وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ(۸)

اور کچھ لوگ کہتے ہیں (ف۱۲) کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں

(ف12)

اس سے معلوم ہوا کہ ہدایت کی راہیں ان کے لئے اول ہی سے بند نہ تھیں کہ جائے عذر ہوتی بلکہ ان کے کُفر و عناد اور سرکشی و بے دینی اور مخالفتِ حق و عداوتِ انبیاء علیہم السلام کا یہ انجام ہے جیسے کوئی شخص طبیب کی مخالفت کرے اور زہرِ قاتل کھا لے اور اس کے لئے دوا سے اِنتفاع کی صورت نہ رہے تو خود ہی مستحقِ ملامت ہے ۔

یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹)

فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو (ف۱۳) اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں

(ف13)

شانِ نُزول : یہاں سے تیرہ آیتیں منافقین کی شان میں نازل ہوئیں جو باطن میں کافِر تھے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے ، اللہ تعالٰی نے فرمایا ” مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ” وہ ایمان والے نہیں یعنی کلمہ پڑھنا ، اسلام کا مدعی ہونا ، نماز روزہ ادا کرنا ، مومن ہونے کے لئے کافی نہیں جب تک دل میں تصدیق نہ ہو ۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ جتنے فرقے ایمان کا دعوٰی کرتے ہیں اور کُفر کا اعتقاد رکھتے ہیں سب کا یہی حکم ہے کہ کافِر خارج از اسلام ہیں ، شرع میں ایسوں کو منافق کہتے ہیں ، ان کا ضرر کھلے کافِروں سے زیادہ ہے ۔

” مِنَ النَّاسِ ” فرمانے میں لطیف رَمْز یہ ہے کہ یہ گروہ بہتر صفات و انسانی کمالات سے ایسا عاری ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف و خوبی کے ساتھ نہیں کیا جاتا ، یوں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی آدمی ہیں ۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو بشر کہنے میں اس کے فضائل و کمالات کے اِنکار کا پہلو نکلتا ہے اس لئے قرآنِ پاک میں جا بجا انبیاء کرام کے بشر کہنے والوں کو کافِر فرمایا گیا اور درحقیقت انبیاء کی شان میں ایسا لفظ ادب سے دور اور کُفّار کا دستور ہے ۔

بعض مفسِّرین نے فرمایا ” مِنَ النَّاسِ ” سامعین کو تعجب دلانے کے لئے فرمایا گیا کہ ایسے فریبی مکار اور ایسے احمق بھی آدمیوں میں ہیں ۔

فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ-فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۱۰)

ان کے دلوں میں بیماری ہے (ف۱۴) تو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھائی اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہے بدلہ ان کے جھوٹ کا (ف۱۵)

(ف14)

اللہ تعالٰی اس سے پاک ہے کہ اس کو کوئی دھوکا دے سکے ، وہ اسرار و مخفیات کا جاننے والا ہے ، مراد یہ ہے کہ منافق اپنے گمان میں خدا کو فریب دینا چاہتے ہیں یا یہ کہ خدا کو فریب دینا یہی ہے کہ رسول علیہ السلام کو دھوکا دینا چاہیں کیونکہ وہ اس کے خلیفہ ہیں اور اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب کو اَسرار کا علم عطا فرمایا ہے ، وہ ان منافقین کے چُھپے کُفر پر مطلع ہیں اور مسلمان ان کے اطلاع دینے سے باخبر تو ان بے دینوں کا فریب نہ خدا پر چلے ، نہ رسول پر ، نہ مؤمنین پر بلکہ درحقیقت وہ اپنی جانوں کو فریب دے رہے ہیں ۔

مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ تقیہ بڑا عیب ہے جس مذہب کی بنا تقیہ پر ہو وہ باطل ہے ، تقیہ والے کا حال قابلِ اعتماد نہیں ہوتا ، توبہ ناقابلِ اطمینان ہوتی ہے اس لئے عُلَماء نے فرمایا ” لَاتُقْبَلُ تَوْبَۃُ الزِّنْدِیْقِ ”۔

(ف15)

