حضرت امام ابوحنیفہ تابعی اور ظہیر امن پوری کی خیانتیں
حضرت امام ابو حنیفہ تابعی!
اور ظہیر امن پوری کی خیانتیں!!!
امن پوری میاں لکھتا ہے:
امام ذھبی نے آپکو رویتہ تابعی مانا ہے۔ لیکن اس قول کی سند “باطل” ہے۔
کیونکہ سیف بن جابر کے حالات معلوم نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں امن پوری نے بریک واردات ڈالی ہے!
سند میں رولا ڈال دیا کہ فلاں راوی کے حالات معلوم نہیں۔
لیکن یہ بندہ امام ابو حنیفہ کے بغض میں یہ اصول بھول گیا کہ جب امام ذھبی جیسے ناقد نے اس قول کو “صحیح” کہہ دیا ہے تو پھر سند کے کسی راوی کی صریح توثیق ملے یا نہ ملے تو کیا ضمنی توثیق ثابت نہیں ہو جائے گی؟
یعنی ایک طرف اسی ضمنی توثیق کے اصول پر بخاری کی جز رفع الیدین پوری کتاب مانتے پھرتے ہیں۔
اور دوسری طرف ایک قول کے لیے ضمنی توثیق کے اصول کو نظر انداز کر دیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام ابو حنیفہ کا قول “میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے” اس قول و سند کی تصحیح و تحسین
امام ذھبی
و
امام ابن حجر عسقلانی سے ثبوت!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے تصحیح امام ذہبی سے کی جس کا ثبوت یہ ہے:
فَإِنَّهُ صَحَّ أَنَّهُ رَأَى أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ إِذْ قَدِمَهَا أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ: حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ جَابِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا حَنِيفَةَ، يَقُولُ: رَأَيْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
یہ صحیح ہے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس بن مالک کو دیکھا ہے جب سیدنا انس رضی اللہ عنہ (کوفہ ) میں آئے۔
امام محمد بن سعد کہتے ہیں کہ ہم سے سیف بن جابر نے بیان کیا کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ سے سنا کہ انہوں کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔
[مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه، ص 4]
ایسے ہی بات امام ذہبی نے تاریخ الإسلام (ج9، ص 306) اور سیر اعلام النبلاء (ج6، 391) میں کی ہے۔
امام ابن حجر عسقلانی سے اس قول کی تحسین:
امام سیوطی نے امام ابن حجر عسقلانی سے ایک فتوی بھی لکھا ہے جس میں امام ابوحنیفہ کے سیدنا انس بن مالک سے رویت (دیکھنے) والے قول کی سند کو “لاباس بہ” کہا ہوا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
وقد أورد ابن سعد بسند لا بأس به: أن أبا حنيفة رأى أنسا
اور بے شک امام ابن سعد نے لاباس بہ سند سے روایت کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے۔
[تبييض الصحيفة للسیوطی، ص 34]
خیر موجودہ مطبوع امام محمد بن سعد کاتب واقدی کی کتاب “طبقات الکبری” میں یہ روایت موجود نہیں ہے لیکن امام ابواحمد حاکم کبیر کی سند سے یہ روایت ملتی ہے جو امام ابن سعد سے ہی روایت ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
امام ابو احمد حاکم کبیر کہتے ہیں:
حدثني أبو بكر بن أبي عَمْرو المعدل ببخارى، حدثني أبو بكر عبد الله بن محمد بن خالد القاضي الرازي الحبال الشيخ المحدث قال: حَدَّثني عبد الله بن محمد بن عبيد القرشي المعروف بابن أبي الدنيا، حَدَّثنا محمد بن سعد الهاشمي صاحب الواقدي، حَدَّثنا أبو الموفق سيف بن جابر قاضي واسط، قال: سَمِعتُ أبا حنيفة يقول: قدم أنس بن مالك الكوفة ونزل النخع … قد رأيته مرارا
[الأسامي والكنى، ج 4، ص 176]
امام سخاوی کی کتاب میں بھی امام ابن حجر عسقلامی کا قول موجود ہے تھوڑے مختلف الفاظ کے ساتھ ۔
امام سخاوی نے امام ابن حجر عسقلانی کی سیرت پر مشہور تصنیف بنم الجوھر الدرر کے نام سے لکھی اس میں امام ابو حنیفہ کے تابعی ہونے کے حوالے سے امام ابن حجر عسقلانی سے پوچھے گئے سوال کے بارے لکھتے ہیں :
وسأله بعض الحنفيَّة عن عِدَّة مَنْ لقي أبو حنيفة رحمه اللَّه مِنَ الصَّحابة رضي اللَّه عنهم، فقال: أنسٌ فقط،
