کے ساتھ دینِ الٰہی پر باستقامت و استقلال قائم رہو ۔

(ف64)

فطرت سے مراد دینِ اسلام ہے معنٰی یہ ہی کہ اللہ تعالٰی نے خَلق کو ایمان پر پیدا کیا جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر بچّہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے یعنی اسی عہد پر جو” اَ لَسْتُ بِرَبِّکُمْ ” فرما کر لیا گیا ہے ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں ۔ اس آیت میں حکم دیا گیا کہ دینِ الٰہی پر قائم رہو جس پر اللہ تعالٰی نے خَلق کو پیدا کیا ہے ۔

(ف65)

یعنی دینِ الٰہی پر قائم رہنا ۔

(ف66)

اس کی حقیقت کو تو اس دین پر قائم رہو ۔

مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ(۳۱)

اس کی طرف رجوع لاتے ہوئے (ف۶۷) اور اس سے ڈرو اور نمازقائم رکھو اور مشرکوں سے نہ ہو

(ف67)

یعنی اللہ تعالٰی کی طرف توبہ اور طاعت کے ساتھ ۔

مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًاؕ-كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ(۳۲)

ان میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا (ف۶۸) اور ہوگئے گروہ گروہ ۔ ہر گروہ جو اس کے پاس ہے اس پر خوش ہے (ف۶۹)

(ف68)

معبود کے باب میں اختلاف کر کے ۔

(ف69)

اور اپنے باطل کو حق گمان کرتا ہے ۔

وَ اِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُّنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ ثُمَّ اِذَاۤ اَذَاقَهُمْ مِّنْهُ رَحْمَةً اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ بِرَبِّهِمْ یُشْرِكُوْنَۙ(۳۳)

اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے (ف۷۰) تو اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی طرف رجوع لاتے ہوئے پھر جب وہ انہیں اپنے پاس سے رحمت کا مزہ دیتا ہے(ف۷۱)جبھی ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے

(ف70)

مرض کی یا قحط کی یا اس کے سوا اور کوئی ۔

(ف71)

اس تکلیف سے خلاصی عنایت کرتا ہے اور راحت عطا فرماتا ہے ۔

لِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْؕ-فَتَمَتَّعُوْاٙ-فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(۳۴)

کہ ہمارے دئیے کی ناشکری کریں تو برت لو (ف۷۲) اب قریب جاننا چاہتے ہو (ف۷۳)

(ف72)

دنیوی نعمتوں کو چند روز ۔

(ف73)

کہ آخرت میں تمہارا کیا حال ہوتا ہے اس دنیا طلبی کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے ۔

اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَ یَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ یُشْرِكُوْنَ(۳۵)

یا ہم نے ان پر کوئی سند اُتاری (ف۷۴) کہ وہ انہیں ہمارے شریک بتارہی ہے (ف۷۵)

(ف74)

کوئی حُجّت یا کوئی کتاب ۔

(ف75)

اور شرک کرنے کا حکم دیتی ہے ایسا نہیں ہے نہ کوئی حُجّت ہے نہ کوئی سند ۔

وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوْا بِهَاؕ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ اِذَا هُمْ یَقْنَطُوْنَ(۳۶)

اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ دیتے ہیں (ف۷۶) اس پر خوش ہوجاتے ہیں (ف۷۷) اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچے (ف۷۸) بدلہ اس کا جو اُن کے ہاتھوں نے بھیجا (ف۷۹) جبھی وہ نااُمید ہوجاتے ہیں (ف۸۰)

(ف76)

یعنی تندرستی اور وسعتِ رزق کا ۔

(ف77)

اور اِتراتے ہیں ۔

(ف78)

قحط یا خوف یا اور کوئی بَلا ۔

(ف79)

یعنی ان کی معصیتوں اور ان کے گناہوں کا ۔

(ف80)

اللہ تعالٰی کی رحمت سے اور یہ بات مومن کی شان کے خلاف ہے کیونکہ مومن کا حال یہ ہے کہ جب اسے نعمت ملتی ہے تو شکر گزاری کرتا ہے اور جب سختی ہوتی ہے تو اللہ تعالٰی کی رحمت کا امیدوار رہتا ہے ۔

اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۳۷)

اور کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ اللہ رزق وسیع فرماتا ہے جس کے لیے چاہے اور تنگی فرماتا ہے جس کے لیے چاہے بےشک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے

فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۳۸)

تو رشتہ دار کو اس کا حق دو (ف۸۱) اور مسکین اور مسافر کو (ف۸۲) یہ بہتر ہے اُن کے لیے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں (ف۸۳) اور اُنہیں کا کام بنا

(ف81)

اس کے ساتھ سلوک اور احسان کرو ۔

(ف82)

ان کے حق دو صدقہ دے کر اور مہمان نوازی کر کے ۔

مسئلہ : اس آیت سے محارم کے نفقہ کا وجوب ثابت ہوتا ہے ۔ (مدارک)

(ف83)

اور اللہ تعالٰی سے ثواب کے طالب ہیں ۔

وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(۳۹)

اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی (ف۸۴) اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے (ف۸۵) تو انہیں کے دونے ہیں (ف۸۶)

(ف84)

لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور آشناؤں کو یا اور کسی شخص کو اس نیّت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہو گی کیونکہ یہ عمل خالصاً لِلّٰہِ تَعالٰی نہیں ہوا ۔

(ف85)

نہ اس سے بدلہ لینا مقصود ہو نہ نام و نمود ۔

(ف86)

ان کا اجر و ثواب زیادہ ہو گا ایک نیکی کا دس گنا زیادہ دیا جائے گا ۔

اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْؕ-هَلْ مِنْ شُرَكَآىٕكُمْ مَّنْ یَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَیْءٍؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۠(۴۰)

اللہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں روزی دی پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں جِلائے(زندہ کرے) گا (ف۸۷) کیا تمہارے شریکوں میں (ف۸۸) بھی کوئی ایسا ہے جو اُن کاموں میں سے کچھ کرے (ف۸۹) پاکی اور برتری ہے اُسے اُن کے شرک سے

(ف87)

پیدا کرنا ، روزی دینا ، مارنا ، جِلانا یہ سب کام اللہ ہی کے ہیں ۔

(ف88)

یعنی بُتوں میں جنہیں تم اللہ تعالٰی کا شریک ٹھہراتے ہو ان میں ۔

(ف89)

اس کے جواب سے مشرکین عاجز ہوئے اور انہیں دَم مارنے کی مجال نہ ہوئی تو فرماتا ہے ۔