بدعقیدگی کو قلبی مرض فرمایا گیا اس سے معلوم ہوا کہ بدعقیدگی روحانی زندگی کے لئے تباہ کُن ہے مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ جھوٹ حرام ہے اس پر عذابِ اَلیم مرتب ہوتا ہے ۔

وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِۙ-قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ(۱۱)

اورجو ان سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو (ف۱۶) تو کہتے ہیں ہم تو سنوارنے والے ہیں

(ف16)

مسئلہ : کُفّار سے میل جول ، ان کی خاطر دین میں مُداہنت اور اہلِ باطل کے ساتھ تَمَلّق و چاپلوسی اور ان کی خوشی کے لئے صُلحِ کُل بن جانا اور اظہارِ حق سے باز رہنا شانِ منافق اور حرام ہے ، اسی کو منافقین کا فساد فرمایا گیا ۔ آج کل بہت لوگوں نے یہ شیوہ کر لیا ہے کہ جس جلسہ میں گئے ویسے ہی ہو گئے ، اسلام میں اس کی ممانعت ہے ظاہر و باطن کا یکساں نہ ہونا بڑا عیب ہے ۔

اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰكِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ(۱۲)

سنتا ہے وہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں

وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُؕ-اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ(۱۳)

اور جب ان سے کہا جائے ایمان لاؤجیسے اور لوگ ایمان لا ئے ہیں (ف۱۷)تو کہیں کیا ہم احمقوں کی طرح ایما ن لے آئیں (ف۱۸)سنتا ہے وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں (ف۱۹)

(ف17)

یہاں ” اَلنَّاسُ ” سے یا صحابہ کرام مراد ہیں یا مومنین کیونکہ خدا شناسی ، فرمانبرداری و عاقبت اندیشی کی بدولت وہی انسان کہلانے کے مستحق ہیں ۔

مسئلہ : ” اٰمِنُوْا کَمَا اٰمَنَ ” سے ثابت ہوا کہ صالحین کا اِتبّاع محمود و مطلوب ہے ۔

مسئلہ : یہ بھی ثابت ہوا کہ مذہبِ اہلِ سنّت حق ہے کیونکہ اس میں صالحین کا اِتّباع ہے ۔

مسئلہ : باقی تمام فرقے صالحین سے مُنحَرِف ہیں لہذا گمراہ ہیں ۔

مسئلہ : بعض عُلَماء نے اس آیت کو زندیق کی توبہ مقبول ہونے کی دلیل قرار دیا ہے ۔ (بیضاوی) زندیق وہ ہے جو نبوّت کا مُقِرّ ہو ، شعائرِ اسلام کا اظہار کرے اور باطن میں ایسے عقیدے رکھے جو بالاتفاق کُفر ہوں ، یہ بھی منافقوں میں داخل ہے ۔

(ف18)

اس سے معلوم ہوا کہ صالحین کو بُرا کہنا اہلِ باطل کا قدیم طریقہ ہے ، آج کل کے باطل فرقے بھی پچھلے بزرگوں کو بُرا کہتے ہیں ، روافض خلفائے راشدین اور بہت صحابہ کو خوارج ، حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے رُفقاء کو ، غیر مقلِّد ائمۂ مجتہدین بالخصوص امامِ اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو ، وہابیہ بکثرت اولیاء و مقبولانِ بارگاہ کو ، مرزائی انبیاءِ سابقین تک کو قرآنی (چکڑالی) صحابہ و محدثین کو ، نیچری تمام اکابرِ دین کو برا کہتے اور زبانِ طعن دراز کرتے ہیں ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ سب گمراہی میں ہیں ، اس میں دیندار عالِموں کے لئے تسلّی ہے کہ وہ گمراہوں کی بدزبانیوں سے بہت رنجیدہ نہ ہوں سمجھ لیں کہ یہ اہلِ باطل کا قدیم دستور ہے ۔ (مدارک)

(ف19)

