زمرہ: بزم رجال
نوجوانوں کو کیسا ہونا چاہے
حکایت نمبر102: نو جوانوں کو کیسا ہونا چاہے
حضرت سیدنا سعیدحربی علیہ رحمۃاللہ القوی فرمایا کرتے تھے:”کچھ نوجوان ایسے ہیں کہ اپنی نوجوانی اور کم عمری کے باوجود اُڈھیر عمر کے دکھائی دیتے ہیں ، ان کی نظریں کبھی بھی حرام چیز کی طرف نہیں اٹھتیں ، ان کے کان ہمیشہ حرام اورلہو ولعب کی باتیں سننے سے محفو ظ رہتے ہیں ، ان کے قدم حرام وباطل اشیاء کی طر ف نہیں اٹھتے بلکہ بہت زیادہ بوجھل ہوجاتے ہیں ، ان کے پیٹ میں کبھی بھی حرام اشیاء داخل نہیں ہوتیں۔ ایسے لوگ اللہ عزوجل کو محبوب ہیں۔
آدھی رات کو وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور رکوع وسجود کرتے ہیں تو اللہ رب العزت عزوجل ان پررحمت بھری نظرفرماتاہے، ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ قرآن پاک پڑھتے وقت ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ جب کبھی وہ ایسی آیت کی تلاوت کرتے ہیں جس میں جنت کا تذکرہ ہوتا ہے تو ا س جنت کی محبت میں رونے لگتے ہیں اور جب ایسی آیت تلاوت کرتے ہیں جس میں جہنم کا تذکر ہ ہو تو جہنم کے خوف سے چیخنے لگتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے جیسے وہ جہنم کی چنگھاڑ کو سن رہے ہیں اور آخرت بالکل ان کی نظرو ں کے سامنے ہے ۔
یہ پاکیزہ نوجوان اتنی کثرت سے نماز پڑھتے ہیں کہ زمین ان کی پیشانیوں اور گھٹنوں کو کھا گئی ہے (یعنی کثرتِ سجود کی وجہ سے ان کی نورانی پیشانیوں او رگھٹنوں پر داغ پڑگئے ہیں او رگو شت خشک ہوچکاہے )
شب بھر قیام کرنے او ر د ن بھر رو زہ رکھنے کی وجہ سے ان کے رنگ متغیر ہوگئے ہیں ،یہ لوگ موت کی تیاری میں مشغول ہیں اور ان کی یہ تیاری کتنی عظیم ہے او ران کی کوششیں کتنی عمدہ ہیں،ساری ساری رات رو کر گزار دیتے ہیں او راپنی آنکھوں سے نیند کو دو ر رکھتے ہیں ،ان کا دن اس حالت میں گزرتا ہے کہ یہ رو زہ رکھتے ہیں اورآخرت کی فکر میں غمگین رہتے ہیں، انہیں ہر وقت غمِ آخرت لاحق رہتا ہے ۔جب کبھی ان کے سامنے دنیا کا تذکرہ ہوتا ہے تو ان کی دنیا سے بے رغبتی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ یہ دنیا کی حقیقت کو جانتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے ۔ پھر جب کبھی ان کے سامنے آخرت کا تذکرہ ہوتا ہے تو آخرت کی طر ف انہیں مزید رغبت پیدا ہوتی ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ آخرت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں۔ دنیا ان کی نظروں میں بہت حقیر ہے اوریہ اس سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔
ان کے نزدیک دُنیوی زندگی مصیبت ہے کیونکہ اس میں فتنے ہی فتنے ہیں اور راہِ خد ا عزوجل میں شہید ہونا انہیں بہت زیادہ محبوب ہے کیونکہ انہیں اللہ عزوجل کی ذات سے اُمید ہے کہ شہادت کے بعد راحت وآرام اور عیش و عشرت کی زندگی ہے۔ یہ کبھی بھی نہیں ہنستے ،یہ ا پنے لئے نیک اعمال کا ذخیرہ اکٹھا کررہے ہیں کیونکہ انہیں آخرت کی ہولنا کیوں کا اندازہ ہے ۔
جہاد کااعلان سن کریہ فورا ًاپنی سواریوں پر بیٹھتے ہیں ، اور میدان کا رزار کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں گویا پہلے ہی سے انہوں نے اپنے آپ کو جہاد کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ پھر جب صف بندی ہوتی ہے اور لشکر آپس میں ملتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ دشمنوں کی طر ف سے نیز ہ بازی شرو ع ہوگئی ہے، تیر برسنے لگے ہیں، تلواریں آپس میں ٹکرانے لگی ہیں ، ہر طرف موت کی گرج سنائی دے رہی ہے اور لاشیں گر رہی ہیں تو یہ لوگ موت کی گر جتی ہوئی آواز سے نہیں ڈرتے بلکہ میدانِ کا ر زار میں بے دھڑک مردانہ وار کو د پڑتے ہیں اور انہیں موت سے بالکل ڈر نہیں لگتا بلکہ انہیں تو اللہ عزوجل کے عذاب کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔
