صراط مستقیم
صراط مستقیم
مولانا اشتیاق عالم مصباحی
اِہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ(۵)صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ المَغضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَ(۷ )
قرآن اس مقدس کلام خداوندی کانام ہے جوجملہ انسانیت کے لیے رہتی دنیاتک ہدایت ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ھدی للناس ‘‘ (بقرہ ،آیت: ۱۸۵)یہ کسی وقت اورقوم کے ساتھ خاص نہیں۔
قرآن اپنے نزول کے اعتبار سے کسی نہ کسی واقعہ اور مسئلہ کے ساتھ خاص ہے لیکن حکم اوراشارہ جملہ انسانیت کے لیے ہر وقت اور ہر لمحہ عام ہے قرآن کی تلاوت کرنے والاہمہ وقت یہ سوچے کہ کہیں یہ آیت ہم سے مخاطب تونہیں ؟لیکن افسوس کہ ہم ’’قرآن خوانی ‘‘کرتے ہیں اور قرآن فہمی کاتصور بھی کبھی وہم و خیال میں نہیں آتا۔
قرآن خوانی بھی خداکا فضل ہے جبکہ اہل ایمان کابیشتر حصہ قرآن خوانی سے بھی محروم ہے ۔اگرہم خداکی توفیق سے قرآن سمجھنابھی چاہتے ہیں تو بس ترجمہ دیکھ لیااور وعید کی ساری آیتیں کفار ومشرکین کے سرمنڈھ دیا، یاپھر یہودو نصاریٰ اورمنافقین کے گلے ڈال دیا،کبھی یہ سوچنے کی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ صفتیں جو گمراہ قوموں میں موجود تھیں کہیں وہ ہمارے اندر تو نہیں آگئیں۔
صوفیائے کرام جووارثین انبیاہیں اورجن کاکام نفس کو پاک کرنا اور دل کی صفائی کرنا ہے وہ ہرآن دنیاوالوں کواپنے عمل کی اچھائی اوربرائی کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں ۔اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا:
’’حاملین توریت کی مثال جوتوریت پہ عمل نہیں کرتے بوجھ سے لدے ہوئے گدھے کی طرح ہے ۔‘‘ (س :جمعہ، آیت :۵)
کیایہی حال ہمارا تونہیں ؟میں سمجھتاہوں کہ ہماری حالت ان سے بھی بدتر ہے کیوں کہ انھیں توریت کاعلم تھا،عمل نہیں کرتے تھے اورہمارے پاس نہ قرآن کاصحیح طورسے علم ہے اورنہ عمل ۔
جیساکہ ہم نے عرض کیاکہ قرآن عام انسانیت کے لیے ہدایت ہے۔ کفر سے اسلام ،شرک سے ایمان اورنافرمانی سے طاعت کی طرف لے جاتاہے توپھرہم اسی مرکز ہدایت (خدا) سے دعاکرتے ہیں کہ تو:’’ہمیں سیدھی راہ چلاجن پرتونے انعام واحسان کیانہ کہ ان کاراستہ جن پرتونے غضب کیااورجوراہ حق سے بہک گئے۔ ‘‘
(سورۂ فاتحہ) بعض لوگوں نے:اِہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ ۔کا معنی ’’ہمیں سیدھی راہ دکھا‘‘کیاہے۔ حالانکہ اوپرکی آیات اور قواعد میں غورکرنے سے علم ہوتاہے کہ: ’’ہمیں سیدھی راہ چلا‘‘ یہی معنی زیادہ درست ہے ،لیکن بعد کی آیت کودیکھتے ہوئے اراء ۃ الطریق یعنی’’ ہمیں راہ حق دکھا‘‘ بھی صحیح ہے۔ تفسیر عرائس البیان اورتفسیر ابن کثیرسے بھی یہ معنی معلوم ہوتا ہے۔ متعددکتب تفاسیرواحادیث میں ہے کہ انبیاہمیشہ مغفرت کی دعاکرتے تھے، خاص طورسے ہمارے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔ روایتوں میں آیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ سترّسے زائد مرتبہ استغفار کرتے تھے بلکہ بعض روایتوں میں سو(۱۰۰) تک کابیان آیاہے ۔
مسلم شریف کی حدیث ہے :
