حدیث رسولﷺ دین پر ثابت قدم رہنے والا اور دشمن پر غالب رہنے والا گروہ فلسطینی ہے
حدیث رسولﷺ دین پر ثابت قدم رہنے والا اور دشمن پر غالب رہنے والا گروہ فلسطینی ہے
تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی
مسند احمد میں روایت ہے
قال أبو عبد الرحمن: وجدت في كتاب أبي بخط يده: حدثني مهدي بن جعفر الرملي، حدثنا ضمرة، عن السيباني واسمه يحيى بن أبي عمرو، عن عمرو بن عبد الله الحضرمي، عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” لا تزال طائفة من أمتي على الدين ظاهرين لعدوهم قاهرين لا يضرهم من خالفهم إلا ما أصابهم من لأواء حتى يأتيهم أمر الله وهم كذلك “. قالوا: يا رسول الله وأين هم؟ قال: ” ببيت المقدس وأكناف بيت المقدس “
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ قیامت تک دین پر ثابت قدم اور دشمن پر غالب رہے گا، ان سے اختلاف کرنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، سوائے اس کے کہ انہیں کچھ معاشی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے گا اوروہ اسی حالت پر ہوں گے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ بیت المقدس اور اس کے گرد و نواح میں ہوں
[مسند احمد برقم: 22320]
اس روایت کو امام طبرانی نے بھی اپنی مسند میں روایت کیا ہے
حدثنا يحيى بن عبد الباقي الأذني، ثنا أبو عمير عيسى بن محمد بن إسحاق النحاس , ثنا ضمرة بن ربيعة، عن يحيى بن أبي عمرو السيباني، عن عمرو بن عبد الله الحضرمي، عن أبي أمامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين على من يغزوهم , قاهرين لا يضرهم من ناوأهم حتى يأتيهم أمر الله وهم كذلك» قيل: يا رسول الله وأين هم؟ قال: «هم ببيت المقدس»
مسند احمد کے حاشیہ میں محدث شعیب الارنووط اپنا موقف دیتے ہوئے بیان کرتےہیں :
———-
(1) حديث صحيح لغيره دون قوله: “قالوا: يا رسول الله، وأين هم … إلخ”، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمرو بن عبد الله السيباني الحضرمي، فقد تفرد بالرواية عنه يحيى بن أبي عمرو السيباني، ولم يوثقه غير ابن حبان والعجلي. ضمرة: هو ابن ربيعة الفلسطيني.
اور اسکے بعد تفصیلی اس روایت کی تخریج اور دوسرے حوالے ذکر کرتے ہیں
انکے حاشیہ کا لب لباب یہی ہے جو اوپر نقل کر چکے ہیں کہ انکے بقول :
” یہ حدیث صیح لغیرہ ہے لیکن جو قول ہے رسول ﷺ سے فرمایا گیا کہ وہ لوگ کہاں ہونگے تو انہوں نے جو آگے جواب دیا اس متن کی سند ضعیف ہےکیونکہ اس میں عمرو بن عبداللہ السیبانی الحضرمی موجود ہے
جسکا تفرد ہے اس سے بیان کرنے والے یحییٰ بن ابی عمرو السیبانی ہیں
اور اس (عمرو بن عبداللہ ) کی توثیق سوائے ابن حبان کے الثقات میں اور ابن عجلی کے الثقات میں کرنے کے علاوہ اور کوئی نہیں کرتا اسکی توثیق ۔ اور سند الضمرہ سے مراد ابن ربیعہ الفلسطيني.
[مسند الشاميين برقم: 860]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی موقف علامہ البانی کا ہے انہوں نے بھی روایت کے علاوہ ان الفاظ کو تفرد کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے
اس روایت کو عمرو بن عبداللہ السیبانی الحضرمی کو مجہول قرار دینے میں محدث شعیب الارنووط اور علامہ البانی کا موقف ایک جیسا ہے
جیسا کہ علامہ البانی صاحب لکھتے ہیں :
قالوا: وأين هم؟ قال:
ببيت المقدس وأكناف بيت المقدس “. رواه عبد الله بن الإمام أحمد في ” المسند
” (5 / 269) فقال: وجدت في كتاب أبي بخط يده: حدثني مهدي بن جعفر الرملي
: حدثنا ضمرة عن الشيباني – واسمه يحيى بن أبي عمرو – عن عمرو بن عبد الله
الحضرمي عن أبي أمامة مرفوعا. ورواه الطبراني في ” الكبير ” (7643) من طريق
أخرى عن ضمرة بن ربيعة به. وهذا سند ضعيف لجهالة عمرو بن عبد الله الحضرمي،
قال الذهبي في ” الميزان “: ” ما علمت روى عنه سوى يحيى بن أبي عمرو الشيباني
“.وذكره ابن حبان في ” الثقات ” على قاعدته التي لم يأخذ بها جمهور العملاء
ولذلك لم يوثقه الحافظ في ” التقريب ” وإنما قال: ” مقبول ” أي لين الحديث.
