ه – باب

6- حدثنا عبدان قال أخبرنا عبد الله قال أخبرنا يونس عن الزهري(ح) قـال وحـدثنا بشر بن محمد قال أخبرنا عبد الله قال أخبرنا يونس و معمر عن الزهري نحوه قال أخبرني عبيد اللہ بن عبد الله عن ابن عباس قال كان رسول اللہ صلى الله عليه وسلم أجود الناس، وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل وكان يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القران فلرسول الله صلى الله عليه وسلم أجود بالخير من الريح المرسلة.

اطراف الحدیث : ۱۹۰۲۔ ۳۲۲۰۔ ۳۵۵۴-۴۹۹۷]

 

باب

امام بخاری نے کہا کہ ہمیں عبدان نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یونس نےخبر دی، از زہری ( ح ) امام بخاری نے کہا کہ ہمیں بشر بن محمد نےحدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ نے خبر دی انہوں نےکہا کہ ہمیں یونس اور معمر نے اس کی مثل خبردی از زہری انہوں نےکہا کہ مجھے عبید اللہ بن عبد اللہ نے خبر دی از حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخاوت کرتے تھے اور سب سے زیادہ سخاوت آپ رمضان میں کرتے تھے جب حضرت جبریل آپ سے ملاقات کرتے اور حضرت جبریل سے رمضان کی ہر رات میں ملاقات کر تے تھے اور آپ سے قرآن مجید کا دور کرتے تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم( لوگوں کے نفع کے لیے ) بھیجی ہوئی ہواؤں سے زیادہ خیر کی سخاوت کر تے تھے ۔

( صحیح مسلم:۲۳۰۸،سنن نسائی:۲۰۹۵ السنن الکبری للنسائی: ۷۹۹۳ صحیح ابن حبان : ۷۰ ۶۳ دلائل النبوۃ للبیہقی ج۱ص۳۲۶ مسند احمد ج۱ص ۲۸۹ طبع قدیم مسند احمد :2616۔ ج ۴ ص ۳۷۵ مؤسسة الرسالۃ بیروت ۱۴۲۰ھ )

 

دوسندوں کے درمیان’’ ح‘‘ لکھنے اور اس کو پڑھنے کی تحقیق

 

اس حدیث کی دوسندوں کے درمیان’’ ح‘‘لکھی ہوئی ہے یہ’’ح’‘‘صحیح مسلم میں بہت زیادہ ہے اور ’صحیح البخاری‘‘ میں کم ہے اور محدثین کی عادت ہے کہ جب ایک حدیث کی دو یا دو سے زیادہ سندیں ہوں تو وہ ایک سند سے دوسری سند کی طرف منتقل ہوتے وقت حرف’’ حا‘‘ ( ح ) لکھ دیتے ہیں اور یہ “تحول‘‘ سے ماخوذ ہے یعنی وہ ایک اسناد سے دوسری اسناد کی طرف” تحول ‘‘ کررہے ہیں اور پڑھنے والا اس کو “حا‘‘ پڑھے گا یا “تحویل ‘‘پڑھے گا یا ’ثم تحول ‘‘پڑھے گا اس کا فائدہ یہ ہے کہ اسناد ثانی کواسناداول کے ساتھ مرکب کرکے دوسندوں کو ایک سند نہ قرار دیا جاۓ ،اہل مغرب یہ کہتے تھے کہ’’ ح‘‘ میں’’ الحدیث ‘‘ کی طرف رمز ہے ۔

 

صحیح البخاری: 6 کے رجال کا تعارف

(۱)اس حدیث کی سند کے پہلے راوی عبدان ہیں یہ عبد اللہ بن عثمان بن جبلہ بن ابی رواد میمون کا لقب ہے، انہوں نے امام مالک اور حماد بن زید وغیرہ سے سماع حدیث کیا ہے اور الذھلی، البخاری وغیرھما نے ان سے احادیث روایت کی ہیں امام مسلم، امام ابوداؤد اور امام نسائی کی بھی ان سے روایت ہے یہ ۲۲۱ھ یا ۲۲۲ھ میں فوت ہو گئے تھے، اس وقت ان کی عمر 76 سال تھی