یہ بے خوف وخطر دشمن پر جھپٹ پڑتے ہیں اور لڑتے لڑتے ان میں سے بعض کے سر تَن سے جدا ہوجاتے ہیں اور ان کے گھوڑے لشکروں میں گم ہوجاتے ہیں ان کی لاشوں کو گھوڑوں کے سُموں سے روند ھ دیا جاتا ہے پھر جب جنگ ختم ہوجاتی ہے اور لشکر واپس چلے جاتے ہیں تو ان میں سے جن کی لاشیں میدانِ جنگ میں باقی رہ جاتی ہیں ان پردرندے اور آسمانی پرندے ٹوٹ پڑتے ہیں او رانہیں کھاجاتے ہیں یہ عظیم لوگ بالآخراپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔
یہ لوگ خوش بخت اور کامیاب ہیں کیونکہ انہوں نے عظیم سعادت حاصل کرلی ہے او رجیسے ہی ان کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے فوراً ان کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں او ران کے جسم قبر میں پھٹنے اور گل سڑنے سے محفوظ ہیں پھر جب بر وزِ قیامت یہ اپنی قبر و ں سے نکلیں گے تو بہت زیادہ مسرو ر ہوں گے اور اپنی تلواروں کو لہراتے ہوئے میدان حشر کی طرف جائیں گے او ر یہ اس حال میں وہاں پہنچیں گے کہ عذاب سے نجات پاچکے ہوں گے۔ انہیں حساب وکتاب کے سخت مرحلے سے بھی نہیں گزرنا پڑے گا اور بغیر حسا ب وکتاب کے جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔
وہ جنت کتنی عظیم ہے جہاں ان عظیم لوگو ں کی مہمان نوازی ہوگی اورو ہ نعمتیں کیسی دائمی اور عظیم ہیں جن کی طرف انہوں نے سبقت کی ۔
اب جنت میں ان پر نہ تو کوئی مصیبت نازل ہوگی، نہ ہی انہیں آفات وبلیّات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ جنت میں اَمن وسکون کے ساتھ رہیں گے پھر ان کا نکاح حور عین سے کیا جائے گا(جو جنت کی سب سے حسین حوریں ہیں )، ان کی خدمت کے لئے ہر وقت خُدام حاضر ہوں گے جو ان کے بلانے سے پہلے ہی ان کے پاس پہنچ جائیں گے ، وہاں کی نعمتیں ایسی دائمی نعمتیں ہیں کہ جو شخص ان کی معرفت حاصل کرلے وہ ہر وقت ان کی طلب میں لگا رہے ۔
اے لوگو!اگر تم موت کو ہر وقت پیش نظر رکھو گے او راپنی اَصلی منزل (جنت)کو یاد رکھوگے تو پھر کبھی بھی تمہیں نیک اعمال میں سستی نہ ہوگی اور نہ ہی تم دنیا کے دھوکے میں پڑوگے۔”
؎ کچھ نیکیاں کما لے جلدآخرت بنالے کوئی نہیں بھروسہ اے بھائی زندگی کا
(اے میرے اللہ عزوجل ! ہمیں بھی ان عظیم نوجوانوں جیسی صفات سے متصف فرمااور ان کے جذبہ عبادت و ریاضت میں سے ہمیں بھی کچھ حصہ عطا فرما،جس طرح ان کی نظروں میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں اسی طر ح ہمیں بھی دنیا سے بے رغبتی عطا فرما اور ہر وقت ہمیں اپنی یاداو راپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جلوؤں میں گم رکھ۔
اے اللہ عزوجل !ہمیں ایسا جذبہ عطا فرما دے کہ ہم ہر وقت اپنا مال اپنی جان او راپنی تمام چیزیں تیرے نام پر قربان کرنے کے لئے تیار رہیں، ہمیں شہادت کی دولت عطا فرما اور کثرت عبادت کی تو فیق دے۔ ہمارے تمام اعضاء کو گناہوں سے محفو ظ رکھ اور ہمیں جنت الفردوس میں ہمارے پیارے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکے پڑوس میں جگہ عطا فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ جنت میں آقا کا پڑو سی بن جائے عطّار،ؔ الٰہی (عزوجل ) بہرِ رضا اور قطبِ مدینہ یا اللہ میری جھولی بھردے (عزوجل )
مردہ سنت اور گمراہی کی بدعت
حدیث نمبر :166
