اعلیٰ ترین قومی منصب پہ ’’فائز‘‘ شخص کا ظرف۔۔۔صرف اتنا ؟؟؟
اعلیٰ ترین قومی منصب پہ ’’فائز‘‘ شخص کا ظرف۔۔۔صرف اتنا ؟؟؟
علامہ محمد طاہر عزیز باروی (حفظہ اللہ تعالی) ناروے
جج،کرنل،جنرل،جب تک اپنے اپنے منصب پہ متمکن ہو تو قوم کو یہ کس بھاؤ پڑتے ہیں اس کا اندازہ تو سب کو ہے ہی لیکن منصب سے اتر جانے کے بعد بھی باقی مراعات پہ تو ہاتھ صاف کرتے ہی ہیں لیکن وہ دو بریکٹوں میں پھنسی چھوٹی سی (ر) کا سہارا لے کر کسی نہ کسی طرح اپنے منصب کا حوالہ ضرور اپنے نام کے ساتھ شامل رکھتے ہیں۔ اس سے سوائے اپنی برتری یا دھاک بٹھانے کے اور کوئی معنیٰ یا مفہوم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ سجاد باقر رضوی کی زبانی
کوتاہ قدی کہتی ہے کھٹے ہیں یہ انگور
لیکن گہ و بے گاہ لپکتا بھی بہت ہے
محفل میں تو سنیے ہوس جاہ پہ تقریر
پہلو میں یہی خار کھٹکتا بھی بہت ہے
جب کہ دینی مدارس کے بوریہ نشین،یہ اپنے وقت کے غزالی ہوں یا رازی، شیخ الحدیث ہو ں یا شیخ التفسیر یہ ہمیشہ سراپا عجز،منکسرالمزاج اور اپنی ذات کی نفی کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔کبھی بھی کوئی ذی شعور اپنے نام کے ساتھ خود،علامہ،مفتی اعظم، شیخ الحدیث، شیخ التفسیر،پیر طریقت وغیرہ کے الفاظ کا استعمال نہیں کرسکتا۔بلکہ یہ لوگ جب بھی اپنا نام لکھتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسا لفظ ضرور لکھتے ہیں جس سے اظہار عجز ہو۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کو دنیا صرف حضرت ہی نہیں’’ اعلیٰ حضرت ‘‘ کہتی لکھتی ہے لیکن وہ اپنے نام کے ساتھ ’’العبدالمذنب‘‘عبد مصطفیٰ، اسی طرح حضرت مفتی منیب الرحمٰن صاحب اکثر اپنے نام کے ساتھ ’’المفتقر الی اللہ، بندہ عاجز، ناکارہ خلائق، طلبگار دعا ‘‘وغیرہ لکھتے ہیں۔ حضرت پیر کرم شاہ الازہری کی ہر تحریر پہ لکھا ہوتا ’’خاک پائے راہ صاحب دلاں‘‘ کرم شاہ۔۔۔ وغیرہ بلکہ ہمارے شیخ گرامی قبلہ علامہ حافظ محمد عبدالستار سعیدی مدظلہ اکثر فرمایا کرتے کہ’’ انسان کی زبان سے اس کا اپنا نام یا اس کی جانب سے بنوائے گئے وزیٹنگ کارڈ،اور اشتہار پر لکھے لفظ ’’الداعی الی الخیر،یا ’’من جانب‘‘سے اس کی علمی قابلیت، اور شخصی وقار کا پتہ چل جاتا ہے‘‘۔البتہ مدارس کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ ہم نے دیکھا کہ ’’حافظ اور قاری‘‘ یہ دو الفاظ بالکل نارمل استعمال ہوتے ہیں۔کیوں کہ یہ درسیات کے زینے طے کرنے والے شخص کی زندگی میں سب سے پہلے داخل ہوتے ہیں لہذا ان کا استعمال پھر زندگی بھر ان کے نام کا حصہ بن کے استعمال ہوتے رہتے ہیں۔معنوی وسعت اور علمی برتری برطرف مگر مدارس کی دنیا میں یہ سب سے چھوٹا لیول سمجھا جاتا ہے۔ یعنی کسی عالم دین کا یہ پہلا مرحلہ یا زینہ ہوتا ہے باقی تمام مدارج اس کے بعد کے ہیں۔کیونکہ درسی دنیا کا آغاز ہی حفظ قرآن سے ہوتا ہے۔اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ القابات حافظ ،قاری، مفتی ،عالم، شیخ الحدیث،یہ سب مناصب طفیلی مناصب نہیں ہوتے بلکہ عمر بھر کتابوں کی خاک چھاننی پڑتی ہے تب جا کے یہ القابات کسی شخصیت پہ فٹ آتے ہیں۔میر کا معروف زمانہ شعر ہے