(۲) دوسرے راوی عبدالله بن المبارک بن واضح لحنظلی التمیمی ہیں، ان کی امامت، جلالت، تقوی، سخاوت، عبادت، ثقاہت اور ان کے حجت ہونے پر سب متفق ہیں، یہ تبع تابعین میں سے ہیں ان کے باپ ترکی تھے اور ھمدان کے ایک شخص کے غلام تھے اور ان کی ماں خوارزمیہ تھیں، یہ 118ھ میں پیدا ہوئے اور رمضان ۱۸۱ھ میں ایک غزوہ سے واپس آتے ہوۓ فوت ہو گئے صحاح ستہ میں عبد اللہ بن المبارک کے نام کے صرف یہی ایک راوی ہیں.

(۳) تیسرے راوی بشر بن محمد المروزی السختیانی ہیں ان سے صرف امام بخاری نے روایت کی ہے امام ابن حبان نے ان کا ثقات میں ذکر کیا ہے اور انہوں نے کہا: یہ مرجئی تھے (مرجئہ وہ فرقہ ہے جو مومنوں کے گناہوں پر عذاب کا قائل نہیں ہے یہ ۲۲۴ھ میں فوت ہو گئے تھے.

(۴) چوتھے راوی عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ الھذلی المدنی ہیں، یہ جلیل القدر امام اور تابعی میں مدینہ کے مشہور سات فقہاء میں سے ایک ہیں انہوں نے کئی صحابہ سے حدیث کا سماع کیا ہے ان میں حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ وغیرہ ہیں رضی اللہ عنہم اور تابعین سے بھی احادیث کا سماع کیا ہے ان میں عمر بن عبد العزیز بھی ہیں یہ بصرہ چلے گئے تھے یہ ۹۴ ھ یا ۹۸ ھ میں فوت ہو گئے تھے.

( ۵ ) پانچویں راوی یونس بن یزید بن مشکان بن ابی النجاد ہیں، انہوں نے کئی تابعین سے احادیث کا سماع کیا ہے ان میں قاسم عکرمہ سالم نافع اور زہری وغیرہ ہیں ان سے بھی تابعین نے سماع کیا ہے ان میں جریر بن حازم اوزاعی اور لیث وغیرہ ہیں یہ ۱۵۹ ھ میں مصر میں فوت ہو گئے تھے

(۲) چھٹے راوی معمر بن ابی عمرو بن راشد الازدی الحرانی ہیں, یہ یمن کے عالم تھے، انہوں نے بہت تابعین سے احادیث کا سماع کیا ہے، ان میں عمرو بن دینار، ایوب اور قتادہ ہیں اور ان سے بھی تابعین کی ایک جماعت نے سماع کیا ہے، ان میں سے عمرو بن دینار (ان کے شیخ ابواسحاق السبیعی ، ایوب اور یحی بن ابی کثیر ہیں، سو یہ اصاغر سے اکابر کی روایت ہے امام عبد الرزاق نے کہا: میں نے ان سے دس ہزار احادیث کا سماع کیا ہے یہ ۱۵۲ ھ یا ۱۵۳ھ میں یمن میں فوت ہو گئے تھے، اس وقت ان کی عمر ۵۸ سال تھی، ان کے ادھام بہت ہیں ابوحاتم نے کہا: یہ صالح الحدیث ہیں، انہوں نے بصرہ میں جو احادیث بیان کی ہیں، ان میں اغالیط ہیں، یحیی بن معین نے کہا کہ ثابت سے ان کی روایات ضعیف ہیں.