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یَااَیُّھَاالنَّاس! تُوْبُوْااِلَی اللّٰہِ فَاِنِّی اَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ فِیْ الْیَوْمِ مِأْۃَ مَرَّۃ۔ (مسلم،باب الاستغفار)
بعض عارفین کہتے ہیں کہ ہروقت قلب مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پرانواروتجلیات کی بارش ہوتی رہتی ہیں اورہرلمحہ قرب کے ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب ترقی ہوتی رہتی ہے۔جب قرب کے اعلیٰ مقام کی جانب توجہ ہوتی ہے تو اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے نیچے والے مقام سے توبہ واستغفارکرتے ہیں۔ یہی حال نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے واسطے سے آپ کے خاص بندوں (صوفیا ) پر ہوتاہے جوقرب کی ایک منزل سے دوسری منزل کی جانب ترقی کرتے رہتے ہیں۔ جب انھیں ایک مقام حاصل ہوجاتا ہے تو دعاکرتے ہیں کہ مولیٰ !مجھے حق راہ (اراء ۃ الطریق) دکھا۔پھرانھیں وہ مقام مطلوب حاصل ہوجاتاہے جو(ایصال الیٰ المطلوب) ہے،اسی طرح دوسرے مقامات کی دعا کرتے ہیں جو’’اراء ۃ الطریق‘‘ کی منزل ہوتا ہے ۔
یہ واضح رہے کہ خدا کے قرب کی کوئی انتہا نہیں۔وہ وراء الوراء ہے اور اس کی شانکُلُّ یَوْمِ ھُوَ فِیْ شَان۔ہے۔
صراط مستقیم:
تخلیق انسانی کا مقصد خالق کائنات کی معرفت ہے۔ بندے کو ہرآن یہی فکر ہونی چاہئے کے میں کیوں پیدا کیا گیا ؟ یہ کائنات کیا ہے ؟اور مجھے کیا کرنا چاہیے ؟اس معرفت کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔ سوال یہ ہے کہ وہ راستہ ہے کیا ؟تو اللہ نے راہ نمائی فرمائی اور بتایا کہ سیدھاراستہ وہ ہے جس کے راہی انبیا،صدیقین ،شہدا اور صالحین ہیں جنھیں اللہ نے بے بہا انعامات کے ساتھ انوارو تجلیات سے نوازاہے ۔
نبی :اس بشر کو کہتے ہیں جس پر اللہ نے وحی بھیجی ہو۔
صدیق : قرآن نے صدیقین کی تعریف یوں کی ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُولِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْاوَجَاہَدُوْابِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أُوْلٰئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ(۱۵)( حجرات) یعنی صدیقین وہ لوگ ہیں جو اللہ ورسول پر ایمان لاکر ذرہ برابر شک نہ کریں اور تن من دھن سے اللہ کی راہ میں مسلسل کوشش کرتے ہوں۔
شہید :
وہ بشر ہے جو اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے مسلسل کوششیں کرتارہے حتی کہ اسی جدجہدمیں اپنی جان عزیزکوبھی صرف کردے۔
صالحین :
صلاح،فساد کی ضد ہے یعنی ایسے شخص کو صالح کہا جائے گا جس کا عمل صرف اور صرف اللہ کے لیے ہو۔ اس میں ذرہ برابر ریا کا دخل نہ ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاء۔‘‘ ترجمہ:ان کو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ اطاعت کریں۔
اب آپ اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ جن کا عمل ہر طرح کی خرابی سے پاک ہو اور مقصود صرف اللہ کی رضاہو وہ صالح ہیں اور جو نفس کی اصلاح کے بعد دوسروں کی اصلاح میں لگ جائیں وہ شہید ہیں اور اس عمل میں جن لوگوں نے تن من دھن کی بھی پرواہ نہ کی وہ صدیقین ہیں،جومقام مشاہدہ پرمتمکن ہیں۔