منافقین کی یہ بدزبانی مسلمانوں کے سامنے نہ تھی ، ان سے تو وہ یہی کہتے تھے کہ ہم باخلاص مومن ہیں جیسا کہ اگلی آیت میں ہے ” اِذَالَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْآ اٰمَنَّا ” یہ تبرّا بازیاں اپنی خاص مجلسوں میں کرتے تھے ، اللہ تعالٰی نے ان کا پردہ فاش کر دیا ۔ (خازن) اسی طرح آج کل کے گمراہ فرقے مسلمانوں سے اپنے خیالاتِ فاسدہ کو چھپاتے ہیں مگر اللہ تعالٰی ان کی کتابوں اور تحریروں سے ان کے راز فاش کر دیتا ہے ۔ اس آیت سے مسلمانوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ بے دینوں کی فریب کاریوں سے ہوشیار رہیں دھوکا نہ کھائیں ۔

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّاۚۖ-وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْۙ-قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْۙ-اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ(۱۴)

اور جب ایمان والوں سے ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوں (ف۲۰) تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو یونہی ہنسی کرتے ہیں (ف۲۱)

(ف20)

یہاں شیاطین سے کُفّار کے وہ سردار مراد ہیں جو اغواء میں مصروف رہتے ہیں ۔ (خازن و بیضاوی) یہ منافق جب ان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں اور مسلمانوں سے ملنا مَحض براہِ فریب و استہزاء اس لئے ہے کہ ان کے راز معلوم ہوں اور ان میں فساد انگیزی کے مواقع ملیں ۔ (خازن)

(ف21)

یعنی اظہارِ ایمان تمسخُر کے طور پر کیا یہ اسلام کا انکار ہوا ۔

مسئلہ : انبیاء علیہم السلام اور دین کے ساتھ استہزاء و تمسخُر کُفر ہے ۔

شانِ نُزول : یہ آیت عبداللہ بن اُبَیْ وغیرہ منافقین کے حق میں نازل ہوئی ایک روز انہوں نے صحابۂ کرام کی ایک جماعت کو آتے دیکھا تو اِبْنِ اُبَی نے اپنے یاروں سے کہا دیکھو تو میں انہیں کیسا بناتا ہوں جب وہ حضرات قریب پہنچے تو اِبْنِ اُبَی نے پہلے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا دستِ مبارک اپنے ہاتھ میں لے کر آپ کی تعریف کی پھر اسی طرح حضرت عمر اور حضرت علی کی تعریف کی (رضی اللہ تعالٰی عنہم) حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا اے اِبْنِ اُبَی خدا سے ڈر ، نفاق سے باز آ کیونکہ منافقین بدترین خَلق ہیں ، اس پر وہ کہنے لگا کہ یہ باتیں نفاق سے نہیں کی گئیں بخدا ہم آپ کی طرح مومنِ صادق ہیں ، جب یہ حضرات تشریف لے گئے تو آپ اپنے یاروں میں اپنی چالبازی پر فخر کرنے لگا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ منافقین مؤمنین سے ملتے وقت اظہارِ ایمان و اخلاص کرتے ہیں اور ان سے علیحدہ ہو کر اپنی خاص مجلسوں میں ان کی ہنسی اڑاتے اور استہزاء کرتے ہیں ۔ (اخرجہ الثعلبی و الواحدی و ضعفہ ابن حجر و السیوطی فی لباب النقول)

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام و پیشوایانِ دین کا تمسخُر اُڑانا کُفر ہے ۔

اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(۱۵)

اللہ ان سے استہزاء فرماتا ہے (ف۲۲) ( جیسا اس کی شان کے لائق ہے) اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں

(ف22)

اللہ تعالٰی استہزاء اور تمام نقائص و عیوب سے منزّہ و پاک ہے ۔ یہاں جزاءِ استہزاء کو استہزاء فر مایا گیا تاکہ خوب دلنشین ہو جائے کہ یہ سزا اس ناکردنی فعل کی ہے ، ایسے موقع پر جزاء کو اسی فعل سے تعبیر کرنا آئینِ فصاحت ہے جیسے جَزَاءُ سَیِّئَۃ سَیِّئَۃ میں کمالِ حُسنِ بیان یہ ہے کہ اس جملہ کو جملۂ سابقہ پر معطوف نہ فرمایا کیونکہ وہاں استہزاء حقیقی معنی میں تھا ۔