(۷، ۸) ساتویں اور آٹھویں میں راوی زہری اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں ان کا تذکرہ پہلے گزرچکا ہے ۔

( عمدة القاری ج ۱ ص ۱۳۱ – ۱۲۳ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۱ھ )

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اس کے ثبوت میں احادیث اور آثار

 

اس حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخاوت کرتے تھے، حدیث میں’’ اجود‘‘ کا لفظ ہے یہ جود‘‘ کا اسم تفضیل ہے، علامہ محمد بن مکرم ابن منظور افریقی متوفی ۷۱۵ ھ نے لکھا ہے:’’ رجل جواد‘‘ کا معنی ہے: سخی آدمی ۔ (لسان العرب ج ۳ ص ۲۳۴ دارصادر بیروت ) نیز لکھا ہے:” من الجود‘‘ کا معنی ہے : یہ سخاوت سے ہے ۔ (لسان العرب ج ۳ ص۲۳۶ بیروت ) لہذا ’جود ‘‘ کا معنی ہے: جس شخص کے جو چیز لائق ہو اس کو وہ عطا کرنا آپ کے سب سے زیادہ جواد ہونے میں کیا شک ہے آپ سب سے زیادہ حسین تھے، آپ کے افعال سب سے اچھے تھے اور آپ کے اخلاق سب سے زیادہ عمدہ تھے، اسی طرح آپ سب سے زیادہ سخی تھے، آپ کسی سائل کو” نہ” نہیں فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم:2311 ) ایک خاتون نے آپ سے قمیص کا سوال کیا۔ آپ کے پاس سوا اس قمیص کے جو آپ پہنے ہوۓ تھے اور کوئی قمیص نہ تھی، آپ نے وہی قمیص اتار کر دے دی ۔ ( الدرالمنثور ج ۵ ص۲۴۰ داراحیاء التراث العربی بیروت )

رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے بیٹے نے آپ سے سوال کیا کہ آپ اس کے باپ کے کفن کے لیے اپنی قمیص عطا کر دیں تو آپ نے اس کے کفن کے لیے اپنی قمیص عطا کر دی۔ ( صحیح البخاری 1269 صحیح مسلم : ۷۷۴ ۲ سنن ترمذی: ۳۰۹۸، سنن نسائی : 1900)

نیز اس حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(لوگوں کے نفع کے لیے) بھیجی ہوئی ہواؤں سے زیادہ خیر کی سخاوت کرتے تھے ۔

اس حدیث میں “الـريـح المرسلة‘‘ کا لفظ ہے اس کا معنی ہے : بھیجی ہوئی ہوا اور اس کا معنی رحمت ( یعنی بارش) کے لیے بھیجی ہوا بھی ہے قرآن مجید میں ہے:

وهو الذي يرسل الريح بشرا بين يدي رحمته

اور وہی ہے جو اپنی رحمت ( کی بارش) سے پہلے خوش خبری دیتی ہوئی ہوائیں بھیجتا ہے ۔(الاعراف: ۵۷)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام لانے پر جس چیز کا بھی سوال کیا جاتا،آپ وہ چیز عطا فرما دیتے ۔ ( صحیح مسلم : 2312)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کا بھی سوال کیا جاتا‘ آپ وہ عطا فرما دیتے ۔ (مسند احمد ج۱ ص۲۳۰)

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ حسین تھے تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام لوگوں سے زیادہ بہادر تھے ۔ (صحیح البخاری:۰۴۰ ۳، سنن ترمذی : 2772 سنن ابن ماجہ : ۲۷۷۲ مسند احمد ج ۳ ص ۱۴۷)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو یہ نہ بتاؤں کہ سب سے زیادہ جواد کون ہے؟ اللہ سب سے زیادہ جواد ہے اور بنو آدم میں سب سے زیادہ جواد میں ہوں اور میرے بعد سب سے زیادہ جواد وہ شخص ہوگا جس نے علم حاصل کرکے اس کو پھیلایا،اس کو قیامت کے دن امت میں اکیلا اٹھایا جائے گا اور وہ اس سب سے زیادہ جواد ہوگا جس نے اپنی جان کی اللہ کی راہ میں سخاوت کی حتی کہ شہید ہو گیا ۔

( مسند ابویعلی : ۷۹۰ ۲ الترغیب والترہيب للمنذری ج ۲ س۳۲۰ طبع قدیم المطالب العالیہ ۷ ۷ ۳۰ جمع الزوائد ج ۹ ص ۱۳ )