وبقية رجال الإسناد ثقات، وفي ” المجمع ” (7 / 288) : ” رواه عبد الله
وجادة عن خط أبيه، والطبراني، ورجاله ثقات “. كذا قال وفيه وما علمت عن حال الحضرمي
اور انﷺ سے کہا گیا کہ وہ لوگ کہاں ہونگے تو نبیﷺ نے فرمایا بیت المقدس میں اور اسکے اطراف میں
اسکو روایت کیا ہے عبداللہ بن امام احمد نے مسند میں
اور کہا کہ میں نے اپنے والد کی کتاب جو انکے ہاتھ سے لکھی ہوئی تھی لیا ہے وہ کہتے ہیں مجھے بیان کیا ہے مھی بن جعفر الرملی نے
وہ کہتا ہے مجھے بیان کیا ہے ضمرہ نے شیبانی نے جسکا نام ہے یحییٰ بن ابی عمرو وہ عمرو بن عبداللہ الحضرمی کے حوالے سے ابی امامہ سے مرفوعا بیان کرتے ہیں
اور اسکو طبرانی نے بھی اپنی کبیر میں بیان کیا ہے اپنے طریق سے جس کے آخر میں ضمرہ بن ربیعہ ہے اور یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں بھی عمرو بن عبداللہ الحضرمی کی جہالت واقع ہے
امام ذھبی میزان میں اسکے بارے کہتے ہیں کہ میں اس کے بارے کچھ نہیں جانتا کہ سوائے اس سے یحییٰ بن ابی عمرو الشیبانی بیان کرتے ہیں
اور ابن حبان نے اسکو ثقات میں درج کیا ہے اور انکا جو قائدہ ہے اس سے جمہور نے توثیق پر اعتبار نہیں کیا ان پر
اور اسی لیے حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اسکی توثیق نہیں کی ہے جیسا کہ وہ تقریب میں کہتے ہیں مقبول ہے یہ یا لین الحدیث (جیسا کہ انکا مقبول کا منہج ہے)
اور اس روایت کے بقیہ رجال ثقات میں ے ہیں اور مجمع الزوائد میں ہے کہ” عبداللہ بن جادہ نے خط سے اپنے والد سے اور طبرانی نے بیان کیا ہے اور اسکےرجال ثقات ہیں ”
جبکہ وہ یہ کیسے کہتے ہیں جبکہ اس میں الحضرمی ہےجسکے علم کے حال کا پتہ نہیں۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها برقم : 1958]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الغرض اس روایت کی سند میں فقط ایک علت ہے کہ
عمرو بن عبداللہ الحضرمی کی توثیق چونکہ عجلی اور ابن حبان کے علاوہ کسی نے نہیں کی اور نہ ہی ابن حجر نے انکی توثیق پر اعتماد کیا کیونکہ ابن حبان کا منہج الثقات کا جمہور کے خلاف ہے اور امام عجلی فقط تابعین کی توثیق میں متساہل ہیں عندالمحققین ۔
اب اس اعتراض کا جواب ہم پیش کرتے ہیں اللہ کے فضل سے !!!!
