میلاد کے خلاف پہلا فتوی

مسلمانان عالم بڑے ہی تزک و احتشام سے “میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم حسب حیثیت مناتے تھے” پھر اچانک 1302ھ میں “چار ورقی” رسالہ بنام”فتوی مولود و عرس وغیرہ” مطبع ہاشمی میرٹھ سے چھَپا جس میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلا گیا
پھر کچھ ہی عرصہ بعد دوبارہ مطبع ہاشمی میرٹھ سے یہی رسالہ چوبیس صفحات میں چھپا نام” فتاوی میلاد شریف یعنی مولود مع دیگر فتاوی” جس میں کچھ لوگوں کے دستخط بھی تھے اس میں اور زیادہ موجود تھا، اہلسنت میں شدید اضطراب پیدا ہوا اہلسنت علامہ عبد السمیع بیدل رامپوری متوفی 1318ھ سے بصد اصرار جواب لکھنے کو کہا آپ نے کتاب مستطاب “انوار ساطعہ در بیان مولود و فاتحہ “رقم فرمائی جواب کیا تھا مسلمانوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دشمنان خدا و رسول پر قہر الہی پھر پیٹھ پیچھے چھپ کر وار کرنے والے میدان میں آگیے” انوار ساطعہ کے جواب میں مولوی رشید احمد گنگوہی ” نے
مولوی خلیل انبیٹھوی کے نام سے “براہین قاطعہ” لکھی جو جواب تو کم مغلظات سے زیادہ پُر تھی “یہی وجہ ہے کہ” سید قمرالدين اشرف علی گڑھی “نے اپنی کتاب” البراہین النافعہ “باب سوم صفحہ 136 تا 168 تقریباً بتیس صفحات میں “براہین قاطعہ کی تمسخر و استہزا والی عبارت کو کورٹ کیا تھا –
1304ھ میں حاجی امداد مہاجر مکی (جو صاحب انوار ساطعہ اور براہین کے پیر و مرشد ہیں) نے انوار ساطعہ کو نہ صرف پسند کیا بلکہ تقریظ بھی لکھی، حاجی صاحب لکھتے ہیں کہ” در حقیقت کتاب کا اصل مضمون اس فقیر اور بزرگان فقیر کے مذہب و مشرب کے مطابق ہے، آپ نے خوب لکھا-
صاحب انوار ساطعہ کے استاذ پایہ حرمین علامہ رحمت اللہ کیرانوی علیہ الرحمہ نے بھی تقریظ لکھی

جب حاجی صاحب کے خلفا کے درمیان نزاع بڑھا اور سمجھانے کے باوجود حق کو تسلیم نہ کیا تو انہوں نے “فیصلہ ہفت مسئلہ” نامی کتاب لکھ کر تقسیم کرنے کو دیا جسے “مولوی رشید احمد گنگوہی ” نے خواجہ حسن نظامی دہلوی کے ہاتھ جَلوا دیا، چند کتابیں خواجہ حسن نظامی نے بچا لی تھیں جو آج موجود ہیں، پتا چلا جو اپنے پیر کی کتاب کو جلوا دے، جو پیٹھ پیچھے اہلسنت کے معمولات پر حملے کرے جو اتحاد کے نام پر اہلسنت سے نفرت کرے، جو امن پسندی کا دعوی کرکے دہشت گردی کرے وہ دیو.بندی ہے
📚 انوار ساطعہ در بیان مولود و فاتحہ
📝حسن نوری گونڈوی