مرشد:

مرشد ایک اہم قرآنی اصطلاح ہے۔ اس کا ماخذ رشد ہے قرآن پاک میں اس کے متعدد مشتقات بیان ہوئے ہیں۔ یہ لفظ دانائی، عقل و فہم، نبوت و رسالت اور ہدایت ربانی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جب اس کی نسبت اللہ کی جانب سے عطائے رشد کی طرف ہو اس سے مراد نبوت ہوتی ہے۔ دوسری صورت میں اس کا مفہوم ایسے عقل و شعور اور دانائی کا ہے جو حقیقی ہدایت سے استفادہ کا مفہوم لئے ہوئے ہے۔ اللہ کے وہ نیک بندے جو اللہ و رسول کی اطاعت اور اتباع رسالت سے ایسا مقام حاصل کر لیں کہ سراپا ہدایت بن جائیں انہیں مرشد کہا جاتا ہے۔

1۔ من يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا ﴿١٧ الكهف﴾

2۔ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ﴿١٨٦ البقرة﴾

3۔ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٥٦ البقرة﴾

4۔ وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ ﴿٥١ الأنبياء﴾

اس انتہائی باوقار، سنجیدہ اور بامعنی قرآنی اصطلاح کو بڑی بے دردی سے غلط استعمال کرنے کا رواج عام ہو چلا ہے۔ لوگ بدکردار، غیر معیاری، دروغ گو سیاست دانوں کے لئے بھی یہ اصطلاح استعمال کر رہے۔

پاکستانی سیاست دان چاہے کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں معیاری رہ نما تو کیا ایک معیاری، شائستہ، قابل عزت انسان کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔ انہیں مرشد کے لفظ سے یاد کرنا افسوس ناک ہے۔ میری رائے میں اس رواج کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔

(صاحب زادہ احمد ندیم)