 

رمضان میں زیادہ سخاوت کرنے کی توجیہ

 

نیز اس حدیث میں مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ رمضان میں سخاوت کرتے تھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی بھی سب سے زیادہ رمضان میں فیاضی فرماتا ہے رمضان کی ایک شب میں اس نے ہزار مہینوں کی عبادت کا اجر مقررفرمایا رمضان میں تسبیحات کا اجر ستر گنا زائد عطا فرماتا ہے اور فرمایا: روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود ہوں ۔ ( صحیح البخاری : ۱۸۹۴ )

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی رمضان کے ہر دن اور رات میں دوزخ سے گناہ گاروں کو آزادفرماتا ہے ۔ ( مسند البزار : ۹۶۲ علامہ حیثمی نے کہا: اس میں ایک راوی ابان بن ابی عیاش ضعیف ہے مجمع الزوائد : ۹۳ – ۴ )

امام ابن جوزی متوفی ۵۹۷ھ نے لکھا ہے کہ حدیث میں ہے : رمضان میں مومن کا رزق زیادہ کردیا جاتا ہے اور رمضان کے ہر دن میں ایک ہزار گناہ گاروں کو دوزخ سے آزاد کردیا جاتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ آپ بھی رمضان میں زیادہ سخاوت کر کے اللہ تعالی کے جودو کرم کی موافقت کر یں ۔ ( کشف المشکل ج 1 ص۳۴ دار الکتب العلمیہ بیروت 1424ھ )

 

رمضان میں قرآن مجید کا دور کر نے کی خصوصیت اور دیگر فوائد حدیث

 

نیز اس حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت جبریل آپ سے رمضان کی ہر رات میں ملاقات کر تے تھے اور آپ سے قرآن مجید کا دور کرتے تھے، رمضان میں قرآن مجید کے دور کی حکمت یہ ہے کہ اب تک جو احکام نازل ہو چکے تھے ان پر یقین کو تازہ کیا جائے اور تاکہ حضرت جبریل قرآن مجید کے الفاظ کی تصحیح اور تجوید کے احکام پہنچائیں تاکہ امت کے لیے بھی قراءت اور تجوید کی تعلیم حاصل کرنا سنت ہو،اور رمضان کی تخصیص اس لیے ہے کہ یہ نیکیوں اور مخصوص عبادات کا موسم ہے، نیز اس لیے کہ اللہ تعالی نے رمضان میں ہی قرآن مجید کولوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف نازل فرمایا تھا، پھر اس کے بعد حسب ضرورت اور مصلحت قرآن مجید بیس سال تک نازل ہوتا رہا( بیس سال به این معنی کہ تین سال تک وحی کا انتطاع رہا ) اس حدیث کے دیگر فوائد حسب ذیل ہیں:

(۱) ہر وقت مومن کو سخاوت کرنی چاہیے، خصوصا رمضان میں اور صالحین سے ملاقات کے وقت ۔

(۲) صالحین اور اصحاب فضل کی زیارت کرنی چاہیے اور ان کی مجلس میں بیٹھنا چاہیے اور اگر صالحین اور اصحاب فضل کا حرج نہ ہو اور ان کے مشاغل میں خلل نہ ہو تو ان کی بار بار زیارت کرنی چاہیے ۔

(۳) رمضان میں قرآن مجید کی زیادہ تلاوت کرنامسنون اور مستحب ہے اسی طرح قرآن مجید کا دور کرنا بھی مسنون اور مستحب ہے ۔

* یہ حدیث شرح صحیح مسلم : ۵۸۹۰ – ج۶ ص ۷ ۷۵ ۔ ۷۵۲ پر بھی مذکور ہے، وہاں ہم نے اس حدیث کے مفہوم کی سرسری وضاحت کی ہے اور اس کی شرح میں ہم نے یہاں پر جومباحث ذکر کیے ہیں وہاں ان میں سے کسی چیز کا ذکر نہیں ہے۔