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى۪-فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ(۱۶)

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی (ف۲۳) تو ان کا سودا کچھ نفع نہ لایا اور وہ سودے کی راہ جانتے ہی نہ تھے (ف۲۴)

(ف23)

ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنا یعنی بجائے ایمان کے کُفر اختیار کرنا نہایت خسارہ اور ٹَوٹے کی بات ہے

شانِ نُزول : یہ آیت یا ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جو ایمان لانے کے بعد کافِر ہو گئے یا یہود کے حق میں جو پہلے سے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے تھے مگر جب حضور کی تشریف آوری ہوئی تو منکِر ہو گئے یا تمام کُفّار کے حق میں کہ اللہ تعالٰی نے انہیں فِطرتِ سلیمہ عطا فرمائی ، حق کے دلائل واضح کئے ، ہدایت کی راہیں کھولیں لیکن انہوں نے عقل و انصاف سے کام نہ لیا اور گمراہی اختیار کی ۔

مسئلہ : اس آیت سے بیع تعاطی کا جواز ثابت ہوا یعنی خرید و فروخت کے الفاظ کہے بغیر مَحض رضا مندی سے ایک چیز کے بدلے دوسری چیز لینا جائز ہے ۔

(ف24)

کیونکہ اگر تجارت کا طریقہ جانتے تو اصل پونجی (ہدایت) نہ کھو بیٹھتے ۔

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷)

ان کی کہاوت اس کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو جب اس سے آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں سوجھتا (ف۲۵)

(ف25)

یہ ان کی مثال ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے کچھ ہدایت دی یا اس پر قدرت بخشی پھر انہوں نے اس کو ضائع کر دیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا ان کا مال حسرت و افسوس اور حیرت و خوف ہے ۔ اس میں وہ منافق بھی داخل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل میں کُفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کر دیا اور وہ بھی جو مؤمن ہونے کے بعد مرتد ہو گئے اور وہ بھی جنہیں فِطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق کو واضح کیا مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی اور جب حق سننے ، ماننے ، کہنے ، راہِ حق دیکھنے سے محروم ہوئے تو کان ، زبان ، آنکھ سب بے کار ہیں ۔

صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ(۱۸)

بہرے گونگے اندھے تو وہ پھر آنے والے نہیں

اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹)

یا جیسے آسمان سے اُترتا پانی کہ اس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (ف ۲۶) اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں کڑک کے سبب موت کے ڈر سے (ف ۲۷) اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے (ف۲۸)

(ف26)

ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والوں کی یہ دوسری تمثیل ہے کہ جیسے بارش زمین کی حیات کا سبب ہوتی ہے اور اس کے ساتھ خوفناک تاریکیاں اور مُہِیب گرج اور چمک ہوتی ہے اسی طرح قرآن و اسلام قلوب کی حیات کا سبب ہیں اور ذکرِ کُفر و شرک و نفاق ظلمت کے مشابہ جیسے تاریکی رَہْرَو کو منزل تک پہنچنے سے مانع ہوتی ہے ایسے ہی کُفر و نفاق راہ یابی سے مانع ہیں اور وعیدات گرج کے اور حُجَجِ بیِّنہ چمک کے مشابہ ہیں ۔