مزید ان کی وضاحت علامہ صدرالدین روز بہان بقلی رحمۃ اللہ علیہ نے عرائس البیان میں یوں کی ہے: ’’انبیا وہ لوگ ہیں جو اللہ کے کلام کوبطریق خاص سنتے ہیںاور صدیق وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ راضی برضارہتے ہیں اور اس کے نور کے مشاہدے میں ڈوبے ہوتے ہیں اورشہدا وہ لوگ ہیںجو اللہ کی عظمت کے میدان میں اس کی محبت کی تلواروں سے مارے جائیں،جب کہ صالحین وہ لوگ ہیں جو آزمائش کی زنجیروں سے نکل کرجنت ،روح اور ریحان کی نعمتوں سے مالامال رہتے ہیں اور رحمن کے جمال کا مشاہد ہ کرتے ہیں۔‘‘ (عرائس البیان، ج :۱،ص:۲۶۰)
اب چوں کہ ظاہری حیات سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نہیں رہے لیکن مذکورہ تینوں جماعتیں رہتی دنیاتک موجود رہیں گی اور پیغام نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یعنی آیات الٰہیہ کا بیان،تزکیۂ نفس،تصفیۂ قلب اورکتاب وحکمت کی تعلیم کوعام کرتی رہیں گی ۔مومنین کی ہدایت بس اسی میں ہے کہ وہ ان تینوں مقربین کی جماعت سے چمٹ جائیں کیوں کہ یہی وہ لوگ ہیں جن پراللہ نے احسان کیاہے اور اسی جماعت کے ساتھ رہنے کی تعلیم بھی دی ہے، ارشاد خداوندی ہے:
’’جو میری طرف مائل ہیں ان کے راستے کی پیروی کرو۔‘‘ (سورۂ لقمان، آیت: ۱۵)
کیوں کہ اس جماعت کے برخلاف یاتو وہ راستہ ہے جس پراللہ نے غضب کیاہے یااس راستے کامسافر حق سے بھٹکاہواہے جیساکہ یہود ونصاریٰ ۔
علامہ اسماعیل نے تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ:
’’ یہودیوں پر اللہ کا غضب اس لیے ہواکہ وہ علم کے باوجود عمل نہیں کرتے تھے اور نصاریٰ کو علم ہی نہیں تھااس لیے وہ راہ حق سے بھٹک گئے جب کہ مومنین کاراستہ وہ ہے جو علم وعمل کا جامع ہو۔‘‘
علامہ صدرالدین روز بہان رحمۃ اللہ علیہ نے’’ مغضوب اور ضالین‘‘ کے کئی معنی بتائے ہیں، ان میں سے ایک معنی یہ ہے کہ جوباب عبودیت سے الگ ہوگیاان پر اللہ کا غضب ہے اور جو معرفت الٰہی نہ حاصل کرسکاوہ گمراہ ہے یاجسے اللہ نے دور کردیاوہ مغضوب ہے اورجو’’وصال الی اللہ‘‘ کی لذت نہ حاصل کرسکاوہ ضال (گمراہ)ہے۔گویایوں کہاجائے کہ ایمان انفصال اور وصال کے مجموعے کانام ہے کہ بندہ خلق سے بلکہ اپنی ذات سے بھی الگ ہوجائے اور محض دیدار مولیٰ کی لذت سے آشناہو۔کیونکہ ایمان خوف وامید کی درمیانی کیفیت کانام ہے،اللہ نے ارشاد فرمایا:
وَادْعُوہُ خَوْفاً وَطَمَعًا(۵۶)( اعراف) یعنی اپنے رب کو امید اور خوف کے ساتھ پکارو۔
داعی اسلام شیخ ابوسعیدشاہ احسان اللہ محمدی فرماتے ہیں: ’’ ہمیشہ ۳۶گروہ مغضوب میں اور ۳۶ضالین میں ہوں گے اور ہدایت ہمیشہ صراط مستقیم میں ہوگی، یایوں کہا جائے کہ ۳۶گروہ ایسے ہوں گے جوعداوت میں گمراہ ہوںگے اور ۳۶گروہ غلومحبت میں حدود شریعت سے آگے بڑھ جائیں گے جیساکہ قوم موسیٰ (یہود)نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایسی عداوت کی کہ نبوت کاانکار ہی نہیںکیا بلکہ تہمت لگانے سے بھی باز نہ آئے اور قوم عیسی (نصاریٰ)کو اپنے نبی عیسیٰ علیہ السلام کی محبت میں ایسا غلو ہواکہ انھیںاللہ اور ابن اللہ تک کہہ دیا۔ایسے ہی جو مستحبات کو واجبات کادرجہ دے اور واجبات وفرائض کوترک کردے یاکوئی مستحبات کو عداوت میں شرک و کفر سے تعبیر کرے تو عین ممکن ہے کہ وہ یاتو مغضوبین میں سے ہے یاضالین میں سے۔ ‘‘
تفسیر ابن کثیر کی عبارت سے بھی یہی اشارہ ملتاہے گویا ایک افراط اور دوسراتفریط میں بے راہ ہوگئے ۔