روایت ہے حضرت بلال ابن حارث مزنی سے ۱؎ فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو میری مردہ سنت کو جو میرے بعد فنا کردی گئی زندہ کرے ۲؎ اسے ان تمام کی برابر ثواب ہوگا جو اس پر عمل کریں اس کے بغیر کہ ان عاملوں کے ثواب سے کچھ کم ہو۳؎ اور جو گمراہی کی بدعت ایجاد کرے جس سے اﷲ رسول راضی نہیں ۴؎ اس پر ان سب کی برابر گناہ ہوگا جو اس پر عامل ہوں اور یہ ان کے گناہوں سے کچھ کم نہ کرے گا اسے ترمذی نے روایت کیا۔
شرح
۱؎ آ پ صحابی ہیں، ۵ ھ میں وفد مدینہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لائے،۸۰سال کی عمر پاکر ۶۰ ھ میں وفات پائی،مدینہ منورہ کے پاس مقام ستغری میں قیام تھا۔
۲؎ یعنی جس سنت کو لوگوں نے چھوڑ دیا ہو اس پر خود بھی عمل کرے اور دوسرے کو بھی عمل کی رغبت دلائے جیسے زمانۂ موجودہ ہیں داڑھی رکھنا۔
۳؎ کیونکہ یہ اﷲ کا بندہ اس سنت کے زندہ کرنے میں لوگوں کے طعنے اور مذاق برداشت کرتا ہے،سنت کی خاطرسب سختیاں جھیلتا ہے،لہذا بڑا غازی ہے۔جو بھلائی کے موجد کو ثواب ملتا ہے وہی بھلائی کے پھیلانے والے کو۔
۴؎ یہاں بدعت موصوف ہے اور ضلالت صفت اور جب نکرہ نکرے کی صفت ہو تو تخصیص کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔یہاں ضلالت کی قید بدعت حسنہ کو نکالنے کے لیئے ہے۔(مرقاۃ)یعنی بری بدعتوں کا موجد مجرم ہے جیسے اردو میں نماز و اذان یا اور تمام خلاف سنت کام۔اور اچھی بدعتوں کا موجد ثواب کا مستحق ہے جیسے علم صرف ونحو کے موجد،اسلامی مدرسے،عرس بزرگان،میلاد شریف اور گیارہویں شریف اور گیارہویں شریف کی مجالس کے موجد،اس کی بحث پہلےگزر چکی یہ حدیث تقسیم بدعت کی اصل ہے اس کا ذکر”کتاب العلم” میں بھی آئے گا۔
حدیث نمبر :167
اور ابن ماجہ نے کثیر ابن عبداللہ ابن عمرو سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ۱؎
شرح
۱؎ کثیر ابن عمرو باتفاق راوی ضعیف ہے،امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ بہت جھوٹا آدمی تھا اس کے دادا عمرو ابن عوف صحابی ہیں،قدیم الاسلام ہیں انہی کے بارے میں یہ آیتِ کریمہ اتری”تَوَلَّوۡا وَّ اَعْیُنُہُمْ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمْعِ "آپ مدینہ منورہ میں رہے اورحضرت امیرمعاویہ کے زمانہ میں وفات پائی،جنگ بدر میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھے۔
میت کو دھوکا
میت کو دھوکا !!
ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮬﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭﭨﯿﻦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺩﺭﺱ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﮯ۔
ﺳﺎﺭﮮ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﮕﺎ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﺭﺱ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻨﺪﮦ ﺍﻧﮑﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ. ﺑﭽﮯ، ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﮬﻢ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻃﺒﻘﮧ، ﺳﺐ ﮬﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ دیکھ رہے ﺗﮭﮯ۔ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﮐﯽ ﺳﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ کر امام صاحب سمجھ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻋﻮﺍﻡ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻮﻗﻊ ﮐﮯ ﻋﯿﻦ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺗﯿﺎﺭ ﮬﻮ ﭼﮑﯽ ﮬﮯ۔
تو امام صاحب فرمانے لگے کہ "ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﺐ ﺗﮏ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﺭﮬﺘﺎ ﮬﮯ؟”
ﺳﺐ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﮧ ﭼﻮﻧﮏ ﭘﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﮯ.
