وَمَكَرُوۡا وَمَكَرَاللّٰهُ ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمَاكِرِيۡنَ – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 54
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَكَرُوۡا وَمَكَرَاللّٰهُ ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمَاكِرِيۡنَ
ترجمہ:
اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے (ان کے خلاف) خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے عمدہ خفیہ تدبیر فرمانے والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے خلاف خفیہ تدبیر فرمائی۔ (آل عمران : ٥٤)
اللہ کی خفیہ تدبیر کے مطابق ایک شخص پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شبہ ڈالنا :
مکر اس فعل کو کہتے ہیں کہ جس کے سبب سے کسی شخص کو مخفی طریقہ سے ضرر پہنچایا جائے یا ضرر رسانی کو ملمع کاری سے نفع رسانی بنایا جائے ‘ اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف مکر کی نسبت ہو تو اس سے مراد خفیہ تدبیر ہے۔ فراء نے بیان کیا ہے کہ کافروں کا مکر یہ تھا انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کی سازش کی اور اللہ کا مکر یہ تھا کہ اللہ نے ان کو ڈھیل دی، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جب بھی وہ کوئی گناہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ایک نئی نعمت دیتا۔ زجاج نے کہا اللہ کے مکر سے مراد انہیں ان کے مکر کی سزا دینا ہے ‘ جس طرح قرآن مجید میں ہے (آیت) ” اللہ یستھزی بھم “۔ یعنی اللہ ان کو ان کے استہزاء کی سزا دیتا ہے۔
امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
سدی بیان کرتے ہیں کہ بنو اسرائیل نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے انیس (١٩) حواریوں کو ایک گھر میں بند کردیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم میں سے کون شخص میری صورت کو قبول کرے گا ؟ سو اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس کو جنت مل جائے گی ان میں سے ایک شخص نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت کو قبول کرلیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان کی طرف چڑھ گئے اور یہ اس کا معنی ہے کہ کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے خلاف خفیہ تدبیر فرمائی۔ (جامع البیان ج ٣ ص ٢٠٢‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شبہ کسی اور پر ڈال دی گئی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا اور یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ جب یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے پر متفق ہوگئے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان سے بچنے کے لئے بھاگ کر ایک گھر میں آئے۔ حضرت جبریل (علیہ السلام) نے اس گھر کے روشن دان سے ان کو آسمان کی طرف اٹھالیا۔ ان کے بادشاہ نے ایک خبیث شخص یہودا سے کہا جاؤ گھر میں داخل ہو اور ان کو قتل کردو۔ وہ روشن دان سے گھر میں داخل ہوا تو وہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ پایا اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شبہ ڈال دی۔ جب وہ گھر سے باہر نکلا تو لوگوں نے اس کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت پر پایا انہوں نے اس کو پکڑ کر قتل کیا اور سولی پر چڑھا دیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ اس کا چہرہ تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مشابہ ہے اور اس کا بدن ہمارے ساتھی کے مشابہ ہے اگر یہ ہمارا ساتھی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہاں گئے اور اگر یہ عیسیٰ ہے تو ہمارا ساتھی کہاں گیا۔ پھر ان کے درمیان لڑائی ہوئی اور بعض نے بعض کو قتل کردیا ‘ اور یہ اس آیت کی تفسیر ہے کہ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے خلاف خفیہ تدبیر فرمائی۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ٤ ص ٩٩ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ ١٣٨٧ ھ)
حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :
بنواسرائیل نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر تہمت لگائی اور اس زمانہ کے کافر بادشاہ کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف بھڑکایا اور کہا یہ شخص لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور ان کو بادشاہ کی اطاعت کرنے سے منع کرتا ہے اور رعایا کو خراب کرتا ہے اور باپ اور بیٹے کے درمیان جدائی ڈالتا ہے ‘ اور کئی بہتان تراشے اور کہا یہ شخص ولد الزنا ہے ‘ حتی کہ انہوں نے بادشاہ کو غضب ناک کردیا۔ بادشاہ نے ان کی طلب میں اپنے اہلکاروں کو روانہ کیا تاکہ وہ اس کو گرفتار کرکے سولی پر چڑھا دیں۔
جب انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے گھر میں پکڑ لیا اور یہ گمان کیا وہ کامیاب ہوگئے ہیں تو اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے درمیان سے نجات دے دی اور اس گھر کے روشن دان سے ان کو آسمان کی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان آدمیوں میں سے ایک پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شبہ ڈال دی جو اس وقت ان کے گھر میں تھا۔ جب وہ لوگ گھر میں داخل ہوئے تو رات کے اندھیرے میں انہوں نے اس شخص کو حضرت عیسیٰ سمجھ کر گرفتار کرلیا۔ اس کی اہانت کی۔ اس کے سر پر کانٹے ڈالے اور اس کو سولی پر چڑھا دیا اور یہ اللہ تعالیٰ کی ان کے خلاف خفیہ تدبیر تھی ‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے درمیان سے نجات دی ‘ اور ان کے سامنے سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھا لیا اور ان کو ان کی گمراہی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٤٣‘ مطبوعہ ادارہ اندلس ‘ بیروت ‘ ١٣٨٥ ھ)
تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 54
ولیجہ کا کیا مطلب ہے