اگر یہ قوم صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو دیکھ لیتی!
افتخار الحسن رضوی
فرض کریں، موجودہ ہندوستانی و پاکستانی پیر پرست حضرات کو موقع مل جائے، اور یہ صحابہ کرام، اہل بیت، تابعین، قرنِ اولٰی کے اولیاء و صالحین رضی اللہ عنہم اجمعین کو دیکھ لیں!!!
یہ انہیں صحابی مانیں گے نہ ولی۔۔۔ کیونکہ ان کے پاؤں میں جوتے نہیں ہوں گے، اگر ہوں گے تو گھسےِ ہوئے، کپڑے پھٹے ہوئے، سر اور داڑھی کے بال سادہ بلکہ سفر و مصروفیت کے وجہ سے عین ممکن ہے حجامت و خط بھی نہ بنا ہو۔ عمامے رنگیلے نہیں بلکہ سادہ، یا ممکن ہے بہت ہلکے اور چھوٹے کپڑے سے بنے ہوں۔ ان کے رنگ زرد ہوں اور جسم کمزور محسوس ہوں۔ ان کی ایڑیاں پھٹی ہوئی ہوں گی، ہاتھ سخت، بازو پر زخموں کے نشان ہوں گے۔ عین ممکن ہے ان سے ملیں تو منہ سے روزے دار کے بو آئے اور یہ مرید کے نازک مزاج پر گراں گزرے۔ ان کے پاس موجودہ وقت کا کھانا بمشکل اور عین ممکن ہے اگلے وقت کا کھانا بالکل دستیاب ہی نہ ہو۔
کیونکہ، ہم ہندی و پاکی تو ٹھہرے ہائی کلاس الٹرا لگژری پیروں کے مرید۔ جن کی سوار GXR V8، رہنے کو ڈیفنس، بحریہ اور ماڈرن ہاؤسنگ سوسائیٹی۔ گھر پر دس دس خادم اور خادمائیں۔ پیر صاحب کے ہاتھ ہیں کہ گلاب و مخمل، دست بوستے ہوئے مرید کا جی چاہے کہ اسی ہاتھ کا سرہانہ بنا لوں، اس قدر نرم و ملائم دست ہائے مبارکہ ہیں پیر جی سرکار کے۔ داڑھی، حجامت اور خط بنانے کے لیے ایسے سپیشل حجام کے لندن سے Chaps & Co کے کوالیفائیڈ نائی بھی پیچھے رہ جائیں۔ پیر جی کا بستر ایسا عالیشان کے مغلیہ شاہوں کی ملکائیں اور شہزادیاں اپنی شبِ عروسی میں بھی اس سے محروم رہی ہوں گے۔ حضرت جی قدم زمین پر رکھیں تے خدام جوتے سیدھے کریں، چلیں تو آگے پیچھے اللہ اللہ کی صدائیں، نوٹوں کی بارش ، حدیث و فقہ کے درجاتِ تخصص میں پڑھنے والے طلباء پیر جی کے جوتے اٹھا کر سر پر رکھتے اور اسے اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتے ہیں۔ حجورے موتر کریں تو مرید بصد احترام اس موتر کو “بول شریف” قرار دیں۔ پیر کی داڑھی کا بال “موئے مرشد” قرار دے کر اس سے برکت بیچی جائے۔ پیر جی کی اہلیہ اس پیر کی پوری “امت ” کی مادر محترمہ قرار دی جائے اور اس مادر کی خدمت کے لیے مریدوں کی بیٹیاں، بیویاں، بہنیں اور مائیں ایک مستقل خدام کی فوج بن جائے۔ پیر جی کے کچن میں روزانہ تازہ گوشت، مچھلی، دیسی کُکڑ حلویے ،دیسی گھی، سبزیاں اور پھل موجود ہیں۔ پیر جی کے پُتر کا ولیمہ سیرینا ہوٹل میں ہوتا ہے جہاں پیرانی ماں کی پیرنی بیٹیوں اور بہوؤں کے لشکانے اور چمکانے کے لیے ملک کی مہنگی ترین کاسمیٹکس، بیوٹی اور سکن سپیشلسٹ بلائی جائیں۔

ہم ہندی و پاکی۔۔۔۔ ہمارے پیر جی غریبوں سے رشتہ نہیں کرتے، بلکہ اپنی اولادوں کے رشتے فوجی، پولیس اور سیاسی بڑوں کے گھروں میں کرتے ہیں۔ ہمارے پیر دین کا تحفظ کرنا اپنا فرض نہیں سمجھتے بلکہ ملکی سیاست اور مثبت رپورٹنگ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

کسی غریب کے ہاں اگر حادثاتی طور پر پیر جی کی تشریف آوری ہو ہی جائے تو پیر ان کے عروسی بیڈ پر تشریف فرما ہو جائے، گھر میں موجود سفید داڑھیوں والے زمین پر بیٹھیں، عورتیں پیر جی سے دست شفقت پھروائیں۔
لندن، پیرس، ایمسٹرڈیم، فرینکفرٹ اور دیگر ائیر پورٹس پر آمد کے وقت پیر جی کے ویلکم کے لیے یہ مسلمان لمبے لمبے ہار، گھانے، پھول، پرنے، رومال اور مالا لے کر ایسے جمع ہو جاتے ہیں جیسے واقعی امام حسین علیہ السلام کی آمد ہونے لگی ہے۔ عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے گورے چٹے لوگ ان مسلمانوں کی ائیر پورٹ پر حرکتیں دیکھ کر ان کی جہالت کی خوب داد دیتے ہیں۔

اے ہندی و پاکی بھائیو!
تم پیری مریدی کے چکر میں، فیض یاب ہونے کی خاطر، ولایت پانے کے لیے، دعائیں قبول کروانے کے لیے، با ادب رہنے کی خاطر اور صالحین کی نظر کرم کے چکر میں بہت کچھ کیا لیکن تم سب رسول اللہ ﷺ، اہل بیت اطہار اور اصحاب رسول رضی اللہ عنہم اجمعین کا راستہ چھوڑ دیا۔
اگر یہ ہندوستانی و پاکستانی، صحابہ کرام کو دیکھ لیتے تو یہ کبھی بھی انہیں پیر تسلیم نہ کرتے۔

افتخار الحسن رضوی
۱۶ ستمبر ۲۰۲۲
#IHRizvi