اور بعض احناف نے امام ابو حنیفہ کا صحابہ سے ملاقات کے بارے سوال کیا تو (امام ابن حجر) نے کہا فقط حضرت انس ؓ (کو دیکھا) ہے
[الجواهر والدرر في ترجمة شيخ الإسلام ابن حجر، جلد ۳، ص ۹۸۶]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اعتراض اگر یہ کیا جائے کہ امام دارقطنی نے امام ابو حنیفہ کا حضرت انس رضی اللہ کو دیکھنے و سماع کی نفی کی ہے۔
تو عرض ہے یہ بات امام خطیب بغدادی نے بھی تسلیم نہیں کی ہے۔
جیسا کہ یہ قول امام خطیب نے تاریخ بغداد میں نقل کی ہے امام دارقطنی سے
لیکن وہ امام ابو حنیفہ کے ترجمہ کے شروع میں ہی یہ بات کہہ دی کہ
ابو حنیفہ امام اہل الرائے ” رائ انس بن مالک”
ابو حنیفہ یہ اہل رائے کے امام ہیں انہوں نے حضرت انس کو دیکھا ہے
[تاریخ بغداد]
دوسری طرف امام دارقطنی نے یہ دعویٰ دوسرے امام
ابو حنیفہ کے ہم عصر اھل رائے عثمان البتی کے لیے بڑے دھڑلے سے کر رکھا ہے
جیسا کہ امام دارقطنی کہتے ہیں :
عُثْمان البَتِّيّ هو عُثْمان بن مُسْلم بن هرمز رأى أنس بن مالك
عثمان البتی جو کہ عثمان بن مسلم بن ھرمز ہے انہوں نے حضرت انس کو دیکھا ہے
[المؤتَلِف والمختَلِف ٍص۲۷۰]
جبکہ عثمان بتی بھی امام شعبی کا شاگرد ہے اور ان سے روایت کرنے والوں میں امام شعبہ و ثوری ہیں
اور اسی طبقہ کے امام ابو حنیفہ ہیں امام ذھبی کہتے ہیں انہوں نے بیان بھی کیا ہے حضرت انس سے انکی وفات ۱۴۳ھ میں ہوئی جبکہ کتب حدیث میں انکا لقاء ثابت ہی نہیں حضرت انس سے ۔ لیکن امام دارقطنی انکا دیکھنا پتہ نہیں کس دلیل کی بنیاد پر قبول کر لیا اور امام ابو حنیفہ کے بارے بڑی شد ومد سے دیکھنے کی نفی کر دی ۔
امام دارقطنی امام ابو یوسف کو اندھوں میں کانہ بھی کہتے تھے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام دارقطنی کا یہ قول حفاظ کے نزدیک کیا حیثیت رکھتا ہے ۔
اور یہ بھی ممکن ہے مذکورہ قول جو امام ابو حنیفہ نے فرمایا امام دارقطنی تک یقینن نہ پہنچا ہوگا۔
نیز امام دارقطنی کے منہج پر ہی محمد بن سعد والی روایت بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ امام سخاوی نے فتح المغیث میں امام دارقطنی کا منہج لکھتے ہیں
وعبارة الدارقطني: ” من روى عنه ثقتان فقد ارتفعت جهالته، وثبتت عدالته.
اور دارقطنی کی عبارت ہے : جس (راوی) سے دو ثقہ راویان بیان کر دیں تو اسکی جہالت ختم ہو جاتی ہے اور اسکی عدالت ثابت ہو جاتی ہے
[فتح المغيث ج،۲ ص ۵۴]
اور قاضی سیف بن جابر سے ان سے روایت کرنے والوں میں :
ابن سعد الزهري
إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَهْلٍ الْمَدَائِنِيُّ ،
لُقْمَان بن عبد الله السمرقندي،
کے نام ملتے ہیں :
یہی وجہ ہے کہ انکے سید المحدثین کی کتاب السنن کو وہ شہرت نہیں ملی کیونکہ جتنے تشدد سے یہ دوسروں کی کتب کے راویان پر جرح کرتے اتنے ہی تساہل سے انہوں نے السنن لکھی جسکو زیادہ پسند نہیں کیا گیا
یہی وجہ ہے کہ امام داقطنی کو امام ذھبی نےمتساہل قرار دیا ہے بعض اوقات
اور انکی سنن دارقطنی کے بارے امام ذھبی کی رائے :
ایک روایت جسکی تخریج امام دارقطنی نے اپنی سنن میں کی ہے اسکو مختلف اسناد سے نقل کرتے ہیں۔
ان روایات کو نقل کرنے کے بعد امام ذھبی فرماتے ہیں :
والكلُّ منَ الدارقطنيُّ، فهوَ مجمع الحشراتِ.
اور یہ سب (روایات) امام دارقطنی کی طرف سے ہے (انکی سنن)جو کہ کیڑوں کا مجموعہ ہے
[تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق، ص۲۵۷]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی امام خطیب نے بھی امام دارقطنی کے مبھم دعوی کو تسلیم نہیں کیا۔
نہ ہی امام ذھبی اور نہ ہی امام ابن حجر عسقلانی بلکہ ابن جوزی نے بھی تسلیم کیا کہ امام ابو حنیفہ نے حضرت انس کو یقینن دیکھا ہے۔
تو رویتہ امام ابو حنیفہ تابعی ہیں۔ جبکہ انکا روایت کرنا ثابت نہیں کسی صحابی سے ۔
اگر وہابی ضمنی توثیق کے اصول کی نفی کرینگے تو انکے ہاتھ سے امام بخاری کی جز رفع الیدین اڑتی ہے کیونکہ اسی اصول کی بنیاد پر زبیر زئی نے امام ابن حجر عسقلانی سے جز رفع الیدین کے بنیادی راوی کی ضمنی توثیق پیش کی تھی۔
تحقیق: اسدالطحاوی

