کیا پدی کیا پدی کا شوربا ۔۔۔۔۔۔۔۔

وادی رضا کی کوہِ ہمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھیے وہ علاقہ رضا کا ہے

یہ وقت بھی آنا تھا کہ بہار _ چمنستان _ سنیت اعلیحضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ایک چمن_ بے زار بکواسات کرے گا اور آپ کے آفاقی ترجمہ قرآن” کنزالایمان ” کے بلاغی پہلوؤں سے صرف نظر کر کے اس میں اعتراضات کرے گا ۔ سنیت کے اس امام ہمام پر تحریفات کے الزامات وہ شخص دھرے گا جو کل تک سنیت کے نام پر سادہ لوح عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات کے ساتھ کھیلتا رہا اور خود کو مسلک اعلیٰحضرت کا ٹھیکیدار سمجھتا رہا۔ محرمیوں کا شکار یہ شخص خود کو محب اہلبیت ثابت کرنے اور سادات کرام کا منظور نظر بننے کے لیے کتنے اکابر اہل سنت علماء ومشائخ پر ناصبیت اور خارجیت کے فتوے لگا چکا ہے، سنیت کے لبادے میں یہ شخص راف_ ضیت کو فروغ دینے اور اہل سنت کا شیرازہ بکھیرنے میں پیش پیش ہے۔ محبت اہل بیت کے خوش کن نعروں میں کتنے سیدھے سادھے سادات کرام اور عوام اہلسنت کو دھوکا دے چکا ہے۔ ان سے پیسہ بٹورنے اور پروٹوکول لینے کے چکر میں اہل سنت کے متفقہ عقائد و مسلمہ نظریات کے پرخچے اڑا چکا ہے۔ اہلسنت کے اکابر علماء ومشائخ اور صحیح العقیدہ سادات کرام نہ تو اس کے قلم سے محفوظ ہیں اور نہ ہی اس کی زبان سے۔ دفاع _ اہلبیت کے نام پر اس بد عقیدہ شخص کی ہر تحریر میں اہل سنت علماء ومشائخ کے متعلق انتہائی گھٹیا اور سطحی زبان استعمال کی گئی ہوتی ہے۔

گزشتہ دنوں پنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب سرخ لحیہ خطیب نے قرآن حکیم کی صریح معنوی تحریف کی ۔اس پر علمائے اہلسنت نے جب بر وقت اس کی خبر لی تو موصوف نے ایک مختصر رجوع نامہ تحریر کیا۔ جس میں ادھر ادھر کی باتیں تو تھیں لیکن رجوع لفظی داؤ پیچ کے نذر ہو گیا کیونکہ کسی بھی بات سے رجوع تب ثابت ہوتا ہے جب اس بات کو صراحت سے ذکر کر کے رجوع کیا جائے۔ یہاں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
ایمان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ تمام آستانے ، علمی ادارے اور موصوف کے دیوانے جو اپنی محافل میں موصوف کو بلا کر سٹیج کی زینت بناتے ہیں ، ان کے اشارہ ابرو پر مرمٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔۔۔۔۔ شدید احتجاج کرتے اور اس صریح تحریف پر توبہ کراتے لیکن افسوس صد افسوس! حق پرستی پر شخصیت پرستی غالب آ گئی ہے۔ حفاظت قرآن کے لیے ان کی طرف سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی بلکہ موصوف کی اس تحریف کو جواز فراہم کرنے کے لیے غالی عقیدت مند میدان میں اترے اور علمائے اہلسنت پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی ۔ ان غالی عقیدت مندوں میں یہ خزاں رسیدہ چمن بھی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کوئی تحقیقی جواب دیتا۔ متقدمین مفسرین اور کلام عرب سے چلو اس تحریف نہ سہی ” الہامی تفسیر ” کے ثبوت پر امثلہ و نظائر پیش کرتا۔ لیکن افسوس اس شخص سے یہ تو نہ ہو سکا البتہ اکابر علماء پر چڑھ دوڑا اور سیدھا امام اہلسنت اعلیٰحضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان محدث بریلی رحمۃ اللہ کے ترجمہ قرآن کنزالایمان پر حملہ کیا اور ایک کتابچہ “لکھ مارا”-
کیا پدی کیا پدی کا شوربا
سچ کہا گیا ہے جب باطل سے جواب نہ بن پائے تو وہ گالم گلوچ پر اتر آتا ہے ۔
میں اس “کتوبچے ” پر سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد حیران رہ گیا اور سوچنے لگا کہ واقعی یہ جاہل شخص ہے یا اعلیحضرت اور سنیت کے بغض میں تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہا ہے؟ کیا اسے معلوم نہیں ہے کہ کنز الایمان شریف میں صرف لفظی ترجمہ نہیں کیا گیا ۔ سینکڑوں متقدمین تفاسیر کا نچوڑ با محاورہ ترجمہ یا مرادی معنی کی صورت میں زیر آیات قرآنیہ درج کر دیا گیا ہے اور ایک ترجمہ کے لیے جو لوازمات ہوتے ہیں وہ بھی بحسن و خوبی اس میں یکجا نظر آتے ہیں۔ یہی تو اس ترجمہ کا طرہ امتیاز ہے؟
کیا اس رافضی نواز کو بلاغت کے قواعد ایجاز و حذف کی خبر نہیں ہے؟ اگر ہمت ہے تو ایک حوالہ اپنے ممدوح کی تحریف پر کہیں سے پیش کر دے۔ ان شاءاللہ قیامت تک پیش نہیں کر سکے گا۔
وہ رضاؔ کے نیزہ کی مار ہے کہ عَدُوّ کے سینہ میں غار ہے
کسے چارہ جوئی کا وار ہے کہ یہ وار وار سے پار ہے

صاحبزادہ ڈاکٹر عبدالسلام ثمر