خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی کرامتیں

مردہ زندہ ہو گیا: ایک روز آپ کی خدمت میں ایک عورت روتی ہوئی آئی، عرض کی کہ میرے بیٹے کو حاکمِ شہر نے قتل کر دیا،آپ کو رحم آگیا اور خدام کے ساتھ عصا لئے ہوئے قتل گاہ جا پہنچے۔ مقتول کا سر دھڑ سے ملا کر فرمایا کہ اے شخص اگر واقعی تو بے گناہ مارا گیا ہے تو اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو۔ زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکلنے تھے کہ مقتول کی نعش کو حرکت ہوئی، زندہ ہو گیا اور اپنا سر اٹھا کر خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے پائوں پر رکھ دیا اور خوشی خوشی اپنی ماں کے ساتھ چلا گیا حاکمِ شہر یہ سن کر لرز گیا اور اس نے آکر معافی مانگی۔

چھ روٹیاں: ایک شخص نے خواجہ فرید الدین گنجِ شکر کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ میری زندگی بڑی ہی تنگ دستی میں گزر رہی تھی میں نے خواجہ غریب نواز کی طرف رجوع کیا، خواب دیکھا کہ آپ نے تشریف لا کر مجھے چھ روٹیاں عنایت کیں۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ساٹھ برس گزر چکے ہیں ہر روز مجھے ضرورت کے مطابق خرچ مل جاتا ہے اور میں اور میرے تمام گھر والے آرام و آسودگی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ بابا صاحب نے فرمایا کہ وہ خواب نہ تھا فضلِ الٰہی تھا کہ َسرِ(سردار) حلقۂ اولیاء نے تجھ پر کرم فرمایا اور تیری عسرت رفع ہو گئی۔

غیب کی خبر: ایک روز آپ مشاہدۂ حق میں مصروف تھے کہ ایک مرید نے آکر عرض کی کہ حضور حاکمِ شہر نے مجھے بہت تنگ کر رکھا ہے اور میری جلا وطنی کا حکم بھی صادر کر دیا۔ پوچھا حاکم ہے کہاں؟ کہا: سوار ہو کر کہیں باہر گیا ہے۔ فرمایا تو جا وہ گھوڑے سے گر کر مر گیا۔ واپس گیا تو یہ خبر مشہور تھی۔

ظالم حاکم تائب ہو گیا: جب آپ ہرات سے سبزوار تشریف لائے ہیں تو معلوم ہوا کہ یہاں کا حاکم شیعہ ہے اور ظالم ہے، جو شخص اپنے بچوں کا نام ابوبکر یا عمر رکھتا ہے قتل کرا دیتا ہے، بے حد متعصب ہے، نام یادگار مرزا ہے اور یہ اسی کا باغ ہے جس میں لبِ حوض آپ مقیم ہوئے۔ لوگوں نے منع بھی کیا کہ آپ یہاں نہ بیٹھیں، سخت ظالم ہے مگر آپ نے پرواہ نہ کی اتنے میں حاکم بھی بڑے شکوہ و طمطراق کے ساتھ آپہنچا، منع کرنا تو کجا نظر جو پڑی لرزنے لگا اور بیہوش ہو کر گرپڑا۔ نہ صرف اس پر بلکہ اس کے تمام امراء و ملازمین پر دہشت طاری ہو گئی آپ رحم دل بھی بہت تھے اور کس کی جرأت تھی آپ نے خود ہی اٹھ کر اس کے منہ پر پانی چھڑکا، ہوش میں آیا، توبہ کی اور اس کے تمام امراء وغیرہ بھی تائب ہو کر مرید ہو گئے اور یادگار مرزا نے توبہ کر کے اپنا تمام خزانہ اور زر و جواہر اللہ کی راہ پر لٹا دئے۔ غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کردیا۔ اللہ کے دین اور رحمن کریم کا کرم ملاحظہ کیجئے کہ یہی شخص جس کا نامۂ اعمال پورا کا پورا سیاہ تھا آن کی آن میں قدوسیوں کی جماعت میں شامل ہوگیا۔ باغی، دوست بن گیااور خلافت پاکر ہرات کا صاحب ولایت ہوا۔