یہاں تک یہ ثابت ہو گیا کہ اس راوی کی توثیق میں
■1-امام عجلی ہیں
جیسا کہ وہ فرماتے ہیں :
عمرو بن عبد الله الحضرمي: “شامي”، تابعي، ثقة
[الثقات العجلی ]
اور
■2-امام ابن حبان ہیں (نوٹ فقط الثقات میں راویان کو درج کرنے میں ابن حبان منہج کی وجہ سے متساہل تصور ہوتے ہیں )
جیسا کہ لکھتے ہیں :
أبو عبد الجبار اسمه عمرو بن عبد الله الحضرمي يروي عن أبي هريرة روى عنه يحيى بن أبي عمرو السيباني
[الثقات ابن حبان برقم : 4458]
■3- ضمنی توثیق امام حاکم سے (نوٹ: مستدرک کی ایسی ضمنی توثیق کو دلیل نہیں بنایا جاتا البتہ موفقت میں ضرور بیان کیا جا سکتا ہے )
امام حاکم میں مستدرک میں ان سے روایت بیان کرکے روایت کو صحیح الاسناد کہتے ہیں۔
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 8317 – صحيح
《《نوٹ: امام ذھبی چونکہ میزان میں فرماچکے ہیں کہ وہ اس راوی کے بارے میں لا علم ہیں تو امام ذھبی کا تعلیق میں یہاں روایت میں امام حاکم کی موفقت میں صحیح کہنا انکے تسامح پر محمول ہوگا 》》
■4-اور امام ابو داود نے ان سے اپنی السنن میں روایات بیان کر کے سکوت کیا ہے جیسا کہ انکے بارے محدثین کا یہ اصول ہے کہ جس روایت پر وہ سکوت کریں وہ انکے نزدیک مقبول روایت ہوتی ہے
اور امام ابی داود اپنی سنن میں اس راوی سے روایت بیان کرتے ہیں اور سکوت کرتے ہیں :
حدَّثنا إسحاقُ بن إبراهيمَ الدمشقيُّ أبو النضرِ، حدَّثنا محمدُ بن شُعيبٍ، أخبرني أبو زُرعةَ يحيي بن أبي عَمرو السَّيباني، عن عمرو بن عبد الله أنه حدَّثه عن واثِلةَ بنِ الأسْقَع، قال: نادَى رسولُ الله -صلَّى الله عليه وسلم ۔۔۔ الخ
[سنن أبي داود برقم : 2676]
اس لیے امام مزی اپنی تہذیب الکمال میں راویان کے تراجم میں امام ابو داود کا ان سے روایت لینے کو بطور خاص ذکر کرتے ہیں
جیسا کہ وہ فرماتے ہیں :
عمرو بن عبد الله السيباني ، أبو عبد الجبار
روى عن: ذي مخمر الحبشي، وعمر بن الخطاب، وعون ابن مالك الأشجعي (د) ، وواثلة بن الأسقع (د) ، وأبي أمامة الباهلي (د) ، وأبي هريرة.
روى عنه: يحيى بن أبي عمرو السيباني (د) .
ذكره ابن حبان في كتاب “الثقات
روى له أبو داود.
[تھذیب الکمال للمزی برقم : 4403]
■5-لیکن پانچویں ناقد اس راوی کی صریح توثیق کرنے والے ہیں و ہ بھی امام ابن حبان ہیں
جیسا کہ وہ اپنی دوسری تصنیف میں لکھتے ہیں :
أبو عبد الجبار صاحب أبى هريرة اسمه عمرو بن عبد الله الحضرمي كان متقنا
ابو عبدالجبار اصحاب ابی ھریرہ ہیں انکا نام عمرو بن عبداللہ الحضرمی ہے اور یہ متقن تھے
[مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار، برقم : 906]
تو پس ثابت ہوا کہ
امام ابن حبان کا انکو الثقات میں شامل کرنا انکے انکے شاذ منہج کے حوالے سے نہ تھا
کیونکہ انہوں نے اپنی دوسری تصنیف میں صریح طور پر متقن کہہ کر توثیق کر دی ہے اگر اس کتاب میں اس راوی پر توثیق ثابت نہ ہوتی تو پھر امام ابن حبان کا اسکو الثقات میں شامل کرنا اس راوی کو کوئی خاص فائدہ نہ دیتا ۔۔
■جیسا کہ تقریب التہذیب میں محدث شعیب الارنووط جو کہ اس راوی پر اما م ابن حجر عسقلانی کی طرف سے مقبول یعنی مستور کے درجہ کا حکم بھی قبول نہیں کرتے تھےبلکہ اسکو مجہول قرار دیا تقریب کے حاشیہ میں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :
عمرو بن عبد الله السيباني، أبو عبد الجبار، ويقال: أبو العجماء، الحضرمي، الحمصي: مقبول، من الثالثة، وفرق الدولابي وأبو أحمد بين أبي عبد الجبار وأبي العجماء، فلم يذكرا لأبي العجماء اسما. د
(شعیب الارنووط ) : • بل: مجهول،
[تحریر تقریب التہذیب برقم : 5068]
لیکن جب علامہ محدث شعیب الارنووط ابن حبان کی دوسری تصنیف پر اس راوی کی صریح توثیق پر مطلع ہوئے تو انہوں نے اپنے پہلے موقف سے رجوع کر لیا ۔
■جیسا کہ السنن ابی داود کے حاشیہ میں عمرو بن عبداللہ الحضرمی کے بارے موقف دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
—————-
(1) إسناده حسن. عمرو بن عبد الله -وهو السيباني الحضرمي الحمصي – روى عن عمر بن الخطاب وذي مخمر وعوف بن مالك الأشجعي وواثلة بن الأسقع وأبي هريرة وأبي أمامة وكلهم صحابة، وذكره ابن حبان في “الثقات”، وقال في “مشاهير علماء الأمصار”: كان متقناً. ووثقه العجلي، وباقي رجاله ثقات. محمد بن شعيب: هو ابن شابور الدمشقي.
