بینک کی ملازمت
{بینک کی ملازمت}
سُود میں خود ملوث اور مبتلا ہونا ہی گناہ نہیں ہے بلکہ اس کے کاروبار میں ممدو معاون ہونا بھی معصیت ہے۔یوں تو تمام ہی گناہ کے کاموں میں اعانت ناپسندیدہ ہے۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’لاتعاونو اعلی الاثم والعدوان ‘‘ لیکن خصوصیت سے سود کے متعلق آپ ﷺکی صراحت موجود ہے ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :رسول اﷲ ﷺ نے سود کھانے اور کھلانے والے اور اس کے کاتب نیز گواہوں سبھی پر لعنت کی ہے اور فرمایا کہ وہ سبھی برابر ہیں ۔(صحیح مسلم)
یہاں سود کے لکھنے والوں اور گواہوں پر حضور ﷺ کی لعنت سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس میں آدمی کسی ذمہ دارا نہ عہدہ پر فائز ہو یا سودی معاملات لکھنے پڑتے ہوں جائز نہیں ہے، اس لیے کہ ان کی حیثیت ربوٰ کے کاتبین اور گواہوں کی ہوگئی اور ان کو حضور ﷺ نے نہ صرف یہ کہ ملعون قرار دیا ہے بلکہ سود خوروں کے مساوی قرار دیا ہے ۔
ہاں ایسی ذمہ داریاں جن کا تعلق براہ راست کاروبار سے نہ مثلاً چپراسی وغیرہ کا کام کرنا جائز ہوگا۔یہ تو اصل حکم ہے لیکن ایسے شخص کے لئے جو معاشی اعتبار سے بالکل مفلوج ہو،کوئی دوسری ملازمت اور ذریعۂ معاش حاصل نہ ہو اور ملازمت ترک کردے تو فاقہ کا اندیشہ ہو ایسے ملازمین بینک کو چاہئے کہ وہ موجودہ ملازمت پر قانع ہونے کی بجائے مستقل متلاشی اور کوشاں رہیں کہ کوئی دوسرا بہتر اور پاک ذریعہ معاش حاصل ہو جائے۔موجودہ ملازمت سے دل میں کراہت محسوس کریں اور جب تک متبادل نظم نہ ہوجائے ایک مجبوری کے بطور اسے کرتے رہیں اس لیے کہ اگر وہ یہ ملازمت یک قلم ترک کردیں اور کوئی دوسری صورت سامنے نہ ہو تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ فقر و افلاس ان کو کسی اور گناہ میں مبتلا کردے۔
البتہ یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو اقتصادی اعتبار سے بالکل مجبور و بے بس ہوں نہ یہ کہ تعیش اور راحت طلبی مقصود ہو۔وَاللّٰہُ یَعْلَمْ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