خواہ افراط ہویاتفریط،کمی ہویازیادتی، غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ان سب کے پیچھے جذبۂ حسد کار فرماہے ۔ حالانکہ ایمان کا تقاضہ اَلْحُبُّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ لِلہِ ہے نہ کہ لِلْھَویٰ یعنی محبت و عداوت کی بنیاد خواہش نفس نہ ہو بلکہ محض اللہ کے لیے ہو، جیسا کہ رب لم یزل نے ارشاد فرمایا:
وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَشَدُّ حُبّاً لِلہ ترجمہ:مومنین کو اللہ سے اور اللہ کے لیے شدید محبت ہوتی ہے ۔
حسد ایسا پوشیدہ مرض ہے جو انسان کو ادنیٰ اور خسارے کی طرف لے جانے والاہے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہماکی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ضرور میری امت پر بنی اسرائیل جیسا ایک زمانہ آئے گا کہ جس میں لوگ اپنی ماؤں کے ساتھ بدکاری کریں گے جیسا کہ بنی اسرائیل کرتے تھے، بنی اسرائیل بہترّ(۷۲) فرقوں میں بٹ گئی اور میری امت تہترّ(۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی جس میں ایک فرقے کے علاوہ سب جہنمی ہوں گے۔
صحابہ نے عرض کیا :یا رسول اللہ! وہ خوش نصیب جماعت کون ہوگی؟ فرمایاجس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں۔ ( مشکوٰۃ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ص: ۳۰)
قرآن پاک میں ہے: آپ فرما دیں کہ یہ میرا اور میرے ماننے والوں کا راستہ ہے جو کھلے طور پر اللہ کی دعوت دیتے ہیں۔ ( سورۂ یوسف، آیت: ۱۰۸)
داعیٔ اسلام شیخ ابو سعیدشاہ احسان اللہ محمدی ادام اللہ ظلہ علینا نے اس حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’ وہ بہتّر(۷۲) جماعت جو گمراہ اور جہنمی ہے وہی جماعت ہوگی جو حسد کے سمندر میں غرق ہوگی جیساکہ لفظ حسد اپنے اعداد کے اعتبار سے اشارہ کرتاہے۔ آپ لفظ ’حسد‘ کا عدد نکالیں گے تو مجموعہ عدد بہتّر(۷۲)ہوگا۔‘‘
نتیجہ واضح ہے کہ جنتی کہلانے کامستحق اور حقیقت میں جنتی وہی شخص ہوگاجو حسد سے خالی ہو، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَنَزَعْنَامَافِیْ صُدُوْرِھِمْ مِنْ غِلّ۔ (پ:۸،ع:۱۲) ترجمہ:اور ہم نے ان کے سینوں میں سے کینے کھینچ لیے۔ (کنز الایمان)
یعنی دنیامیں ان کے درمیان جو حسد وکینہ تھاہم نے اسے ختم کرکے ان کے دلوں میں محبت والفت ڈال دیا۔حضرت علی فرماتے ہیں کہ مجھے امید ہے کہ میں اور عثمان ،طلحہ اور زبیران میں سے ہوں جن کے حق میں اللہ رب العز ت نے یہ آیت نازل کی ہے ۔
اللہ ہمیں ظاہری نجاستوں کے ساتھ ساتھ حسد وکینہ جیسی باطنی گندگیوں سے بھی پاک کرے۔(آمین )
لیکن اخیرمیں عرض کردوں کہ ان باطنی امراض کے حکیم حاذق وہی انعام یافتہ گروہ ہے جنہیں صدیقین ،شہدا، صوفیا اور صالحین کہاجاتاہے۔ اگرواقعی جنت کے بدلے اپنی جان ومال کواللہ سے بیچنے پر یقین ہے تو ہمیںسچوں کی صحبت میں رہناچاہیے۔ شہداکی طرح مسلسل اسلام کو اپنے اندر قائم کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے اور صوفیا سے جلوۂ جمال رحمن سے لطف اندوز ہونے اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کاطریقہ سیکھناچاہیے تاکہ وہ اسلام جو اللہ کو مطلوب ہے وہ ہمارے دلوں میں راسخ ہوجائے ۔