اس روایت کی سند حسن ہے
عمرو بن عبداللہ جو ہے وہ السیبنی الحضرمی ہے جو کہ حضرت عمر بن خطاب سے روایت کررہا ہے عوف بن مالک اور واثلہ اور ابی ھریرہ ، ابی الملہ سے اوریہ سب صحابی رسولﷺ ہیں
ابن حبان نے انکےبارے اپنی الثقات میں ذکر کیا ہے اور مشاھیر علماء میں کہا ہے کہ یہ متقن تھے ۔
اور اسکے علاوہ امام عجلی نے بھی انکو ثقہ قرار دیاہ ے اور باقی اس روایت کے رجال ثقہ ہیں ۔ محمد بن شعیب جو ہے وہ ابن شابور الدمشقی ہے
[اسنن ابی داود ذیل برقم : 2676]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
《●خلاصہ تحقیق●》
تو اس ساری تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے حسن ہے اور عمرو بن عبداللہ کی صریح توثیق کرنے والو ں میں
امام عجلی
امام ابن حبان (جو کہ الثقات کے علاوہ ہے اور دوسری کتب میں صریح توثیق میں وہ متشدد ناقد ہیں جیسا کہ محدثین نےانکی تشددید کا ذکر کیا ہے )
اور ضمنی توثیق میں
امام حاکم
امام ابی داود ہیں
اتنی توثیق سے یہ راوی صدوق درجہ سے بالکل نیچے نہیں گرتااور جن راویان نے ابن حبان کی توثیق قبول نہیں کی اور الثقات کا حوالہ دیکر نہیں کی
اور اس روایت کے متن سے ثابت ہو اکہ نبی اکرمﷺ نے فلستین کے مسلمانوں کے لیے کہا کہ یہ سب سے زیادہ دین پر ثابت قدم ہونگے اور پوری دنیا نے دیکھ بھی لیا کہ کس طرح رمضان کی ستایسویں کی رات کو جب ان پےگولیاں چلتی رہیں تراویح میں توکسی نے اپنی نماز نہ توڑی بلکہ شہادت قبول کی ۔۔ اور آج بھی انکے بچے ہاتھوں میں پتھر لیکر دشمنان اسلام سے لڑتے ہوئے شہید ہو رہے
وللہ انکا پتھر ان بیغرت مسلمانوں کے ہتھیار سے کہیں زیادہ عظمت والا ہے جسکو شو پیش بنا کر سب گونگے بہر ے ہیں اور بظاہر یہ ہتھیار کے اعتبار سے کمزور نظر آنے والے ہیں لیکن نبی اکرمﷺ کا جو فرمان ہے کے یہ دشمن پر غالب رہیں اس سے مراد انکا مقابلہ کرنا ہے کہ انکی نسلیں کبھی یہود کا ڈر خود پر حاوی نہ کرینگے بلکہ اپنے ہمت اور بہادری سے یہ ہمیشہ غالب رہینگے اور اپنی نسل تا قیامت چلاتے رہینگے
اور بیت المقدس کے ارد گر د قریب جو ممالک ہیں انکی عوام میں کچھ ایسے لوگ ہیں یا تو وہ کچھ ہجرت کرنے والے ہیں یا فلسطینی عقائد رکھنے والے اور انہی کے موافق ہونگے ۔
تحقیق:دعاگو حادم الحدیث اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