ﺳﺐ ﮐﻮ ﭼﭗ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ، "ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﺗﮏ ﺍﺳﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺳﻠﺐ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﺟﺎﺋﮯ، ﯾﻌﻨﯽ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﺗﮏ ﺍﺳﮑﻮ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﺭﮬﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﺨﺸﺶ ﻧﮧ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﺏ ﮐﺮﯾﻢ ﺳﮯ ﮐﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﭼﯿﻠﻨﺞ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﻧﮧ ﺟﺎﺅﮞ۔ ﭘﺮ ﺟﺐ ﺑﻨﺪﮦ ﻓﻮﺕ ﮬﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮨﭧ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻣﺮﮮ ﮬﻮﺋﮯ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﮐﺮﻧﺎ۔
ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﺘﮧ ﮬﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﻮﻥ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻏﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ؟”
ﺍﻧﮑﺎ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺑﮭﯽ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺍﻧﻮﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﮩﺬﺍ ﺳﺐ ﮬﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﮬﯽ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ..
ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ، "ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺮﮮ ﮬﻮﺋﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﺳﮯ ﮬﻢ ﻟﻮﮒ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔” ﮬﻢ ﻟﻮﮒ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ،
ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﻤﮑﻦ ﮬﮯ؟
ﮬﻢ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﺑﺎﺯ ﮐﯿﺴﮯ ﮬﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﮬﯿﮟ؟
ﺳﺐ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﻭﺍﺿﺢ ﻃﻮﺭ ﭘﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ. ﺳﺐ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﺸﺎﻥ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ،
"ﺟﺐ ﺑﻨﺪﮦ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﮬﯽ ﺍﺳﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔ﺟﻨﺎﺯﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﻭﮦ ﮐﮭﮍﮮ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﺯِ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ، ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺏ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﮭﻼ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﻧﮧ ﮬﻮﮞ؟
ﻟﻮﮒ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺳﮕﮯ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ؟
ﮐﺰﻥ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ؟
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻃﻨﺰ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﮬﻢ ﻟﻮﮒ ﻣﺮﮮ ﮬﻮﺋﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﮯ۔ ﺟﺲ ﺳﭩﯿﺞ ﭘﮧ ﺁﮐﮯ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭧ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﺱ ﺳﭩﯿﺞ ﭘﮧ ﮬﻢ ﺁ ﮐﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮬﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ، ﮐﮧ ﮬﻢ ﮬﯿﮟ ﻧﺎﮞ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻣﺸﻦ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ۔
ﮨﻢ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮬﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮬﯿﮟ، ﻓﻠﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﺎﻧﮯ ﭘﻞ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮔﻨﮕﻨﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ، ﺩﻭﮬﮍﮮ ﻣﺎﮨﯿﮯ، ﺷﺎﻋﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﻏﺰﻟﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﺟﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﭘﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﭼﻨﺪ ﺁﯾﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﭘﺎﺗﮯ۔
ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﯽ ﭼﺎﺭ ﺗﮑﺒﯿﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﻭﮦ ﺗﺤﻔﮧ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﮮ ﮬﻮﺋﮯ ﭘﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﻨﺎ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮬﻢ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﭘﺎﺗﮯ، ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺷﺮﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮬﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔”
ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﺟﺎ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮬﻢ ﺳﺐ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺷﺮﻡ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﺟﮭﮑﮯ ﺟﺎ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺘﺠﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﮯ، "ﺧﺪﺍﺭﺍ۔۔ ﺁﺝ ﺳﮯ ﮬﯽ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﻋﮩﺪ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﺯِ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯِ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺿﺮﻭﺭ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﯾﮟ ﺳﮑﯿﮟ.. ﻭﺭﻧﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﮑﺎﻓﺎﺕِ ﻋﻤﻞ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺁﭘﮑﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﭼُﭗ ﭼﺎﭖ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺟﺘﻤﺎﻋﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺎ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻓﻘﻂ ﺁﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺍﮐﺘﻔﺎ ﮐﺮﯾﮟ۔۔
” ﺩﺭﺱ ﺧﺘﻢ ﮬﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ، ﺳﺐ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮓ ﮐﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺐ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﯾﮧ ﮔﻮﺍﮬﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﺟﺎ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﮬﻢ ﻧﻤﺎﺯِ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺿﺮﻭﺭ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔۔ ﮬﻢ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﺑﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﯿﮟ ﮔﮯ!
ﮬﺎﮞ ﮬﻢ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﺑﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﯿﮟ ﮔﮯ ……💞