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
ہم نے اپنے اساتذہ کو دیکھا وہ جب کبھی اپنی ذات کے متعلق بات کرتے تو اس قدر عاجزی کا اظہار ہوتا کہ سننے والا شرما جاتا،اگر کبھی اپنا پیغام کسی دوسرے کو دینا ہوتا تو وہ کہتے انہیں کہنا ’’وہ کہہ رہا تھا‘‘
استاذ گرامی علامہ محمد منشا تابش قصوری علیہ الرحمۃ بیان کرتے تھے کہ میں بصیر پور زیر تعلیم تھا۔ لاہور آیا تو قبلہ بڑے سید صاحب استاذ الاساتذہ علامہ سید محمد احمد قادری علیہ الرحمۃ کی زیارت کے لیے حزب الاحناف حاضر ہوا۔روانگی کے وقت انہوں نے فرمایا کہ علامہ نوراللہ نعیمی صاحب کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا ۔بصیر پور پہنچا تو اسی طرح حضرت فقیہ اعظم علیہ الرحمہ کی خدمت میں عرض کیا کہ قبلہ سید صاحب سلام عرض کر رہے تھے۔حضرت فقیہ اعظم نے یہ سنتے ہی فرمایا کہ نہیں ایسے کہو ’’سید صاحب سلام ارشاد فرما رہے تھے‘‘
لیکن حافظ قرآن ہونا یہ رب کریم کا اتنا بڑا کرم ہے کائنات میں شاید اس سے بڑی دولت کوئی موجود ہو۔اکثر و بیشتر حفاظ اسے سعادت کے طور پر بھی اپنے نام کے ساتھ لکھتے ہیں۔ مگر حیرانی نہیں بلکہ انتہائی افسوس ہوا جناب چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس پر جو انہوں نے کل بھری عدالت میں ’’دو معتبر علمی‘‘ شخصیات کے لیے دیے ہیں۔
یقین کیجیے چیف صاحب کے متعلق اس سے پہلے ذہن میں یہی تھا کہ بہت با کردار،اعلیٰ ظرف اور وسیع القلب شخصیت ہیں۔اور امید تھی کہ وہ پاکستانی قوم کے بہت اعلیٰ نمائندے ثابت ہوں گے۔لیکن ان ریمارکس سے جس کم ظرفی،سطحی سوچ اور دینی طبقے کے متعلق ان کے بغض کی جو بد بو ان کے اس ’’قول بد‘‘ سے محسوس ہوئی اس سے نیچے شاید ہی کوئی مقام ہو جس تک انسان گر سکے۔۔۔
جن کو پینے کا سلیقہ ہے وہ پیاسے ہیں تقی
اور جتنے کم ظرف ہیں مے خار بنے پھرتے ہیں
جس طرح سطور اولیں میں گزرا کہ حافظ و قاری یہ مدارس دینیہ میں علمی ترتیب کے اعتبار سے بالکل ابتدائی درجات ہیں اور ہمارے قومی و انتظامی تین اعلیٰ ترین مناصب میں سے ایک پر فائز سے دینی طبقات سے یہی لفظ ہی گوارا نہیں تو باقی صورت حال کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
ویسے حضرت قاضی صاحب کا اپنے نام کے ساتھ جڑے لفظ ’’قاضی ‘‘ کے متعلق کیا خیال ہے؟یہ ان کے نام کا حصہ ہے یا یہ بھی کوئی منصبی لقب ہے جو ان کے خاندان کے ہر فرد کے ساتھ چسپاں کیا جائے گااس کو وہ کیا کہیں گے ؟ یعنی ان کے خاندان کا ہر ایک فرد پیدائشی قاضی ہے ۔لیکن ایک حافظ قرآن جو سال چھ ماہ لگا کے پوری تندہی،محنت شاقہ اور دن رات ایک کر کے اللہ رب العزۃ کی کائنات کی سب سے بڑی اور معتبر کتاب کے ایک ایک حرف کو دماغ میں سمونے والا، رب سماء و دنیا کے حضرت انسان کے نام آخری پیغام کو اپنے دل میں بسا دینے والا شخص اپنے نام کے ساتھ ’’حافظ ‘‘ نہیں لکھ سکتا ورنہ ہمارے وقت کے قاضی کی طبیعت پہ گراں گذرے گا۔۔
دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد
پنجوں کے بل کھڑا ہے کہ اونچا دکھائی دے
قاضی صاحب سے کہا جا سکتا ہے کہ جناب یہ پینگ ابھی کوئی سال بھر کے لیے اوپر کی جانب ہے ،اپنے پیش رو یک چشمی آصف کھوسہ ہوں یا بابارحمتا کی طرح آپ بھی کھل کھیلیں معلوم تو تب ہوگا جب یہ پینگ نیچے کی جانب سرکے گی اور شاید نیچے کی طرف ڈھلکنے میں اس کی رفتار بھی قدرے زیادہ ہو۔۔
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت، خاک اڑا اور بہت
قارئین گرامی !! اگر سو فیصد بھی غیر جانبدار ہو کر جناب قاضی محترم کے اس ’’قول زر‘‘ کا جائزہ لیا جائے اور کلی طور پر مہذب انداز میں بات کی جائے توبھی یہی کہنا پڑے گا کہ یہ بات سراسر غلط اور ان کی شخصیت و منصب کے کلی منافی ہے۔ انہیں بلاں چون و چرا کے غیر مشروط طور پر اپنی غلطی کو تسلیم کرنا چاہیے اور بغیر لگی لپٹی کے اس سے رجوع کرنا چاہیے۔
ورنہ ان کی باڈی لینگویج سے جو لگ رہا ہے وہ کسی طور اپنے پیش روں سے مختلف نہیں،اگر مسیحی برادری کے غم میں وہ اس طرح گھائل تھے کہ ان کا انگ انگ مجروح لگ رہا تھا مگر جانب دگر انہیں کبھی کوئی اور نظر نہیں آیا،ساہیوال کے معصوم بچوں کے مقتول والدین،نہ ماڈل ٹاؤن کے چودہ لاشے، نہ دیگر تنظیمات کے علماء شہداء،نوے سالہ بوڑھا عالم محض دوائی نہ ملنے کے پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے داعی اجل کو لبیک کہنے والا وہ بزرگ، کوئی بھی جناب قاضی کی توجہ کا مستحق نہ بن سکا۔۔۔
ملکی حالات جس ابتری کا شکار ہیں کہ دنیا تڑپ گئی، والدین اولاد برائے فروخت کے کتبے تھامے سڑکوں پہ سر عام نظر آنے لگے، خود کشیوں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ، بھوک سے سگی اولا د بھی اپنے ہی والدین کے ہاتھوں زیر زمین دفن ہونے لگی ایسے عالم میں ہمارے وقت کے قاضی کی ترجیحات ملاحظہ ہوں کہ انہیں یہ غم گھائل کیے جا رہا ہے کہ فلاں کے نام کے ساتھ حافظ کیوں لگایا جا رہا ہے ؟ واہ اے راہنمایانِ قوم۔۔۔
مجھے امید ہے حضرت قاضی صاحب کے پرسنل سیکرٹری جو ایک ذمہ دار عالم دین، قانون و اخلاقیات کے ماہر استاذ ہیں۔ وہ خود اپنے آپ کو دین دار طبقے میں شامل کرتے ہیں اور دینی اقدار پر وہ ایک بلند آواز کے حامل شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ یقینا ان کی توجہ اس غلطی کی جانب مبذول کروائیں گے یا خاکم بدھن شاید ان کے نزدیک یہ مسئلہ اس قدر اہم نہ ہو جس قدر قاضی وقت کی بغل ۔۔۔۔
حضرت حافظ رضوی صاحب رب قدیر کی بارگاہ میں پہنچ چکے،ان کے سیاسی انداز سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کی علمیت،فقاہت، و ثقاہت پر دنیا شاہد ہے وہ ایک زیرک عالم دین، مضبوط حافظ قرآن، با عمل عالم دین اور رسول اکرم ﷺ کے کھرے اور سچے عاشق تھے ان کی زندگی کا ایک ہی معنیٰ اور اصول تھا
انہیں جاناانہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
لِلّٰہِ ا لْحَمْد میں دُنیا سے مسلمان گیا
