وہ مسلمان نہیں …
ترجمہ:اگر تم مسلمان ہوتو یہ ظلم وزیادتی کیوں ہے ،اور جب تم ظالم وستم گرہوتو تم مسلمان کہاں؟تم اپنے ہاتھ وزبان سے لوگوں کو ستاتے ہو ،تکلیف پہنچاتے ہواور اپنے فائدے کے لیے دوسروں کا نقصان کرتے ہو ۔(پھر تم مسلمان کیسے ہوسکتے ہو؟)
اے بھائی !مسلمان وہ ہے جس پر شرع کا یہ حکم نافذ ہے:
المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهٖ وَيَدِهٖ۔ (بخاری،باب المسلم من سلم المسلمون)
یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے مسلمان سلامت ومحفوظ رہیں ،اور اُس کے دل کو کسی قسم کی تکلیف اس سے نہ پہنچے،اس لیے کہ مومن کا دل خالصاً ملخصاً اللہ جل شانہ کا گھر ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
مَنْ ہَدَمَ قَلْبَ الْمُؤمِنِ فَہَدَمَ بَیْتَ اللہِ۔
یعنی جوشخص مومن کےدل کو تباہ کرتا ہے گویا وہ اللہ رب العزت کے گھر کو تباہ کرتا ہے۔
اس تعلق سے ایک مثنوی ہے:
ترجمہ:جو شخص لوگوں کو تکلیف دینے والاہے اللہ تعالیٰ اس سے بیزار ہے، اس کو مومن کے نام سے یاد نہ کرو،اُسے مومن نہ کہو ،لوگوں کو اِیذا پہنچانے والا نامبارک اور منحوس ہے کسی موذی کو تم مسلمان نہ جانو۔
اے بھائی!مسلمان ہونا کوئی آسان کا م نہیں ،دنیا میں مسلمانوں کی تعداد بہت ہے لیکن حقیقی مسلمان عالم میں شاذونادر ،یعنی بہت کم ہیں۔جیساکہ کہاگیا ہے:
ترجمہ:اےسالک! اگر حقیقت اسلام اتنا ہی آسان ہوتا تو ہر شخص اپنے وقت کا شبلی اور ابراہیم بن ادہم ہوتا۔جب تک تم دل سے یعنی باطن سے مسلمان نہیں ہوتے،ظاہری مسلمان ہونے سے کب تم حقیقی مسلمان ہو سکتے ہو؟
آدمی کی فطرت میں ایک کافر نفس ہے جو دنیا کی پونجی کا قبلہ ہے اور دنیا کی لذتیں ،شہوتیں اس کی محبوبہ ہیں،اسی معنی کے اعتبارسے آدمی مردہ ہےاگرچہ بظاہر زندہ معلوم ہوتا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
ترجمہ:نفس اگر چہ بہت ہوشیاراور عقل مند ہے لیکن اُسے کمینہ جانو، کیوں کہ اس کا قبلہ دنیا ہے اور جب دنیا اس کا قبلہ ہے تو اُسے مردہ سمجھو۔اس کی تمام ہمت ،مال واسباب سمیٹنا اور جاہ ومرتبہ حاصل کرناہے، لامحالہ وہ آدمی کو گمراہ کرتا ہے ۔
چنانچہ نمرود وفرعون کو اُس نے گمراہ کیا:
ترجمہ:جب تک یہ نفس تمہارے گھات میں ہے اس وقت تک تمھیں وہاں تک کیسے پہنچنے دے گا جہاں دین ہے۔ یہ کافر جوہم لوگوں کی سرشت میں ہے اس کی وجہ سے دنیامیں حقیقی مسلمان بہت کم ہیں۔
مگر اس وقت جب کہ نفس کافر کی گردن مجاہدہ وریاضت کی تلوارسے اُڑا دو،اور اُس کی خواہشوں ،آزرؤوں،مرادوں سے اُسے محروم کردو، اور اُس کے کاموں سے اپنی موافقت نہ دکھلاؤ ،اس وقت مسلمان کا رخ تاباں دیکھوگے اور موحدوں کی توحید کوپاؤگے،جیساکہ کہاگیا ہے:
ترجمہ:جب تمہارا نفس کافر تم سے مغلوب ہوگیاتو تم مجسم ایمان ہوگئے،اگر چہ مجسم کفر تھے۔
مشائخ کرام کا ارشاد ہے :
مردانگی وبہادری صرف یہ نہیں ہے کہ آدمی سے جنگ کریں اور اس پر غلبہ پائیں،کافروں سے قتال کریں اور اُس پر فتح پائیں۔بہادری تو یہ ہے کہ اپنے اس کافرنفس کی گردن اُڑادیں،کیوں کہ
اَلنَّفْسُ ہِیَ الصَّنَمُ الْأکْبَرُ۔
یعنی نفس ہی سب سے بڑا بت ہے۔
لہٰذا جس نے اللہ عز وجل کی محبت میں قدم رکھا اور اللہ رب العزت کی محبت کا دعویٰ کیا اس پر فرض عین ہے کہ اس بت کو جڑسے اُکھاڑ پھینکے اور اُس سے جہادوجنگ کرے، ایسی جنگ جس میں صلح کبھی نہ ہو۔
اِسی معنی میں کہاگیا ہے:
ترجمہ:اس بہادری کو بہت آسان جانوجس سے دشمنوں کی صفیں ٹوٹ جاتی ہیں۔شیر تو وہ ہوتا ہے جو خود اپنے نفس کو چیر ڈالے۔ (مکتوبات دوصدی،مکتوب :۱۴۴)