اونٹ بیٹھے ہی رہ گئے: حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اجمیر شریف میں بالکل نووارد تھے جا کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے، ایک شخص نے روکا کہ یہاں مہاراج کے اونٹ بیٹھتے ہیں۔ آپ اٹھ کر تالاب انا ساگر پر جا بیٹھے، جہاں صدہا بت خانے تھے، اگلے روز اونٹوں کو اٹھانا چاہا تو وہاں سے نہ اٹھ سکے بادشاہ کے عملہ بہت پریشان ہوئے کہ آخر ماجرا کیا ہے، آخر کار وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ کل ہم نے ایک فقیر کو یہاں سے زبردستی اٹھا دیا تھا شاید یہ اس کی بددعا کا نتیجہ ہے، تمام لوگوں نے آپ کو تلاش کیا اور انا ساگر پر بیٹھا ہوا پایا، آپ سے معافی مانگی اس کے بعد اونٹ اپنی جگہ سے اٹھ سکے۔

جوگی جے پال سے عبداللہ تک: راجہ پرتھوی راج بالکل گھبرا چکا تھا اسی عالم میں اس نے جے پال جوگی کو جو ارضِ ہند کا سب سے نامور اور بڑا جادوگر تھا بلوایا، وہ مِرگ چھالا (ہرن کی بالوں سمیت کھال جس پر بیٹھ کر درویش لوگ عبادت کرتے ہیں) پر ڈیڑھ ہزار چیلوں کو ساتھ لئے ہوئے بہ سرعت اجمیر پہنچ گیا اور ایک خوفناک قوت کے ساتھ مقابلہ کے لئے بڑھا اس طرح کہ جادو کے شیر، اژدہے ساتھ ہیں اور سب آگ کے چکر پھینکتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، مخلوقِ عظیم ساتھ تھی، ہمراہی جادو کا یہ دہشت خیز سامان دیکھ کر گھبرائے۔ آپ نے سب کے گرد حصار کھینچ دیا، اب ایک طرف سے سانپ بڑھنے شروع ہوئے، دوسری طرف سے شیر چلے اوپر سے سامنے سے آگ برسنی شروع ہوگئی۔ دہشت ناک سما تھا، اہلِ شہر تک لرز رہے تھے، کوئی حصار کے اندر قدم نہ رکھ سکتا تھا، آپ نماز میں مصروف تھے جس کے بعد آپ نے ایک مٹھی خاک جو پھونک کر پھینکی سارا طلسم فنا ہو کر رہ گیا۔ اب میدان صاف تھااور جے پال ہزیمت زدہ شکست خوردہ کھڑا تھا، اسے پرواز کا پورا ملکہ تھا، چنانچہ اڑا تو افلاک کی بلندیوں میں جا داخل ہوا۔ مگر حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کھڑائوں کو حکم فرمایا آپ کی کھڑائوں اسے مارتے ہوئے زمین پر لاگرائی اب اس نے مطیع ہو کر،پائوں پر گر کر معافی مانگی، مسلمان ہوا اور مرتبۂ کمال کو پہنچا۔ اسلامی نام عبداللہ رکھاگیا۔ یہ اللہ کی دین ہے کہ وہ انتہائی شقاوت پسندوں اور بد بختوں کو بھی ہدایت دے کر آن کی آن میں انتہائی سعید بنا دیتا ہے۔

بے جان ہو گئے: کسی نے راجہ سے جا لگائی کہ غیر مذہب کے کچھ لوگ ہماری پرستش گاہ کے قریب آٹھہرے ہیں، راجہ نے حکم دیا کہ پکڑ کر نکال دو۔ سرہنگانِ راجہ جو پہنچے اور ہجوم کیا تو حضور نے آیۃ الکرسی خاک کی ایک چٹکی پر پڑھ کر پھینک دی جس پر پڑی وہ وہیں کا وہیں بے حس و حرکت ہو کر رہ گیا۔ تیسرا ہی روز تھا کہ راجہ اور تمام اہلِ شہر تالاب پر پوجا کیلئے جمع ہوئے، رام دیو مہنت ایک جماعتِ کثیر کے ساتھ آپ کو بجبر اٹھانے کے لئے بڑھا۔ نظر جو اٹھائی تو جسم پر لرزہ طاری تھا۔ اسی وقت قدموں پر گرا اور اسلام قبول کر لیا۔ یہ پہلا مسلمان تھا جو آگے چل کر بڑے مرتبہ پر فائز ہوا۔

مولانا محمد شاکر علی رضوی نوری