شانِ نُزول : منافقوں میں سے دو آدمی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے مشرکین کی طرف بھاگے ، راہ میں یہی بارش آئی جس کا آیت میں ذکر ہے اس میں شدت کی گرج کڑک اور چمک تھی ، جب گرج ہوتی تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے کہ کہیں یہ کانوں کو پھاڑ کر مار نہ ڈالے ، جب چمک ہوتی چلنے لگتے ، جب اندھیری ہوتی اندھے رہ جاتے ، آپس میں کہنے لگے خدا خیر سے صبح کرے تو حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ہاتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس میں دیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اسلام پر ثابت قدم رہے ۔ ان کے حال کو اللہ تعالٰی نے منافقین کے لئے مثل (کہاوت) بنایا جو مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے کہ کہیں حضور کا کلام ان میں اثر نہ کرجائے جس سے مر ہی جائیں اور جب ان کے مال و اولاد زیادہ ہوتے اور فتوح و غنیمت ملتی تو بجلی کی چمک والوں کی طرح چلتے اور کہتے کہ اب تو دینِ محمّدی سچا ہے اور جب مال و اولاد ہلاک ہوتے اور کوئی بلا آتی تو بارش کی اندھیریوں میں ٹھٹک رہنے والوں کی طرح کہتے کہ یہ مصیبتیں اسی دین کی وجہ سے ہیں او راسلام سے پلٹ جاتے ۔ (لباب النقول للسیوطی)

(ف27)

جیسے اندھیری رات میں کالی گھٹا چھائی ہو اور بجلی کی گرج و چمک جنگل میں مسافر کو حیران کرتی ہو اور وہ کڑک کی وحشت ناک آواز سے باندیشۂ ہلاک کانوں میں انگلیاں ٹھونستا ہو ، ایسے ہی کُفّار قرآنِ پاک کے سننے سے کان بند کرتے ہیں اور انہیں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں اس کے دلنشین مضامین اسلام و ایمان کی طرف مائل کر کے باپ دادا کا کُفری دین ترک نہ کرا دیں جو ان کے نزدیک موت کے برابر ہے ۔

(ف28)

لہذا یہ گریز انہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتی کیونکہ وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر قہرِ الٰہی سے خلاص نہیں پا سکتے ۔

یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْؕ-كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِۗۙ-وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْاؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۲۰)

بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نگاہیں اُچک لے جائے گی (ف۲۹) جب کچھ چمک ہوئی اس میں چلنے لگے(ف ۳۰) اور جب اندھیرا ہوا کھڑے رہ گئے اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں لے جاتا (ف۳۱) بےشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے (ف۳۲)

(ف29)

جیسے بجلی کی چمک ، معلوم ہوتا ہے کہ بینائی کو زائل کر دے گی ایسے ہی دلائلِ باہرہ کے انوار ان کی بصر وبصیرت کو خیرہ کرتے ہیں ۔

(ف30)

جس طرح اندھیری رات اور ابر و بارش کی تاریکیوں میں مسافر مُتحیَّر ہوتا ہے ، جب بجلی چمکتی ہے توکچھ چل لیتا ہے جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی اور آرام کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشقت پیش آتی ہے تو کُفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں ، اسی مضمون کو دوسری آیت میں اس طرح ارشاد فرمایا ” اِذَا دُعُوْآ اِلیَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ مُّعْرِضُوْنَ وَ اِنْ یَّکُنْ لَّھُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْا اِلَیْہِ مُذْعِنِیْنَ ” ۔ (خازن صاوی وغیرہ)

(ف31)

یعنی اگرچہ منافقین کا طرزِ عمل اس کا مقتضی تھا مگر اللہ تعالٰی نے ان کے سمع و بصر کو باطل نہ کیا ۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ اسباب کی تاثیر مشیت الٰہیہ کے ساتھ مشروط ہے بغیر مشیت تنہا اسباب کچھ نہیں کر سکتے ۔

مسئلہ : یہ بھی معلوم ہوا کہ مشیت اسباب کی محتاج نہیں ، وہ بے سبب جو چاہے کر سکتا ہے ۔

(ف32)

شئی اسی کو کہتے ہیں جسے اللہ چاہے اور جو تحتِ مشیت آ سکے ، تمام ممکنات شئی میں داخل ہیں اس لئے وہ تحتِ قدرت ہیں اور جو ممکن نہیں واجب یا ممتنع ہے اس سے قدرت و ارادہ متعلق نہیں ہوتا جیسے اللہ تعالٰی کی ذات و صفات واجب ہیں اس لئے مقدور نہیں ۔

مسئلہ : باری تعالٰی کے لئے جھوٹ اور تمام عیوب محال ہیں اسی لئے قدرت کو ان سے کچھ واسطہ نہیں ۔