یہی معاملہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا ہے کہ ان کی سیاست یا انداز سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ان کے دھرنے کو سو فیصد غلط کہا جا سکتا ہے لیکن ان کا علمی کام؟ اور حضرت قاضی صاحب کے بچوں کے اساسے تو رو دھو کے کلیئر ہوئے. اور وقت کا قاضی بھی کہہ اٹھا کہ میری بیوی کے اثاثے کب کہاں اور کیسے اتنے بڑھ گئے مجھے معلوم نہیں لیکن طاہر القادری صاحب کے بدترین حریف بھی اپنی پوری کوشش کے باوجود ان پر نہ ان کی اولاد و بیوی پر کوئی ایک روپے کی کرپشن یا مالی بے ضابطگی،ثابت کر سکے۔ رہا ان کا علمی کام تو وہ اظہر من الشمس ہے۔ جناب قاضی محترم!! ٹکٹ کا سوال بعد میں اثاثوں کا پہلے نمبر پر آتا ہے اگر وقت ہو کبھی سوچیے گا۔
حضرت قاضی محترم کو اپنے منصب کا خیال رکھنا چاہیے یہ منصب سدا نہیں رہتے یہ آتے جاتے ہیں مگر انسان البتہ بے نقاب ضرور ہوجاتا ہے شاید مولا علی کرم اللہ وجھہ کا قول مبارک ہے کہ دولت،منصب اور وقار انسان کو بدلتے نہیں بے نقاب کر دیتے ہیں۔ شاید ہماری بد قسمتی کہ ہمارا قاضی بھی بے نقاب ہو ا چاہتا ہے۔
ویسے چلتے چلتے اگر قاضی محترم کبھی غور کریں تو ان کو منصب قضاۃ بلکہ قاضی القضاۃ عطا کرنے والا باس بھی اپنے نام کے ساتھ مسلسل حافظ لکھتا ہے تو کبھی سیلوٹ کرتے وقت ماتھے پہ سلوٹ آگئی تو یہ منصب بھی جاتا رہے گا اور یہ ٹرنیلی پہ۔۔۔ طفیلی مناصب پہ اتنی اکڑفوں جچتی تو نہیں ویسے۔۔۔
آخر میں ایک بات اپنے طبقے کے ذمہ دار افراد سے کرنا چاہوں گا کہ رب قدیر کی کتاب اہل کتاب سے بھی کئی معاملات میں اشتراک کے معاملے میں راہنمائی کرتی ہے جہاں نکتہ اشتراک موجود ہو وہاں پر بھی اگر ہم لوگ متحد نہ ہو سکیں تو دین دشمن طبقہ تو پہلے سے اسی چیز کا خواہاں ہے ۔
مثال کے طور پر قاضی وقت کا بیان بیک وقت ہمارے ممدوح حضرت حافظ صاحب مرحو م و مغفور اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب پر محض طنز نہیں بلکہ تضحیک آمیز اور انتہائی سطحی قسم کے جملے ان کی طرف سے ادا ہوئے لیکن حضرت حافظ صاحب مرحوم کے عقیدت مندوں کےنزدیک طاہر القادری کی تضحیک درست اور ہمارے قائد کے متعلق ان کا جملہ گستاخی پر مبنی، بالکل اسی طرح علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے محبین و عقیدت مندوں کےنزدیک صرف طاہر القادری صاحب کو تقدس حاصل ہے حضرت حافظ صاحب کے معاملے میں جو کہا گیا وہ بالکل درست تھا یا فریقین کو صرف اپنے اکابرین سے غرض ہے باقی جس کو جو مرضی کہاجائے ہماری بلا سے۔۔۔۔
اگر تو یہی رویہ اپنایا گیا پھر مان لیا جائے کہ ایسے ہر جماعت اپنی جنگ لڑتی رہے گی اور بکھرتی رہے گی۔ہماری آواز موثر ثابت ہوگی نہ ہم اپنے قائدین کی عزت کے متعلق توانا آواز بلند کر سکیں گے جب معاملہ مشترکہ ہو تو اشتراک ہی آواز میں جان پیدا کر تا ہے اور یہی کامیابی ہے۔۔
آخر میں ہر دو شخصیات کے محبین سے یہی کہوں گا دلبرداشتہ نہ ہوں شورش کاشمیری نے کہا تھا
شورش ترے خلاف زمانہ ہوا تو کیا
کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کے خلاف ہیں
(جمعۃ المبارک 03 نومبر 2023)